Qalamkar Website Header Image

حسینی برہمن کون ہیں؟

واقعہ کربلا کے عظیم تر المناک سانحہ نے حق پسند انسانی معاشرے اورانسانی تہذیب کو ہر دور میں متاثرکیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں شہید انسانیت امام حسینؑ  کی یاد نہ صرف مسلم معاشرہ کی تہذیبی وتاریخی روایت رہی ہے بلکہ غیر مسلم معاشرہ میں بھی انسانیت کے ا س عظیم رہنماکی یاد بڑی عقیدت واحترام کے ساتھ عصرحاضرمیں بھی قائم ہے۔ مشترکہ تہذیب کے گہوارہ ہندوستان، جہاں ہندو برادری کی امام حسین  ؑ اور ان کے رفقا سے عقیدت صدیوں پرانی ہے۔

اینگلو سیکسن کرونیکل 680 اے ڈی کے مطابق سانحہ کربلا کے اثرات ساری دنیا پر پڑے جبکہ اسی کرونیکل کی شرح لکھنے والوں کے مطابق یہ اثرات تاحال جاری ہیں۔
قصہ مختصر حسینی برہمن کے حوالے سے عرض ہے کہ حسینی برہمن رائے سہاس کی اولادوں میں سے ہیں۔
رائے سہاس ایک برہمن ہندوراجہ تھا جسے گیتا گیان کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کی خبر تھی۔

راجہ سہاس تک جب یہ نبی کریمﷺ کی نبوت ظاہر ہونے کی خبر پہنچی تو رسول اکرم ﷺمدینے ہجرت کرچکے تھے، راجہ اپنے 7 رفقاء کے ہمراہ حضورکریم ﷺکی خدمت میں پہنچا اور دعوت حق طلب کرنے سے پہلے آپﷺ کی خدمت میں چند تحائف رکھے اور اپنی عقل کے مطابق درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ہی رسولﷺ برحق ہیں تو مجھے ان چیزوں کا استعمال بتائیں، رسول کریم ﷺنے اسے پان کے پتے اور چھالیہ کی افادیت اور نقصانات سے آگاہ کیا، کمر بند کی طرز پر ازار بند کے استعمال کا طریقہ بتایا، اسی طرح سے کچھ سرزمین ہند پر گزرے حالات، واقعات، مقامات سے آگاہ کیا۔ راجہ سہاس نے دعوت حق کو قبول کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔

واپسی میں راجہ سہاس کا ضلع غازی آباد کے مقام پر انتقال ہوگیا , یہ ضلع دلی اور علی گڑھ کے عین درمیان میں واقع ہے جہاں اس قبر بھی موجود ہے، جو کہ اب اسٹیشن کے قریب سڑک کنارکے ہے۔ قبر پر سنسکرت میں یہ جملہ درج کہ : میں نے حق کے دعوت قبول کی اور یہی میری بخشش کا سامان ہے، راجہ سہاس‘‘۔
راجہ سہاس کے بعد رائے خاندان منتقلیء اقتدار کے سبب اختلافات کا شکار ہوا، راجپوتوں میں اقتدار کا بڑا حصہ داہر کے حصے میں آیا۔ داہر کے دور میں ہاشمی خاندان اور رائے خاندان میں مراسم پختہ ہوچکے تھے، جبکہ رائے خاندان سے داہر کی بھتیجی بعد از قبول اسلام ہاشمی خاندان کی بہو بھی بن چکی تھیں جو کہ زید ِ شہید ( زیدیوں کے جد ) کی والدہ ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مجوزہ قانون اور عوام کے خدشات

جب مدینے سے امام حسینؑ کو نکلنے پر مجبور کردیا گیا تو آپ نے دو افراد کو خط لکھے تھے جن میں ایک اپنے دوست حبیب ابن مظاہرؑ دوسرے راجہ داہر۔
راجہ داہر کو امام نے چند وصیتیں کیں جن میں رقیہ ؑبنت امیرالمومنین علی ؑابن ابی طالبؑ کے ہمراہ ایک قافلے کی روانگی کا بھی ذکر تھا۔
امام نے داہر کو حکم دیا تھا کہ وہ اس قافلے کو مہمان کرے۔ ادھر راجہ داہر کو خط ملا تو اس نے تشویش میں اپنے بیٹے اور بھتیجوں کو امامؑ کی نصرت کیلئے روانہ کیا، جب وہ کربلا کے مقام تک پہنچے تو پرسوز سانحہ وقوع پذیر ہوچکا تھا۔

داہر کے پاس سے کربلا جانے والوں میں 7 مہاراجے تھے جن میں موہل دتا، ماہیل دتا، سدرتھ دتا وغیرہ شامل تھے۔
ان تمام افراد کی کوفہ اور کربلا کے درمیان مقام مسیب پر لشکر یزید جو کہ پڑاو ڈالا ہوا تھا اس سے جنگ ہوئی، جس میں سے فقط سدرتھ دتا زندہ رہے کیوں کہ وہ زخمی ہوکر بچ نکلے تھے۔
جب سدرتھ صحت یاب ہوکر واپس وطن لوٹے تو انہیں خبر ملی کہ رقیہؑ بنت علیؑ  کا قافلہ سندھ میں قیام کے بعد لاہور کی جانب جاچکا ہے تو سدرتھ لشکر میں شامل نہ ہو پانے اور کربلا پہنچنے میں تاخیر پر معافی مانگنے لاہور کی جانب گئے لیکن تب تک رقیہ ؑبنت علی ؑانتقال کرچکی تھیں، جن کا روضہ آج بھی لاہور میں بی بی پاک دامن کے نام سے مشہور ہے۔ کافی عرصے تک سدرتھ دتا وہاں مجاوری کرتے رہے بعد ازاں وہ بیابانوں کی طرف نکل گئے۔

یہ بھی پڑھئے:  قرۃ العین طاہرہ - علی عباس

سدرتھ دتا کو راہب یعنی تبلیغ کرنے والا بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی ساری اولادیں ہندو ہیں لیکن بت پرستی سے اجتناب کرتی ہیں اور مولا حسین ؑکو ہی اپنا سب کچھ مانتی ہیں۔ ان کی اولادوں کی کثیر تعداد نے اب سکھ مذہب اختیار کرلیا ہے، جس کی بڑی وجہ سکھوں میں کسی قسم کی بت پرستی نہ ہونا اور ان کا موحد ہونا ہے۔ وہ اب ’’ مسلمان ‘‘ کیوں نہیں ہوتے یہ اللہ جانے یا وہ خود۔۔

حالیہ بلاگ پوسٹس