کتابوں کی شیلف صاف کرتے کرتے اچانک ایک اخبار نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ میں حسبِ عادت اخبار لے کر پڑھنے بیٹھ گئی۔ یہ اخبار کا سپیشل صفحہ تھا جو کرائم سے متعلق تھا گو کہ اخبار پرانا تھا لیکن اس کی ایک سرخی نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کی کہ "ایک نوعمر سوتیلے بیٹے کو آشنا کے ساتھ مل کر قتل کر دیا گیا”۔خاوند کے بھانجے اور ہونے والے داماد سے تعلقات افشاء ہونے کے ڈر سے یہ قتل کیا گیا۔ خبر کی تفصیل کے مطابق آدمی نے بچے کے پاؤں پکڑے اور سوتیلی ماں نے بیلٹ سے گلا دبا دیا۔ خبر کی پوری تفصیل کے ساتھ ملزمان و مقتول کی تصاویر بھی دی گئی تھیں۔ واقعات کی تفصیل میں پولیس کی کارکردگی کا ذکر تھا کہ کس طرح اس نے قتل کو خودکشی قرار دئیے جانے پر تحقیق کر کے ملزمان سے سچ اگلوا یا اور اسے قتل ثابت کیا۔یہ روح فرسا واقعہ پڑھتے ہوئےعورت کے عورت ہونے سے اعتماد اٹھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ کیا یہ عورت ہے؟ یہ عورت کا کیسا روپ ہے؟ ابھی یہ سوال میری سوچوں میں تلاطم پیدا کر ہی رہے تھے کہ اخبار میں اس سے اوپر دئیے گئے ایک اور کالم میں سرخی تھی "شوہر کے ہاتھوں بیوی کا دردناک قتل”۔بیوی گھروں میں کام کرکے بچے پالتی تھی اور شوہر مزے اڑاتا، آوارہ گردی کرتا۔ خاتون نکھٹو شخص سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ پولیس نے روایتی بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قتل کو خودکشی بنا دیا۔ خبروں کی تفصیل کے مطابق خاتون نے شوہر پر بچوں کے اخراجات کا مطالبہ کر رکھا تھا جس پر اس نے اسے کئی بار زدوکوب بھی کیا تھا اور مارنے کی کوشش بھی۔ اور آخر اس کی جان لے ہی لی۔ خبر کے مطابق پورا محلہ جو کہ ان تمام واقعات کا گواہ تھا، تھانے رپورٹ لکھوانے گیا مگر پولیس سیدھی طرح بات ہی نہیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک طرف پولیس کا رویہ قابلِ تعریف تو دوسری طرف قابلِ ملامت۔۔۔۔ دونوں خبروں نے میرے شعور کو ایک جگہ پہ ساکت کر دیا تھا۔ دونوں طرف عورت۔۔۔۔۔۔ ایک جگہ قاتل، ایک جگہ مقتول۔۔ ایک طرف صنفِ عورت اپنی چند لمحوں کی سفلی تسکین کی خاطر ایک 15 سال کے بچے کو قتل کر رہی ہے۔ اسے صفحہُ ہستی سے مٹا رہی ہے تو دوسری طرف اپنے آرام و سکھ چین کو تیاگ کے اپنے بچوں کا باپ ہونے کا حق ادا کرتے اور مانگتے ہوئے اپنی جان دے دیتی ہے۔ ایسے شوہروں کی بیویاں ان سے کنارہ کشی کیوں کرتی ہیں۔۔ ظاہری بات ہے کہ چند لمحوں کی جنسی تسکین کے عوض جو عورت کی پیٹ بھرائی ہوتی ہے اس کا خمیازہ 9 ماہ تک اور 9 ماہ کے بعد عورت ہی کو بھگتنا ہوتا ہے کہ جب بچوں کو پالنا ہی اس اکیلی نے ہے تو پیدا کیوں کرے؟۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کو ہر بات کی ذمہ دار ٹھہرا کر آخر میں بدکرداری کا لیبل لگا کر پورا معاشرہ دھتکار دیتا ہے۔ گویا اس کی اچھائی اور حقیقت کو کالے لیبل میں بند کر دیا جاتا یے جبکہ دوسری طرف جو عورت واقعی کالے کرتوتوں کی بدولت جرم پہ جرم کی مرتکب ہوتی ہے اس نے عورت کو پردہُ تصور سے ہی کالا کر رکھا ہے۔ ایک عورت معاشرے میں کالی روشنی اس قدر پھیلا چکی ہے کہ سفید چہرہ رکھنے والی عورتیں اس سیاہی کی بدولت خال ہی نظر آتی ہیں۔یعنی عورت کا اچھا روپ یا اچھا کردار اس کالی روشنی میں چھپ جاتا ہے اور ساری عورتیں ہی بری سمجھی جاتی ہیں۔ نتیجہ معاشرے میں اکثریت عورت کے کردار پر شک کرتی ہے۔ عورت کو ملزم قرار دینے کا سب سے آسان راستہ اس پر بدکرداری کا لیبل لگانا ہے۔ اب یہ لیبل کون سے دماغوں کی بھٹی کی پیداوار ہے یہ ایک الگ تکلیف دہ امر ہے۔ یہ ایک ایسا الجھا ہوا ریشم ہے جس کے سلجھاؤ کے لیے ایک سرا پکڑیں تو بہت دور تک الجھاؤ بڑھتا ہی چلا جاتا یے۔ ہمیں ان تمام مسائل کی وجوہات کو جاننے اور انہیں دور کرنے کے لیے پہلے سرے تک پہنچنا ہوگا جو عورت کی تعلیم اور تربیت پر ہی منتج ہوتا ہے اور یہیں سے شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔
حمیرا جبین درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ ایم فل سکالر ہیں۔ تین مضامین میں ماسٹرز کر چکی ہیں۔ ایک زبردست شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار بھی ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn