Qalamkar Website Header Image

ہائے کمبخت کو کس وقت مزاح یاد آیا

umme rubabدنیا کے ہر ملک میں بشمول ہمارے ملک کے ،چار موسم ہوتے ہیں۔ سردی، گرمی، خزاں اور بہار۔کراچی میں بھی موسم چار ہی ہوتے ہیں مگر ان کی ترتیب کچھ مختلف اور یوں ہوتی ہے گرمی، گرمی،گرمی اور مانگے کی سردی۔بہار آتی ہے تو شہر میں سمندر کنارے ایک وسیع باغ میں پھولوں کی ایک نمائش منعقد کی جاتی ہے۔چونکہ اس نمائش کے علاوہ پھول کہیں اور دیکھنے کو میسر نہیں ہوتے اس لئے شہری اسی نمائش کو بہار کا موسم سمجھتے ہوئے دیکھنے چلے جاتے ہیں۔ابھی ہم فیض کا مصرعہ بہار آ آ آ۔۔۔ئی ئی ئی پورا گنگنا بھی نہیں پاتے کہ بہار اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔
سردی کا عالم بھی کچھ ایسا ہی ہے دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی حفظ ما تقدم کے طور پر سوئٹر، لحاف اور کمبلوں کو دھوپ لگوا لی جاتی ہے اور ساتھ ہی کوئٹہ کے موسم پر نظر رکھی جاتی ہے کہ نہ جانے کس دن کوئٹہ میں برف باری ہو جائے اور کراچی کا موسم بھی ٹھنڈا ہو جائے اور اگر کوئٹہ کی ہواؤں کے نتیجے میں موسم تھوڑا بہت ٹھنڈا ہو بھی جائے تو بھی پورے سیزن میں سوئٹر پہننے کی نوبت نہیں آتی،البتہ رات کے وقت پنکھے چلا کر کمبل یا لحاف اوڑھنے کا تکلف کر لیا جاتا ہے۔اس کے بعد سدا بہار موسم شروع ہو جاتا ہے جس کا دراصل بہار سے کوئی تعلق نہیں یعنی گرمی کا موسم،سمندر کی قربت کا یہ نقصان بھگتنا ہوتا ہے کہ حبس بے انتہا ہوتا ہے اور پسینہ خشک ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ بقول شاعر وہ حبس ہے کہ لو ،کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔اسی گرمی کے موسم میں جہاں پورے ملک میں برسات کا موسم شروع ہو جاتا ہے وہاں کراچی میں بھی ہلکے پھلکے بادل نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں جن کا بارش برسنے بلکہ برسنے سے ہی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یوں بھی کراچی والے ہلکی ہلکی پھوار اور بوندا باندی کو ہی بارش سمجھ لیتے ہیں اور اسی پر صبروشکر کر لیتے ہیں کہ صابر وشاکر جنتی ہوتے ہیں۔موسلا دھار بارش کے متحمل اس لئے نہیں ہو سکتے کہ اس کے بعد اگلے دو مہینے شپڑ شپڑ کر کے پانی میں سے گزرنے کی زحمت کون گوارا کرے۔
بارش ہو نہ ہو مگر یہ موسم اپنے ساتھ بہت سے تحائف اور سوغاتیں لاتا ہے۔مچھر، مکھیاں، نزلہ، زکام، فلو اور کھانسی۔تقریباً ہر گھر میں بیک وقت دو یا تین افراد فلو اور کھانسی میں مبتلا نظر آتے ہیں بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا کھانسنے کا کوئی عالمی مقابلہ منعقد ہو رہا ہے۔اس بار تو ہم بھی موسم کی عنایت سے بچ نہ پائے اور ہمیں کھانسی نے آن گھیرااور کھانسی بھی ایسی کہ مخاطب کی ہر بات کا جواب صرف کھانس کر ہی دیا جا سکتا تھا۔ایسے میں کسی مہرباں نے ہمیں موبائل پر کال کر لی۔۔السلام علیکم۔۔ہم نے کھانسی کو بمشکل روکتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔کیسی ہیں آپ ۔۔بڑی مشکل سے کہا جی ٹھیک ہوں۔اگلا سوال موبائل کے سگنل اور کھانسی روکنے کی کوشش کی نذر ہو گیا۔اس سے پہلے کہ مزید گفتگو جاری رہ سکتی ہم کھانسی روکنے میں ناکام ہو گئے۔مخاطب نے شرمندہ ہو کر کہا آپ ایسا کریں دوا لیں اور سو جائیں، ہم نے کہا جی بہتر شکریہ، اور فون بند ہوتے ہی پھانسی میرا مطلب ہے کھانسی کاایسا دورہ پڑاکہ اللہ کی پناہ،گویا یہ کیفیت تھی جیسے تختہ دار پر لٹکے ہوئے مجرم کا دم نکلنے سے پہلے اس کا چہرہ سرخ اور آنکھیں باہر ابل آتی ہوں گی۔
اب اس قسم کی حالت زار کے سا تھ ا گر آپ دفتر بھی چلے جائیں تو یہ ایک الگ شرمندگی۔ہر شخص آپ سے ہمدردی اور عیادت ایسی شکل بنا کر کرتا ہے گویا آپ کی تعزیت کر رہا ہو۔اور اپنے اپنے طور پر ایسے ایسے نسخہ ہائے شفا بیان کئے جاتے ہیں ،کھانسی سے لے کر کینسر تک علاج اتنے یقین سے بتائے جاتے ہیں کہ ان پر ایمان لانے کا دل چاہنے لگتا ہے۔ہر شخص اپنے اپنے طور پر ڈاکٹری کے فرائض انجام دیتا ہے،مختلف دواؤں کے استعمال کے مفت مشورے،حکیمی نسخے، گھریلو ٹوٹکے اور ہومیو پیتھک دوائیں ،غرضیکہ علاج کا کوئی طریقہ ایسا نہیں ہوتا جو آپ کو بتایا نہ جائے۔
اتنی تکلیف میں دیکھ کر بھی شیطان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا ،وہ ہمیں مسلسل آئس کریم کھانے پر اکسا رہا ہے مگر نہیں شیطان کے بچے، ہم آئس کریم نہیں کھائیں گے البتہ تم منہ کی کھاؤ گے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

ورلڈ ٹی ٹونٹی: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے میچ پر میمز کی بھرمار

ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں آج چوتھے دن پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ ہے۔ یاد رہے پچھلے ماہ پاکستان کے دورے پر آئی نیوزی لینڈ کی ٹیم میچ شروع

مزید پڑھیں »

نسوار

پرسوں ایک ہم عصر و ہم عمر بزرگ راہ چلتے ملے ۔ سلام دعا و بغل گیری کے بعد ایک سگریٹ سلگا کرپوچھنے لگے۔آپ سگریٹ پیتے ہیں ۔ میں نے

مزید پڑھیں »

دکھی آتما، عشق و عاشقی

کچھ لوگوں کو شعر و شاعری سے انتہا کا عشق ہوتا ہے کہنا تو شغف چاہیے لیکن ہم یہاں بات کریں گے ان دکھی آتماؤں کی جو ہر وقت عشق

مزید پڑھیں »