Qalamkar Website Header Image

ہزارہ قوم کا قتل کب سے شروع ہے؟

گو کہ ہزاره قوم کی تاریخ پہ بہت سے تاریخ دان لکھ چکے ہیں لیکن میں یہاں پر الیسانڈرو مونسوٹی کی لکھی گئی تاریخ پہ تحریر کروں گا۔
ہزاره وسطی افغانستان میں بسنے والی اور دری فارسی بولنے والی ایک برادری ہے۔ افغانستان کی تیسری بڑی برادری ہے جو کہ اکثر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہیں۔
ہزاره قوم کے بارے میں کئی حوالے پائے جاتے ہیں۔ کچھ نے تاریخ میں لکھا ہے کہ لفظِ ہزاره فارسی کے ہزار یعنی (1000) سے نکلا ہے اور دوسری تاریخ یہ بھی ہے کہ یہ منگول زبان کے منگ یا منگان سے نکلا ہے جو کہ چنگیز خان کے ہزار ہزار فوجیوں پہ مشتمل دستے تهے۔ ان کی  شکل و صورت بهی منگول سے ملتی جلتی ہے۔

تاریخ دان بیکن نے لکھا ہے کہ 1219 عیسوی میں چنگیز خان نے خوارزم شاہی سلطنت کی فتح کے موقع پر ماوراء النہر کو بھی زیرِ نگیں کیا اور مرنے سے پہلے مغربی وسط ایشیا اپنے دوسرے بیٹے چغتائی خان کو سونپ دیا جس نے چغتائی سلطنت قائم کی۔ ماوراء النہر وسط ایشیا کے ایک علاقے کو کہا جاتا ہے جس میں موجودہ ازبکستان، تاجکستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ مغل بادشاہ تیمور نے بهی ماوراء النہر کے شہر سمرقند کو تیموری سلطنت کا دارالحکومت بنایا تها۔  ہزاره ماوراء النہر سے آ کر وسطی افغانستان میں آ کر جا بسے۔
اب آگے چل کر الیسانڈرو ہزاره قوم کے انقلابات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہزاره سولہویں صدی عیسوی میں ایران کے صفوی بادشاہت کے دور میں شیعہ مسلک سے منسلک ہوگئے۔ اور یہیں سے ہزاره اور پشتونوں کے درمیان ایک طویل دشمنی کا سلسلہ شروع ہوا۔
سن 1888ء اور 1890ء کے درمیاں امیر عبدالرحمٰن خان کے خلاف جب اپنے چچا زاد بھائی محمد اسحاق نے بغاوت کی تو ہزاره قوم بهی شیخ علی ہزاره کی قیادت میں محمد اسحاق کے ساتھ کھڑے ہوگئے جوکہ پہلے سے امیر عبدالرحمٰن خان سے بہت تنگ آ چکے تھے۔

عبدالرحمٰن خان نے نہایت چالاکی سے چال چلی اور ہزاره سنی برادری اور پشتونوں کو شیعہ ہزاره کے مقابلے کے لیے میدان میں لے آیا کہ جس میں اسے کامیابی ملی۔ ان کے فوج کے ساتھ ساتھ پشتونوں کو بھی ہزاره کے خلاف جنگ میں استعمال کیا گیا  اور اکثر ہزاره علاقے پر گرفت حاصل کی۔ پشتون ایڈمنسٹریشن کے تحت ہزاره علاقوں پر بھاری ٹیکس لاگو کیے گئے اور لوگوں کو غیر مسلح کرنے کی مہم میں بہت لوٹ مار کی، قیادت کو جیلوں میں قید کر دیا گیا اکثر کو پھانسی دے دی گئی اور ہزاره قوم کو دباؤ میں لانے کے لیے بے انتہا ظلم کیا گیا۔
اصل ہزاره تحریک تب زور و شور سے شروع ہوئی جب تیس مسلح سپاہیوں نے اسلحے کی تلاش کے بہانے پہلوان نامی ہزاره کے گھر میں داخل ہو کر مردوں کو باندھ دیا اور تیس سپاہیوں نے ان کے سامنے اس کی بیوی کا ریپ کیا۔ شوہر اور بیوی کے دونوں خاندانوں نے کہا کہ اس واقعے سے بہتر تها کہ ہمیں سو بار قتل کیا جاتا۔ دونوں خاندانوں نے ہتھیار اٹھا کر ان تیس سپاہیوں کو مار ڈالا۔
یہاں سے ایک مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا اور اہم قبائلی رہنما بهی اس انقلاب میں شامل ہو گئے۔ جیسے محمد اعظم بیگ (عبدالرحمٰن خان کا حمایتی تها) نے بهی ہزاره کے انقلاب میں شمولیت اختیار کی اور یہ انقلاب سارے ہزاره جات میں پھیل گئی تو امیر عبدالرحمٰن خان نے باقاعدہ طور پر شیعہ ہزاره کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جس میں تیس سے چالیس ہزار سرکاری فوج، دس ہزار قبائلی اور تقریباً ایک لاکھ سویلین لوگ شامل تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  زندان کی چیخ ۔پچیسویں قسط

اگست 1892 کو انقلابیوں کے اہم شہر ارزگان پہ قبضہ کیا اور بہت قتلِ عام کیا گیا۔ ہزاره عورتوں اور بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کابل اور قندھار کے بازاروں میں بطورِ غلام لوگوں کو بیچا گیا۔ انسانی کھوپڑیوں سے مینار بنا دیا گیا تاکہ دوسروں کو ایک سبق سکھایا جائے اور سر اٹھانے کی ہمت نہ کریں۔ بہت سے ہزاره خاندان علاقہ چھوڑ کر مشہد کے قریب ترکستان اور پاکستان کے علاقے کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں چلے گئے۔
ہزاره کے سردار ابراہیم بیگ المعروف بچہ گاو سوار( گائے پر سوار) نے 1940 میں ٹیکس کے نظام کے خلاف بغاوت کی جو کہ دیسی گھی کی شکل میں فی جانور لیا جاتا تھا ( نہ صرف گائے اور بھیڑ بکریاں بلکہ گھوڑوں اور گدھوں پہ بھی لیا جاتا تها جس کا دودھ انسانی خوراک ہی نہیں ) بچہ گاو سوار اور ان کے مسلح حمایتیوں کے بہت مزاحمت کے بعد ٹیکس میں نرمی برتی گئی لیکن باقی سلوک ویسے ہی جاری رہا۔

اس دوران بہت سے لوگ جیلوں میں قید تهے جس میں مشہور شیعہ عالمِ دین سید اسماعیل بلخی بهی 1949 سے 1964 تک جیل میں قید تهے۔
دوسری بڑی مشکل وقت ہزاره قوم پہ 1970 کے افغانستان میں اسلامی انقلاب سے شروع ہوئی اور 1979 کے انقلاب کے بعد طالبان افغانستان پہ قابض ہوگئے تو ہزاره لوگوں کا ایک بار پھر طالبان کے ہاتھوں قتلِ عام کیا گیا اور ہزاره شیعہ کو کافر قرار دے کر ان کا مال و دولت اور عورتیں تک حلال کر دی گئیں اور پہلے انقلاب سے بھی زیادہ طالبان نے ہزاره قوم کو کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اسی کی اس دہائی کے بعد ہزاره قوم کو اور کتنے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وه بیاں کرنے کے قابل نہیں۔ لوگوں کے سروں میں کیلیں ٹھونک دی گئی عورتوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا حتیٰ کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں تک ہزاره عورتیں بیچی جاتی تھیں۔ پانج ہزار سے لے کر پچاس ہزار روپے پاکستانی میں حوا کی بیٹیاں بکتی رہیں اور ان سب مظالم میں ہماری حکومت بهی شامل تهی ورنہ افغان ہزاره عورتیں پاکستان کے علاقوں میں جہاں حکومت کی رٹ کافی مضبوط تهی کیسی بکتی رہیں؟ شاید اکثریت کو باتیں تلخ لگیں گی لیکن حقیقت میں اس سے بھی زیادہ طالبان نے ہزاره قوم کے ساتھ ظلم کیا ہے

یہ بھی پڑھئے:  زندان کی چیخ ۔ پانچویں قسط

نوٹ:
میں نے مضمون کی طوالت کے باعث اکثر چیزیں بیان نہیں کیں لیکن آج تک جو کوئٹہ میں ہزاره لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔یاد ماضی عذاب ہے لیکن آج اکیسویں صدی کے 2016ء میں بھی موت ہزاره قوم کو ڈھونڈتی ہوئی کوئٹہ پہنچی ہے اور آگے پتہ نہیں کتنے عرصے تک یہ قوم قتل ہوتی رہے گی۔
باقی برادریاں بهی قتل و غارت گری کا شکار ہوئیں ہیں اور رہی ہیں لیکن یہاں ہزاره قوم کی تاریخ میں قتل کب سے شروع ہوئی تھی اس پہ مصنف الیسانڈرو کے تاریخ سے لیا گیا ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

بنی اسد

10 محرم سے لیکر 13 محرم تک امام حسینؑ، آپ کی اولاد، بھائی، اعوان و انصار کے اجسامِ مطہر زمینِ کربلا پر بے گور و کفن بکھرے ہوئے تھے۔ 13

مزید پڑھیں »

اردو کے ہندو مرثیہ گو شعراء

اردو مرثیہ نگاری میں ہندوستان کے ہندو شعرا کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو ایک سیکولر زبان ہے۔ اوریہ اردو

مزید پڑھیں »