آقا ! قبر اندھیری میں گھبراؤں گا جب تنہا
اس نعت کوپڑھتےآئے،سنتےآئے،مگرآج اس کے ایک مصرعےنے دل میں اتنی بے چینی بھر دی ہے کہ طبیعت سنبھل ہی نہیں پارہی ہے۔ان کےساتھ کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے صرف احساس کا رشتہ ہے۔اس رشتے نے دل کو اتنا بوجھل کر دیاہےکہ ذہن ماؤف،زبان کنگ ہے۔
میں کسی بےحدعزیز کی موت کے بعد پھر کسی کے دکھ پہ نہ روئی، کہ میں اسی کواتناعرصہ روتی رہی، مگر امجدبھائی نے رُلا دیا.
لفظ بھی گم گئے، زبان بھی پتھرا گئی،بس آنکھیں ہیں،جو وقفے وقفے سے بھیگتی ہیں، برستی ہیں اور دل کو مزید نڈھال کرجاتی ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
وہ لفظ کہاں سے لاؤں جو اتنی خوبصورت شخصیت کو بیان کرسکیں
پچھلے رمضان،میں نے،انہیں سہری و افطاری میں تقریباََ ہر چینل پردیکھا۔ ان کی قوالیاں جب بھی سماعت سےٹکرائیں،چنیل چینج کرنے کی ہمت نہ ہوئی،ریموٹ پہ کھیلتی انگلیاں رک جاتی تھیں.
قوالی صوفی کلچر کا حصّہ ہے، ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہرانسان، اس کا اثر دل پہ محسوس کرتا ہے۔ سوائےان کہ جودلوں میں نفرت رکھتے ہیں۔
برصغیر کے بڑے قوالوں میں امجد صابری کااپنا ایک نام، اپنی ایک انفرادیت تھی. اپنے والد اور چچا کے بعد قوالی کے ورثےکونہ صرف آگےبڑھایا. بلکہ اس ورثے کو جدید سازو وانداز سے جدت دی کہ قوالی،جو ہمیشہ عمررسیدہ لوگ سنتےتھے، اب نوجوان نسل میں بھی مشہور ہے۔
وہ ایک سماجی علامت تھے۔ان کے سننے والے پوری دنیا میں موجودہیں۔انڈیا میں بھی ان کی قوالی ریکارڈ کی گئی۔اوربےحدپزیرائی ملی. میں نےجب بھی ان کی شخصیت آن لائن دیکھی،تو ان کے چہرے پہ بلا کا سکون اور کھلکھلاتی مسکراہٹ دیکھی، وه اکثر رمضان ٹرانسمیشن اور کئی مارننگ شو کا حصّہ رہے.ان کا مسلک، فرقے کے ساتھ کوئی جگھڑا سننے یا دیکھنےکو نہیں ملا۔ ان کاکام تو بس صرف قوالی پڑھنا اور نعت خوانی کرنا تھا۔وہ قوالی میں ایک عہد سازشخصیت تھے۔انہوں نے کئی نعتیہ کلام قوالی کی شکل میں پیش کیے. وه ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔ان کا قتل صرف انسانیت کا قتل نہیں بلکہ تہذیب وثقافت کاقتل ہے،تصوف کا قتل ہے، سچائی کا قتل ہے۔ عشق ومعشوق کا قتل ہے۔
ایک قحط سا آن ٹہرا ہے پاکستان میں، کہ اب انسان انسان کو کھا رہا ہے، خون پی رہا ہے۔کوئی روکنے والا نہیں۔ آخر کوئی تو ہوگا اس ملک میں، کسی جگہ، کسی مقام پر، جو ہم عام انسانوں کو تحفظ دے کیونکہ تحفظ میرے ملک میں صرف اشرافیہ اور بااثر طبقے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے. کیونکہ ان کی جانیں زیادہ قیمتی ہیں۔ان کے بچےان کو زیادہ پیارے ہیں۔انہیں اپنامال و اسباب زیادہ عزیز ہے۔انہیں اپنی ناموس، اپنی جان کا زیادہ ڈر ہے۔انہیں اپنی اقتدار کی ہوس کھا گئی، یہ ہمیں کیا تحفظ دیں گے ہماری جان، ہمارا مال، اور ہم خود بحثیت ان کی رعایا ان کے لیے جانور ٹھہرے، بھلا ہمیں سیکیورٹی کی کیا ضرورت ہے۔ہمیں تو بس بھوکے بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا گیا،جو ہمیں گونگے،بہرےاندھے راستوں میں نوچتا ہے،کھسوٹتا ہے،مارتا ہے،خون پیتا ہے۔مگر پھر بھی اس کی پیاس نہیں بھجتی .یہ ایسی عفریت ہے جوہمارے ہر شہر سے کئی انسانوں کا خون بلاناغہ پیتاہے۔
یہ اپنی جنسی بھوک یا جسمانی بھوک کے لیے سرگرم ہے یا پھر یہ صرف اپنے مزے اور مفاد کے لیے خون کی ہولی کھیلتا ہے۔
یہ ہماری بستی ہے۔یہ ہمارے شہر ہیں۔یہ ہمارے لوگ ہیں۔کوئی تو ہو گا جو ہمیں اس عفریت سے بچاے.اے اللہ !میں آج تیرے در پہ کھڑی تجھ سے پوچھتی ہوں،کہ کب تک یہ خون آلود شہر ہمیں رولائیں گۓ۔ ہم شام یافلسطین کو کیا روئیں،ہمارا ملک تو خود شام بن گیا ہم بھی فلسطنیوں کی طرح مظلوم ہیں،ہم بھی کشمیریوں کی طرح لاشے اٹھائے پھرتے ہیں۔
آخر کب تک مولا ؟کوئی تو انت ہو؟۔بس اب اور سہا نہیں جاتا، آقا اب اور سکت نہیں، اب جسم و جان میں طاقت نہیں،اب ایسا کرب، کسی اور کے آشیانے پہ مت اتارنا، کہ اب اور جھیلنا آساں کہاں
حامی بےکساں کیا کہے گا جہاں !!!!!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn