مہنگائی اور وہ بھی بے لگام مہنگائی کسی عذاب سے کم نہیں۔ ہم ایسے لکھنے والے جب اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو آسان ہدف منافع خور تاجر، کمیشن ایجنٹ اور پرچون فروش ہوتے ہیں۔ کسی حد تک یہ اس کے ذمہ دار بھی ہیں۔ کسی بھی چیز پر پانچ یا دس فیصد جائز منافع کمانے کی سوچ ہو ا ہوئی۔ اب کم از کم 100 فیصد منافع کمانے کو ہی کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں دو باتیں بہرصورت مدِنظر رکھنا ہوں گی۔اولاََ کہ اوسط درجہ کے کپڑے کا ایک تاجر جس نے دکان پر کم از کم دو ملازم بھی رکھے ہوں تو اسے کرایہ دکان، دو ملازموں کی تنخواہوں، بجلی کا بل ہی نہیں اپنے اخراجات کو بھی قیمت فروخت میں شامل کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مردانہ سوٹ اسے دکان پر پہنچ کے حساب سے 100روپے فی میٹر پڑتا ہے تو اس میں فوری طور پر چار قسم کے اخراجات کو اس نے فی میٹر قیمت میں شامل کر کے گاہک کو جو قیمت بتانی ہے وہ کسی بھی طور 250روپے فی میٹر سے کم نہیں ہو گی۔ گاہک کی نفسیات کو دکاندار سے بہتر کون جانتا ہے۔ اسے جب 250روپے قیمت بتائی جائے گی تو بہت تیر مارکر وہ 175روپے پر فروخت کرنے کو کہے گا۔ بھاؤ تاؤ میں جب 200 سے 210 یا220 جو بھی مل جائیں دکاندار کے لئے غنیمت ہے۔ بعض دکاندا ر تو اپنے ملازم کو یہ کہہ دیتے ہیں کہ 200 روپے تک فروخت دکاندار کی لیکن اگر اس سے زیادہ پر فروخت ہو تو سیلزمین کا 50 فیصد تک حصہ ہوگا۔
یہ ایک مثال ہے جو آپ کی خدمت میں عرض کی ہے۔ ہمارے ایک دوست اللہ بخشے شیخ تنویر (نام میں تبدیلی کی ہے واقعہ سچا ہے) سے دوستوں کی ایک محفل میں دریافت کیا گیا۔ شیخ جی! یہ آپ کے بچے اور بھائی جب دکان پر گاہک کو قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ جو چیز آپ خریدنے آئے ہیں وہ ہمیں سوروپے میں تو گھر پڑی ہے۔(ذہن میں رکھیے شیخ صاحب کا پورا خاندان خواتین کی جوتیاں فروخت کرنے کا کاروبار کرتا ہے۔ اور یہ سوال اور ان کا جواب کم وبیش 25 سال قبل کی بات ہے)بہت رسان سے وہ بولے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں۔ شاہ عالم مارکیٹ میں تھوک کا کاروبار کرنے والوں سے ہم نے مال خریدا۔ اس میں اپنے شہر لانے تک کے اخراجات شامل کر کے ایک جوڑا جوتی ہمیں 60روپے میں پڑا۔ میرے بیٹے نے چچا سے کہا چاچا جی یہ 70 روپے جوڑا میں نے خرید لیا۔ چچا نے بھتیجے سے 85 روپے میں خرید ا اور پھر میں نے 100 روپے میں خرید لیا۔ اب اگلی صبح جب ہم دکان پر کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ ’’آپاں جی! خدا دی قسمیں تسیں یقین کرو اے 100روپے جوڑا تے سانوں گھر پہنچ اے‘‘ (خدا کی قسم یقین کرو یہ 100 روپے میں تو ہماری خرید ہے) اس طرح 110 یا 120روپے میں ایک جوڑا فروخت کر کے ہمارا منافع تو 10 یا 20 روپے ہی ہوا۔ایک اور مثال ہے وہ یہ کہ گرمیوں کے موسم کے لئے کمالیہ کے کھدر کا سوٹ جس کی قیمت خرید 570 سے 610 روپے ہے۔ عام دکاندار اسے 900 سے1200روپے تک فروخت کرتے ہیں۔900 سے 1200روپے تک کی قیمت دکان اور علاقے کے حساب سے ہے۔
مگر اس سارے معاملے میں ایک تیسرا پہلو بھی ہے۔ مثلاََ ہر شہر بلکہ ٹاؤن کمیٹی کی حدود تک میں سرکار کی ایک مارکیٹ کمیٹی ہے۔روزمرہ کی اشیأ بالخصوص سبزیوں، پھلوں اور گوشت وغیرہ کی روزانہ کی بنیاد پر قیمت مقرر کرنا اور دکانوں پر ریٹ لسٹ لگوانا اور اس ریٹ لسٹ کے مطابق اشیأ فروخت کروانا مارکیٹ کمیٹی کی ذمہ داری ہے۔لیکن مارکیٹ کمیٹی اور اور شہری انتظامیہ کی ساری قانونی غنڈہ گردی ان اشیأ کی فروخت کرنے والے عام دکاندار پر ہی چلتی ہے۔آپ اس بات کو یوں سمجھ لیجیئے کہ آج مورخہ 10 جون کو جس وقت یہ کالم لکھ رہا ہوں سبزی منڈی میں مٹر 1000 روپے کے پانچ کلو ہیں۔ دکانداراس حساب سے منڈی سے خریدنے پرمجبور ہیں۔ مگر مارکیٹ کمیٹی کی10 جون کی ریٹ لسٹ میں مٹر کی پرچون قیمت فروخت 95 روپے کلو۔ کیسے ممکن ہے کہ دکاندار لائے تو 200روپے کلو اور فروخت کرے 95روپے کلو؟ آلو کا منڈی کا ریٹ55 روپے کلو مگر سرکاری پرچون نرخ35 روپے کلو۔ سبزدھنیا 300روپے منڈی کا ریٹ ہے۔ او ر سرکاری ریٹ50روپے کلو ۔دکاندار کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ پرانے اور نئے آلو ملا کر فروخت کرکے اور اس میں خراب آلو بھی مکس کر دے۔ سبز دھنیا میں گھاس شامل کر لے۔ منڈی میں جو گلے ہوئے اور خراب مٹر30یا 40 روپے کلو ملتے ہیں فروخت کرنے والے مٹروں میں مکس کر کے گاہک کو فروخت کرے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی قائم کردہ مارکیٹ کمیٹیوں کے ذمہ داران نے آڑھتیوں سے مک مکا رکھنا ہے اور پرچون فروشوں پر بوجھ لادنا ہے تو پھر دو نمبری کیسے روکی جائے گی۔کوئی پرچون فروش سبزی یا پھل قیمت خرید سے 100 یا 115 فیصد کم پرکیوں فروخت کرے گا۔ کوئی بھی نہیں۔ ہر جگہ یہی صورتحال ہے کہ سبزی ہو پھل، گوشت یا کوئی اور چیزقیمت خرید میں منافع جمع کر کے فروخت کرنے کے رجحان نے صارفین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
حکومت ہو یا شہری انتظامیہ دونوں کو اپنا حکم منوانے کاجنون ہے۔ نزلہ عام آدمی پر گرتا ہے۔ مارکیٹ کمیٹیاں منڈیوں میں حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق اشیأ کی پرچون دکانداروں کو فروخت یقینی کیوں نہیں بناتیں؟ اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ مارکیٹ کمیٹیوں کے ملازمین اور چیئرمین اور دیگر ارکان کو بھی پیٹ لگا ہوا ہے۔چیئرمین اور اراکین کے عہدے سیاسی رشوت کے طور پر تقسیم ہوتے ہیں۔ماہِ صیام رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ روزمرہ ضرورت کی اشیأ کی قیمتوں میں ہونے والے بے پناہ اضافے کے ذمہ دار تینوں ہیں۔ متعلقہ سرکاری اہلکار، آڑھتی او رپرچون فروش ۔ لیکن زیادہ ذمہ دار بہرطور سرکاری اہلکار ہیں جو اپنی منتھلی کھری کرنے کے لئے منڈیوں میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری نہیں نبھاتے۔ خمیازہ صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے ، ذخیرہ اندوزوں اورمنافع خوروں کو روکنے کی ذمہ داری حکومت اور شہری انتظامیہ کی مگر ہوتا کیا ہے شہری انتظامیہ پرچون فروشوں کے روزانہ کی بنیادپر دس بیس چلان کر کے اخبارات میں سونی پت کی آٹھویں جنگ میں فتح پانے کی خبریں شائع کروا کے سمجھتی ہے کہ بہت تیر مارلیا۔ مگر جس کام کا آغاز منڈیوں میں ہوناچاہیے وہ بازاروں میں کیوں؟ مہنگائی ہے، بے لگام مہنگائی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر چار بار قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اولاََ نئے مالی سال کے بجٹ کے اعلان پر۔ دوئم رمضان المبارک کی آمد پرسوئم عیدالفطر اور چہارم عید قربان پر۔ درمیان میں پٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں اضافوں کی آڑ میں بھی داؤ لگالیاجاتا ہے۔ہر دور کے اہلِ اقتدار عوام الناس کو تسلیوں اور تشفیوں کے سوا کچھ نہیں دے پاتے۔
حرف آخر یہ ہے کہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے میں اگر کوئی کسی سطح پر سنجیدہ ہے تو پھر حکومت کو ایسا نظام وضع کرنا پڑے گا کہ فیکٹریوں اور کھیتوں سے منڈیوں تک اشیأ کی سپلائی اور قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کے نظام کو مؤثر بنانا پڑے گا۔ بالائی سطور میں جن قباحتوں کی نشاندہی کی ہے وہ زمینی حقیقت پر مبنی ہیں۔روزمرہ کے مسائل میں گرفتار صارف کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنی فریاد لے کر کہیں جائے اور پھر دھکے کھاتا پھرے۔ نظام بنانا اور سختی کے ساتھ اس پر عمل کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔حکومت کا حال یہ ہے کہ اس نے رمضان المبارک میں لگوائے گئے رمضان بازاروں میں ضلع کی سطح پر چینی کا جو کوٹہ مقرر کیا ہے وہ ازخود بازار میں فراہم کرنے کیی بجائے اسی ضلع کے ایک دو بڑے آڑھتیوں کو پرچی تھما دی ہے کہ فلاں شوگر مل سے جا کر چینی اٹھا لو۔ آپ انصاف سے بتائیں جو آڑھتی مظفر گڑھ یا رحیم یار خان کی شوگر ملو ں سے دو یا تین ٹن چینی اٹھاکر گوجرانوالہ ، شیخوپورہ یا سیالکوٹ کے رمضان بازاروں کے دکانداروں کو فراہم کرے گا کیا اس میں اس آڑھتی کا منافع شامل نہیں ہو گا؟ کوئی پاگل ہے کہ پندرہ بیس لاکھ روپے بلاوجہ انوسٹ کرے؟ سو مکرر عرض ہے کہ ایکس فیکٹری ریٹ ہو یا کھیت سے منڈی تک پہنچانے کے نرخ اورپھر آگے کے مراحل ان کے لئے حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ طریقہ کار اور قوانین کو بہتر بنانے اور پھر ان کے اطلاق کے مرحلہ میں ہونی والی رشوت ستانی کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس اور قابلِ عمل اقدامات کرنا ہوں گے۔ورشنی نعروں، فیشنی چالانوں اور فرمائشی خبروں سے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی مہنگائی کے عذاب سے شہریوں کو نجات مل سکے گی.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn