مارشل لاء ہو یا جمہوریت‘یا پھر کوئی اور حکومت ‘ کچھ وزارتیں کسی مخصوص ادارے کے پاس ہوتی ہیں تو ایک وزارت ایسی بھی ہوتی ہے جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تابع ہوتی ہے اس کا وزیر ’’درآمدی‘‘ ہو یا مقامی‘ اس کا کام محض حکم بجا لانا ہوتا ہے-
ویسے ہماری تاریخ کا سچ تو ایک اور بھی ہے کہ بین الاقوامی اداروں نے ہمیں وزیر اعظم بھی بھیجے تھے ان میں ایک غیر منتخب معین قریشی تھا تو ایک شوکت عزیز بھی تھا جس کو ہم نے خود منتخب کروا کے جمہوریت کا بھرم رکھا تھا- وزارت خزانہ بھی انہی کے پاس تھی گویا پالیسیاں بھی انہی کی تھیں اور ہدایات بھی- ہر دو حضرات اپنی ذمہ داریاں نبھا کر جا چکے ہیں-
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
ذمہ داریاں نبھا کر جانے والوں میں کچھ اور بھی تھے‘ جو منظرعام پر نہیں پس پردہ رہتے تھے- جو بھی ہو‘ یہ ذمہ داری نبھانے والے غیرملکی ہوں یا مقامی-ان کا اعدادوشمار کا ہنرمند ہونا لازم ہوتا ہے‘ عوام کو جو اس گورکھ دھندے میں سب سے زیادہ الجھا سکتا ہے- یا پھر انہیں دایاں دکھا کر بایاں مار سکتا ہے- وہی سب سے زیادہ کامیاب کہلاتا ہے اور یہ اعزاز اس وقت نوازشریف حکومت کے مستقل اور موجودہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کو ہی حاصل ہوا ہے‘ کچھ لوگ اس اعزاز کی وجہ ’’سمدھی‘‘ ہونا قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ بدتمیز یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ جتنی بھی منی لانڈرنگ ہوئی ہے وہ سب اسحاق ڈار کی مہارت کا نتیجہ ہے- انہوں نے ایک موقع پر یہ تسلیم بھی کیا تھا- جس پر ان بدتمیزوں نے انہیں اسحق ڈالر بھی کہا تھا-
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
ہنرمندی ہی کافی ہے‘ اعدادوشمار میں ترقی اور غربت میں کمی ثابت کرنا ضروری ہے‘ بلکہ خرابیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کرنا اور منفی اعدادوشمار کو مثبت کے سانچے میں ڈھال کر بین الاقوامی اداروں کو بے وقوف بنانے یا گمراہ کرنے کی صلاحیت شاید ہی کسی اور کے پاس ہو‘ اسی لئے تو وہ محض سمدھی نہیں‘ ہر عہد میں منظورنظر ٹھہرتے ہیں-
دوستو! اعدادوشمار کی ہنرمندی کا مظاہرہ اصل میں جوابدی بھی ہوتی ہے اور اسے گورکھ دھندہ بنا کر قرض دینے والے اداروں کو گمراہ کرنا بھی مقصود ہوتا ہے- نوکری بھی پکی ہوتی ہے اور مزید قرضوں کی توقع بھی ہوتی ہے‘ ہیراپھیریوں کو بھی قومی مفاد قرار دیا جاتا ہے‘ شوکت عزیز جنرل مشرف کے درآمدی وزیرخزانہ تھے انہوں نے خط غربت کودو ڈالر پر اونچا کر دیا تھا‘ یاد رہے کہ اس وقت تک خط غربت کا معیار ایک ڈالر فی کس روزانہ آمدنی تھا‘ دو ڈالر کیا مقرر ہوئے کہ پاکستان میں ترقی کے دروازے کھل گئے غریبوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوگئی‘ یہی معیار آج بھی مقرر ہے اس معیار کے تحت ہمارے ہاں تمام تر مہنگائی‘ بے روزگاری اور افراط زر‘ معیشت کے تنزل اور معاشرتی تباہی کے باوجود خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والوں کی تعداد 33فیصد سے زیادہ نہیں یہی تو سرکاری ہنرمندی ہے ورنہ ورلڈبنک کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ساٹھ فیصد عوام خط غربت سے نیچے لڑھک چکے ہیں یعنی اگر پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ہے تو بارہ کروڑ خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں‘ لیکن ہمارے حکمران ترقی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے‘ ان کی زبان میں ضمیر کی خلش کسی ہچکچاہٹ اور لکنت کا باعث نہیں بنتی‘ موٹروے‘ اورنج ٹرین اور میٹروبسوں‘ سڑکوں اور پلوں کو ترقی قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں21 فیصد آبادی کو غذائی ضروریات کے حصول میں قحط کا سامنا ہے‘ بڑھتی ہوئی افراط زر مزید غربت یا پھر غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرکے ترقی کو بے نقاب کررہی ہے‘ مگر ہمارے حکمران خوش ہیں کہ ان کے اقتدار‘ جائیدادوں اور ملکیتوں کو تحفظ حاصل ہے-انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کیونکہ ان کے اپنے خاندان اور بچے بیرون ملک رہتے ہیں‘ وہ ملک جہاں وہ حکمران ہیں اس کے پانچ سال سے کم عمر کے44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں وہ کبھی مکمل انسان نہیں بن سکیں گے یہ ان بچوں کے بڑے ہو کر بھی قد چھوٹے ہی رہیں گے اس ضمن میں ایک اور سچائی تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال افراد کے قدوقامت میں ایک انچ کی کمی ہو رہی ہے‘ یونیسف کا کہنا ہے کہ اگلے پندرہ سال میں ملک کی آدھی آبادی کے قد اپنی نسل کے باقی افراد کی نسبت کم ہوں گے‘ یہی تو ترقی ہے اور یہی ترقی کے ثمرات‘ لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں….. اور ہم ہیں کہ انہی کی چکنی چپڑی باتوں کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں-
ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn