ہجرت کا آٹھواں سال اسلام و مسلمین کے لئے افتخارات اور کامیابیوں کا سال تھا اسی سال مسلمانوں نے مشرکین کے سب سے بڑے اڈے یعنی مکہ مکرمہ کو فتح کیا تھا۔ اس کے بعد اسلام سارے جزیرۃ العرب میں بڑی تیزی سے پھیل گیا۔ فتح مکہ کے دن لشکر اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا مسلمان چاروں طرف سے خانہ کعبہ تک پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غسل کرنے کے بعد اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے اور اونٹ پر بیٹھ کر مسجد الحرام کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر مکہ جہاں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ندائے حق اور دعوت الہی کو دبانے کے لئے تمام وسائل و ذرائع سے کام لیا گیا تھا آج اس پر عجیب خاموشی اور خوف چھایا ہوا ہے اور لوگ اپنے گھروں ، دروازوں کے شارفوں اور کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹیوں پر سے عبدالمطلب ؑ کے پوتے کی عظمت و جلالت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آپ خانہ کعبہ تک پہنچ گئے لشکر اسلام اپنے آسمانی رہبر کی قیادت میں طواف کرنے کو بے چین تھا لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے راستہ کھولا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹ کی حمار محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عالم میں طواف کیا حجر اسود کو بوسہ دینے کے بعد خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکے ہوئے بتوں کو نیچے گرایا اور امام علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانہ ہائے مبارک پر کھڑے ہو کر بتوں کو نیچے پھینکیں۔ سیرہ حلبیہ اور فریقین کی بہت سی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ لوگوں نے امام علی علیہ السلام سے پوچھا کہ جب آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانے پر کھڑے ہوئے تھے تو کیسا محسوس کر رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ میں ستارہ ثریا کو چُھو سکتا ہوں۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلید دار کعبہ عثمان و طلحہ ۔رض۔ کو کعبے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا کعبے میں داخل ہوئے اور مشرکین نے پیغمبروں اور فرشتوں کی جو تصویریں بنا کر دیواروں سے آویزاں کر رکھی تھیں انہیں اپنی عصا سے نیچے گرایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا ” اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔ (اسراء 81) مشرکین مکہ صنادید قریش اور ان کے خطباء و شعرا جیسے ابوسفیان ، سہبل بن عمرو اور دیگر افراد خانہ کعبہ کے کنارے سر جھکاے کھڑے تھے۔ شاید یہ لوگ سوچ رہے ہونگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا ہے ، اب وہ کس طرح سے ان کی اذیتوں ، تہمتوں اور تمسخر و افترائت کا بدلہ لیں گے ؟ اور ان کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے ! جن لوگوں نے ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی و پیغمبر الہی کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بزرگواری اور کریمانہ اخلاق سے آگاہ نہیں تھے ان کے دلوں میں خوف و اضطراب موجزن تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے صرف فاتح سرداروں کو لوٹ مار کرتے اور خون بہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قرآن کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے ، دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اقتدار و فتح و کامرانی کی صورت میں ان پر غرور و ہوا و ہوس کا سایہ تک نہیں پڑ سکتا۔ اہل مکہ کے لئے اس دن (فتح مکہ) کا ہر لمحہ پُر اضطراب تھا ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جملے دہرائے جو مبعوث برسالت ہونے کے بعد فرمائے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ صدق وعدہ و نصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ، اپنے بندے کی نصرت کی اور تنہا تمام گروہوں کو شکست دی۔ اس کے بعد اہل مکہ کو یہ اطمینان دلانے کے لئے کہ مسلمان ان سے انتقام نہیں لیں گے ان سے فرمایا ماذانقولون و ماذاتظنون۔ میرے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو اور کیا سوچ رہے ہو ؟ قریش جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و جلالت کو دیکھ کر بری طرح بے دست و پا ہو چکے تھے گڑکڑا کر کہنے لگے نقول خیرا و نظن خیرا اخ کریم و ابن اخ کریم وفد قدرت۔ ہم آپ کے بارے میں خیر خواہی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ہیں اور خیر و نیکی کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔ آپ مہربان و کریم بھائی ہیں اور ہمارے بزرگ و مہربان چچا زاد ہیں اور اب آپ کو بھرپور اقتدار حاصل ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مزید اطمینان دلایا اور ان کی معافی کا حکم جاری کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تم لوگوں سے وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کہا تھا (جب ان کے بھائیوں نے انہیں نہیں پہچانا تھا) آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی قال لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم و ہوا ا رحم الراحمین۔ یوسف علیہ السلام نے کہا آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے خدا تمہیں معاف کر دے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تم سب بڑے برے لوگ تھے کہ اپنے پیغمبر کو جھٹلایا اور اسے اپنے شہر و دیار سے نکال دیا ، اس پر اکتفا نہ کی بلکہ دوسرے شہروں میں بھی مجھ سے جنگ کرنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ آپ کی باتیں سنکر بعض لوگوں کے چہرے فق ہو گئے وہ یہ سوچنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت و آزار و مصائب یاد آ گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقام لینا چاہتے ہیں لیکن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق نے رحمت و کرامت کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا فاذھبوا فانتم الطلقاء جاؤ تم سب آزاد ہو۔ تاریخ و روایات میں آیا ہے کہ جب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو لوگ اس طرح سے مسجد الحرام سے باہر جانے لگے جیسے مردے قبروں سے اٹھ کر بھاگ رہے ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی مہربانی و رحمت کی وجہ سے مکہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔
(ماخوذ از کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn