بستر پہ بیٹھا فیس بُک پہ پانامہ لیکس پہ تجزیہ دے رہا تھا اور ساتھ ساتھ کافی پی رہا تھا کہ کمرے کا دروازہ کُھلا اور امی نے گرجدار آواز میں جمعے کی نماز ادا کرنے جانے کو کہا۔ مجبوراََ اپنا تجزیہ ختم کیا۔ اور باتھ روم کی جانب چلا، نہانا ویسے ہی واجب تھا اُوپر سے نماز کا ارادہ بھی ہوگیا تھا تو بنا سوچے لکس صابن سے نہالیا، تیار ہوا، ٹوٹی ہوئی چپل پہنی اور چل دیا۔ ٹوٹی ہوئی چپل پہننے کی وجہ مسجد میں چپلوں کا چوری ہوجانا تھی۔ خیر، گھر سے باہر نکلا۔ قریبی مسجد کے باہر پہنچا تو لکھا تھا "مسجد میں شیعہ کا داخلہ ممنوع ہے”۔ دلبرداشتہ ہوکے آگے بڑھا۔ سوچا مسجدیں بھی کافی ترقی کرگئی ہیں، پہلے زمانے میں مسجدیں صرف مسجدیں ہوا کرتی تھیں اب شیعہ کی مسجد اور ہے سنی کی مسجد اور، بریلوی کی مسجد اور ہے دیوبندی کی مسجد اور، خیر، مجھے کیا، میرا مقصد تو جمعہ کی نماز ادا کرنا تھا۔ کافی دیر کی مسافرت کے بعد مجھے خطبہ کی آواز آئی۔ سمجھ نہیں آرہا تھا یہ آواز کس سمت سے آرہی ہے۔ تھک ہار کے میں نے ایک لمبی داڑھی والے راہگیر سے پوچھا یہ شیعوں کی مسجد کہاں ہے، میرے سوال پہ اُس نے مجھے ایسے گھورا جیسے میں نے چرس کا اڈا پوچھ لیا ہوا، لاحول پڑھ کے اُس نے مجھے گھورا اور خود ہی چلا گیا۔ خیر، میں بھی آواز کی سمت بڑھتا رہا اور تقریباََ 4 منٹ کی دوری پہ ایک چیک پوسٹ پہ پہنچا، یہاں میری جامہ تلاشی لی گئی اور مجھ سے الٹے سیدھے سوالات کئے گئے جس سے ثابت ہوجائے میں شیعہ ہی ہوں۔ خیر، حفاظت پہ تعینات نوجوانوں کو مطمئن کر کے میں مسجد کی جانب بڑھا اور پہنچا مسجد کے اندر، یہاں پہنچ کے مجھے احساس ہوا یہ والی مسجد اللہ کا گھر نہیں بلکہ ٹرسٹی کا گھر ہے جہاں متولی کرائے پہ رہ رہا ہے۔ وضو خانہ جانے سے پہلے میں لیٹرین گیا تو وہاں ایک لمبی قطار لگی تھی۔ ایمانداری سے اپنی باری کا انتظار کیا اور اپنی حاجت پوری کر کے وضو خانہ پہنچا، یہاں کسی کو وزیرِاعظم کے اثاثوں کی پڑی تھی اور کوئی قندیل بلوچ کی ویڈیوز کے بارے پہ گفتگو کر رہا تھا۔ خیر، لوگوں کو دیکھ دیکھ کے وضو کیا اور چل پڑا مسجد کے احاطہ میں۔ خطبہ سنا، مولوی صاحب اللہ سے تجارت کرنے کی نصیحت فرما رہے تھے۔ آخر میں مولوی نے سعودیہ اور امریکہ پہ خوب لعن طعن کروائی۔ مزے کی بات مولوی کا چھوٹا بھائی سعودیہ میں ورک پرمٹ پہ کام کرتا ہے۔ خیر،،خطبہ ختم ہوا، نماز شروع ہوئی۔ مولوی نے آوازِ تکبیر بلند کی۔ یہاں پہ ایک نصیحت یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اگر آپ مولوی کے علاوہ کسی اور کو چیخ کے اللہُ اکبر کہتا سنے تو احتیاطََ لیٹ جائیں۔ خیر، نماز میں مجھے محسوس ہوا میں بہت بےوفا قسم کا آدمی ہوں، دورانِ نماز میری گفتگو اللہ سے ہورہی تھی اور خیالوں میں میرے کوئی اور ہی۔۔۔۔۔ خیر، میں تو کچے عقیدے والا مسلمان ٹھرا۔ اُمید ہے باقی مسلمان نماز میں صرف اللہ سے ہی ہمکلام ہوتے ہونگے۔ خیر، نماز ختم ہوئی، نماز کا ختم ہونا تھا کہ لوگ مسجد سے ایسے نکلنا شروع ہوئے جیسے میں پھپو کے گھر سے نکلتا ہوں۔ باہر نکلا، چپل ڈھونڈنا شروع کی مگر ناکام رہا، سوچا ننگے پاؤں ہی واپس چلا جاؤں لیکن پھر مجھے مولوی کی بات یاد آئی کہ اللہ سے تجارت کرو، بس پھر کیا تھا میں نے اللہ سے منافع کا سودا کیا، ایک نئی چمچماتی ہوئی چپل پہنی اور گھر آگیا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn