Qalamkar Website Header Image

جیت – پہلا حصہ

شدید سردی کے بعد اب اس حسین وادی میں بہار کا آغاز ہو چکا تھا ۔ اگرچہ یہاں کے چاروں موسم حسن کے لحاظ سے ساری دنیا میں اپنی انفرادی حثیت رکھتے ہیں ۔ مگر بہار میں تو یوں لگتا ہے جیسے جنت کو زمین پہ اتار دیا گیا ہو۔
بہار کا آغاز ہوتے ہی زمین کی رونقیں لوٹ آئی تھیں ۔ خالی تنہا درختوں پہ پتے لوٹ چکے تھے ۔ ہر طرف پھولوں کی بہار تھی ۔ تروتازہ سورج کی سنہری کرنیں جب چھوٹی چھوٹی گھاس پر پڑتیں تو روح میں تازگی اتر جاتی ۔ اور اپنی مستی میں گم بہتے ندی نالوں میں جب گہرے نیلے آسمان اور شور مچاتے ، نغمے سناتے پرندوں کا عکس پڑتا تو یہ منظر کسی بھی ذی شعور کو مدہوش کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ ایسے خوبصورت مناظر میں سریلی آوازوں والے پرندوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔

درناب صبح کی عبادت کے بعد صحن میں چہل قدمی کر رہی تھی ۔ اس کی خوبصورت بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں عجیب الجھن تھی ۔ چہرے پہ پریشانی کے آثار واضح تھے ۔ مگر جب گاتی ہوئی شرارتی چڑیاں صحن میں رکھے دانے پانی پر آ کر شور مچاتیں تو ایک لمحے کو وہ اپنا دکھ درد بھول جاتی ۔ اسے پر امن پرندے بہت پسند تھے جو آزاد فضاؤں میں خوشی کے گیت گاتے تھے۔
پرندوں کو دانہ اور پودوں کو پانی دے کر جب وہ چھت پر گئی تو ساتھ والے پڑوسی چچا احمد ہمیشہ کی طرح اپنی بندوق صاف کر رہے تھے ۔ بندوق کو دیکھ کر اکثر اس کا دکھ بھرا ماضی اس کے سامنے آجاتا تھا ۔ اسے بندوق سے جتنی نفرت تھی اتنی ہی اس میں دلچسپی بھی تھی ۔ وہ اسی بندوق کو وجہ زخم اور اسی کو اپنا مرہم سمجھتی تھی ۔ اس لیے اکثر اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ احمد چچا سے بندوق چلانا سیکھے ۔ نشانہ بازی میں تو اسے بچپن سے ہی دلچسپی تھی۔

آج درناب نہ چاہتے ہوئے بھی احمد چچا کے گھر چلی گئی تا کہ اپنی خواہش کا اظہار کرے ۔ احمد چچا کا گھرانہ صرف دو لوگوں پر مشتمل تھا۔ ایک احمد چچا خود جو سارے علاقے میں چاچا جی کے نام سے مشہور تھے اور دوسری ان کی بیٹی جو درناب سے دو سال چھوٹی تھی ۔ کبھی یہ چار افراد پہ مشتمل ایک خوشحال گھرانہ تھا جس میں چاچا جی کی بیوی اور ایک جوان بیٹا بھی شامل تھے ۔ اس گھرانے کے دو افراد کو دشمن نے اس لیے مار ڈالا تھا کہ اس گھر سے ان کی بزدلی کو للکارا گیا تھا ۔ چچا جی کو بندوق پسند تو نہ تھی لیکن اپنی بیٹی اور اپنی حفاظت کے لیے اسے ہمیشہ تیار رکھتے تھے ۔ اور یہ خیال بھی ان کے ذہن میں رہتا کے ضرورت پڑنے پر وہ اسے اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے بھی اٹھا سکتے ہیں۔
درناب کے گھر میں داخل ہوتے ہی چچا کے غمگین بوڑھے چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئی ۔ درناب کو وہ اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے تھے۔
"سلام چاچا جی ! کیسے ہیں آپ ?” درناب نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا
"وعلیکم السلام بیٹی ! اللہ کا کرم ہے ! تم کیسی ہو اور فاطمہ بہن کیسی ہے ” چچا نے اس کی اور اس کی والدہ کی خیریت دریافت کی
"چاچا جی میں بھی ٹھیک ہوں اور ماں جی بھی اور یہ پراٹھے ان ہی نے آپ کے لیے بھیجے ہیں۔ آپ اور عائشہ کو پسند ہیں نا ! ”
درناب اور اس کی ماں اکثر چاچا جی اور ان کی بیٹی کے لیے کھانے بنا کر لاتے رہتے تھے۔
” کیوں نہیں بیٹی بہت پسند ہیں مجھے ۔ میری طرف سے فاطمہ بہن کا شکریہ ادا کرنا ۔ بھلی عورت ہے محلے کے ہر گھر کا خیال رہتا ہے اسے ۔ اپنے دکھ درد بھول کر دوسروں کی غمی خوشی میں شریک رہتی ہے ۔ عائشہ پتر آ ناشتہ کر لے تیری چچی نے پراٹھے بھیجے ہیں ۔ ” چاچا جی نے بیٹی کو آواز دی۔
ناشتہ کرتے وقت بھی وہ درناب اور اس کی ماں کی تعریف کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھئے:  پانامہ فیصلے پر مورخ کیا لکھے گا-مرزار ضوان

"چاچا جی مجھے آپ سے ایک کام تھا ۔ بہت دنوں سے سوچ رہی تھی کہ آپ کو بتاؤں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی ۔ ” درناب نے ناشتے کے بعد چاچا جی سے کہا
"بول بیٹی کیا کام ہے ۔ تو میری اپنی بچی ہے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کوئی کام بھی ہو تو بول دیا کر۔۔۔۔۔۔۔ ” چاچاجی نے شفقت سے کہا
” بہت شکریہ چاچا جی لیکن یہ کام تھوڑا عجیب سا ہے ” درناب ابھی بھی تردد کا شکار تھی ” آپ کو تو پتا ہے میرے بابا اور دو بھائیوں کو پانچ سال قبل دشمن کی فوج نے مار ڈالا تھا ۔ اور آپ کے بیوی اور بیٹے کو بھی ۔ اس کے علاوہ اس علاقے کے کتنے گھر ایسے ہیں جن کے کئی افراد دشمن کے ہاتھوں مر چکے ہیں ۔ کتنے بچے جو پھولوں کی طرح خوبصورت تھے جو ابھی مکمل کھلے بھی نہیں تھے کہ دشمن نے نے انہیں برباد کر ڈالا ۔ کتنے چلتے پھرتے لوگوں کو معذور کر دیا ۔ کس جرم میں چچا جی آخر کس جرم میں ! ہم تو امن پسند لوگ ہیں ۔ ہم نے تو صرف ان کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی ۔ بس یہی جرم تھا ہمارا ۔ ” درناب کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے ۔ برسوں کا غم تھا جو اسے اندر ہی اندر انتقام پر ابھار رہا تھا ۔

” لیکن میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے میں دشمن سے بدلہ ضرور لوں گی ۔اپنے بابا کے خون کا، اپنے بھائیوں کا، اپنے ملک کے ہر شخص کا ۔ میں اپنی دھرتی کی حفاظت کروں گی ۔ ان بندوق اٹھانے والے بزدلوں سے بندوق سے ہی بدلہ لیا جا سکتا ہے ” درناب فرط جذبات میں بولے چلی جا رہی تھی۔
احمد چچا کو اس کے ارادوں کا علم ہو چکا تھا اس لیے بولے ” بیٹا تم ابھی پڑھ رہی ہو انہیں تعلیم میں شکست دو ۔ بندوق والا کام بہت مشکل ہے اور ہم ہیں نا تمہاری حفاظت کے لیے ”
"نہیں چچا جی ان لوگوں کو بندوق کے زور پر ہی بھگایا جا سکتا ہے ۔ غلام رہ کر تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ۔ تعلیم تو ہمیں شعور دیتی ہے کہ ہم آزاد ہیں ہمیں آزاد رہنے کا پورا حق حاصل ہے ۔ کوئی ظلم کرے تو ہمیں اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے ۔ میں بندوق اٹھانے والوں کو بزدل سمجھتی ہوں مگر ہمیں بھی اپنے دفاع اور اس دھرتی کی حفاظت کے لیے بندوق اٹھانی پڑے گی ۔ آپ مجھے بندوق چلانا سکھائیں گے نا ۔ درناب اپنی ضد پر اڑ چکی تھی۔
” اچھا بیٹا میں سکھا دوں گا یہ بہت مشکل کام ہے ویسے ۔۔۔” چچا نے ہار مانتے ہوئے کہا
"کوئی بات نہیں چچا جان میں سیکھ لوں گی نشانہ بازی کا مجھے بچپن سے شوق ہے ”
” ٹھیک ہے پھر میں آپ کو بہت جلد ماہر نشانہ باز بنا دوں گا ” چچا نے مسکراتے ہوئے کہا

یہ بھی پڑھئے:  تلاش

*********************
"ماں میں نے کب کہا میں بندوق لے کر دشمن کی تلاش میں نکل پڑوں گی ۔ میں تو اسے صرف ضرورت کے وقت استعمال کروں گی ۔ اپنی قوم اپنی زمین کی دفاع کے لیے ۔ ماں مجھے مت روکو میں بہادر ما ں باپ کی بیٹی ہوں، اس عظیم دھرتی کی بیٹی ہوں ۔ مجھے بدلہ لینا ہے ۔ خون کا بدلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
درناب مسلسل اپنی ماں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ درناب کی ماں اگرچہ بہادر خاتون تھی مگر اس کی ایک ہی بچی تھی جو اس کی کل کائنات تھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دشمن اس سے آخری امید بھی چھین لے ۔ وہ کسی بھی طرح ماننے کو تیار نہ تھی
” بیٹا تم دشمن کو نہیں جانتی ۔ انہیں تو دنیا بھر میں سفاک کہا جاتا ہے مگر پھر بھی ان کے مظالم پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔ وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ صبر کر میری بچی خدا ان سے خود بدلہ لے گا ۔ ضرور بدلا لے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” فاطمہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
” نہ ماں ان کے مظالم پر صبر کرنا جرم ہے ۔ ماں میں لڑکی سہی مگر جب دشمن سے لڑوں گی تو دنیا کو بھی احساس ہو گا کہ ایک لڑکی دشمن سے لڑ رہی ہے اپنے حق کے لیے تو وہ بھی ہمارا ساتھ دیں گے ۔ وادی کی ہر لڑکی میرا ساتھ دے گی ۔ مجھے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے ۔ دنیا کو یہ بتانا ہے کہ دشمن ہمارے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
درناب بولتی چلے جا رہی تھی آخر اس کی ضد کے آگے اس کی ماں کو بھی ہتھیار ڈالنے پڑے اور اسے بندوق چلانا سیکھنے کی اجازت مل گئی ۔ (دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »