امن اور سکون ،نہ صرف معاشرے سے بلکہ ہماری زندگیوں سے بھی ختم ہوئے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ وحشت اور جنون نے لے لی ہے۔جس معاشرے سے رواداری اور برداشت ختم ہو جائے، لوگ در گذر سے کام لینا چھوڑ دیں، صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں وہاں وحشی اور جنونی معاشرہ ہی وجود میں آئے گا۔یہ وحشت اور جنون مذہب کے حوالے سے زیادہ دیکھنے میں آتی ہے، لوگ مذہب کی محبت میں وحشی اور جنونی بنتے جا رہے ہیں۔اسلام امن کا مذہب ہے لیکن اس کے ماننے والے امن سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔
وجہ یہی ہے کہ ہم نے مذہب کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ہم خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھتے ہیں ،خود کو مسلمان اور دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں،نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ زور بھی دیتے ہیں کہ باقی سب بھی اس بات کی تائید کریں۔دور کیوں جائیں کسی درس کی محفل میں چلے جائیں،کسی مجلس میں شریک ہوں ان محافل میں شریک افراد خود کو نیکی کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز سمجھتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان محافل میں کسی دوسرے فقہ سے تعلق رکھنے والے شریک ہو جائیں تو انہیں خوش آمدید کہنے کے بجائے انہیں نہایت تمسخرانہ اور تکبرانہ نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔یہ میں ان محفلوں کی بات کر رہی ہوں جو گھریلو اور نجی پیمانے پر منعقد کی جاتی ہیں۔اگر خوش قسمتی سے کسی فرد کوحج ،عمرہ یا زیارات کی سعادت نصیب ہو جائے تو وہ خود کو ولی اللہ کے درجے پر فائز ہوا سمجھتے ہیں،خواہ اس عبادت کی سعادت سے پہلے وہ جو بھی رہ چکے ہوں اس سعادت کے بعد نہ صرف حلیے میں تبدیلی آتی ہے بلکہ رویوں میں بھی۔ ہر وقت تیوری پر بل ڈالے اعتراضات اور تبلیغ کا کام کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ مذہب انکسار سکھاتا ہے مگر لوگ مذہب اختیار کرتے ہی غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مذہب جبری طور پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسلام کی تبلیغ و ترویج نہایت پیار محبت اور امن سے کی تھی۔جبراً مسلط کیا گیا مذہب قابل عمل بھی نہیں ہوتا۔اور یہ اسی جبری مسلط کئے گئے مذہب کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج ہر فرقہ ایک دوسرے کو کافر کہتا ہے،جو پڑھا لکھا فرد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے ملحد،لادین اور سیکولر جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے خواہ ان الفاظ کے معنی بھی معلوم نہ ہوں اور اسی بنا پر چند مذہبی وحشی جنو نی ان کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔سچ بولنے والا خواہ شاعر ہو ادیب ہو فنکار ہو یا پھر سیاست داں ،یہ جنونی کسی کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتے۔مذہب کی آڑ میں اپنی ذاتی دشمنی کی خاطر نہ جانے کتنے ہی غیر مسلموں کو بلکہ دوسرے فرقے کے مسلمان بھائیوں کو بھی کافر قرار دے کر ان سے انتقام لیا جاتا ہے۔ کبھی زندہ جلا دیا کبھی سنگسار کر دیا اور کبھی پوری پوری بستی تاراج کر دی گئی۔
یہ انتہا پسندی یہ شدت پسندی ہماری زندگیوں میں کب در کر آئی کسی کو اس کا احساس تک نہ ہوا۔اور شدت پسندی کا یہ زہر رفتہ رفتہ ہماری رگوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔اور اس کا شاخسانہ یہ ہے کہ اب لوگ رفتہ رفتہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور جذباتیت کی طرف مائل ہیں۔اس شدت پسندی کی وجہ سے آج کا نوجوان الحاد کی طرف مائل ہو رہا ہے۔یا مذہب سے متنفر ہو کر دوری اختیار کر رہا ہے۔ ذرا سوچئے،کیا ہمارا مذہب ہمیں علم حاصل کرنے سے روکتا ہے،؟کیاسوچنا اور سوال کرنا ہمارے مذہب میں حرام ہے؟زندگی بہت مختصر ہے اللہ نے ہمیں یہ زندگی اپنی بہترین نعمتوں کے ساتھ عطا کی ہے اسے اپنے رب کی نعمتوں کے شکر کے ساتھ گذاریں اور دوسروں کو بھی گذارنے دیں،خدارا ،مذہب کو اپنے لئے اور دوسروں کے لئے عذاب نہ بنائیں۔

ایک محنت کش خاتون ہیں۔ قسمت پر یقین رکھتی ہیں۔کتابیں پڑھنے کا شوق ہے مگر کہتی ہیں کہ انسانوں کو پڑھنا زیادہ معلوماتی، دل چسپ، سبق آموز اور باعمل ہے۔لکھنے کا آغاز قلم کار کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اپنی بات سادہ اور عام فہم انداز میں لکھتی ہیں۔ قلم کار ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn