Qalamkar Website Header Image

آئی صدائے غیب کہ بس بس حسینؑ بس

غم حسین معلوم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے، اس المیے کی وجہ کوئی مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ظالم اور مظلوم کے درمیان کشکمش ہے جو دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاقی ضابطوں میں موجود ہے، مذاہب اور اخلاقی ضابطے ظلم کی مذمت اور مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں تو خواہ آپ کا کوئی بھی مذہبی عقیدہ ہو یا سرے سے کوئی مذہبی عقیدہ نہ ہو، ظالم اور مظلوم سے متعلق تو ایک تقسیم موجود ہے اور آپ کو واقعہ کربلا کے حوالے سے اس بات کا اظہار کرنا ہوگا کہ آپ ظالم کی جانب ہیں یا مظلوم کی جانب۔۔

محرم میں سب سے بڑا سانحہ کربلا کا ہوا، جس میں المیہ ہے، شدت ہے، غم ہے اور تاریخ سے سبق ۔ محرم میں شیعہ یا سنی کیا کرتے ہیں، ذاکر اور مولوی کا کیا عمل ہے، تعزیہ اور زنجیرزنی کرنے والوں میں غلط کون ہے، یہ سب باتیں محرم کا مسئلہ نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کا مسئلہ ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور عقیدت کے انداز رکھتے ہیں، محرم کا مسئلہ بس مظلومان کربلا کا لبِ دریا بہہ جانے والالہو ہے۔

ریحان اعظمی نے سانحے کی کیا خوب منظرکشی کی ہے، اسے محسوس کیجئے کہ یہ وقت اِدھر اُدھر کی ضمنی باتوں کا نہیں ہے، یہ وقت انسانیت دکھانے کا ہے۔
اے میرے رب جہاں
اک عجب عشق ہوا
وہ سر کرب و بلا
تیرا عاشق ہے کھڑا
خون میں ڈوبا ہوا
دے چکا لخت جگر
دے چکا نور نظر
دے چکا سارا وہ گھر
اور خنجر کے تلے
اس کا سجدے میں سر
نہ نماز ایسی نہ کلیجہ ایسا
نوک نیزہ پہ بھی کرتا ہی رہا ذکر تیرا

یہ بھی پڑھئے:  بادشاہی مسجد لاہور میں مشترکہ شیعہ سنی افطار

جیسی وہ ذوالفقار تھی ویسا تھا ذوالجناح
بچپن سے ساتھ ساتھ یہ رہتا تھا ذوالجناح
بے مثل و بے نظیر تھا اعلی تھا ذوالجناح
کیوں کر نہ ہو رسولۖ نے پالا تھا ذوالجناح
پہلا سوار وہ نبیۖ پروردگار ہے
اور دوسرا یہ دوش نبیۖ کا سوار ہے

چیتے کی جست شیر کی چتون ہرن کی آنکھ
چلتا تھا دیکھ دیکھ کے شاہ زمنؑ کی آنکھ
پڑتی تھی یوں ہر اک پہ اس سخت شکن کی آنکھ
لڑتی ہو جیسے جنگ میں شمشیر زن کی آنکھ
تیغ آئی جس پہ اس کا بھی وار اس پہ چل گیا
وہ سر گرا گئی تو یہ لاشہ کچل گیا

کہتا تھا ذوالفقار سے اب میری جنگ دیکھ
چل میرے ساتھ ساتھ ذرا میرا رنگ دیکھ
اس پیاس میں لڑائی کا میرا بھی ڈھنگ دیکھ
راہ حیات کتنوں پہ کرتا ہوں تنگ دیکھ
مانا تو ذوالفقار ہے مرحب شکار ہے
لیکن یہ دیکھ کون یہ مجھ پر سوار ہے

سمٹا جما اڑا ادھر آیا ادھر گیا
چمکا پھرا جمال دکھایا ٹھہر گیا
تیروں سے اڑ کے برچھیوں میں بے خطر گیا
درہم کیا صفوں کو سروں سے ادھر گیا
آیا جو زد میں اس کی اجل آگئی اسے
اک کانپ پڑی جس پہ زمین کھا گئی اسے

آئی صدائے غیب کہ بس بس حسینؑ بس
دم لے ہوا میں جنگ نہ بس کر حسینؑ بس
گرمی سے ہانپتا ہے فرس اے حسینؑ بس
وقت نماز عصر ہے بس بس حسینؑ بس

یہ بھی پڑھئے:  آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے! - آمنہ مفتی

یہ سنتے تھے حضرتؑ جو لگا پشت پہ بھالا
قرموس پہ تھّرا کے گرے حضرتؑ والا
جبرئیل نے قدموں سے رکابوں کو نکالا
اور ہاتھوں کو گردن میں یداللہؑ نے ڈالا

دیکھا جو ذوالجناح نے غش کھاکے زین پر
پس بیٹھ گیا ٹیک کے گھٹنوں کو زمین پر
قرآن رحل زیں سے سر فرش گر پڑا
دیوار کعبہ بیٹھ گئی عرش گر پڑا

چلائیں فاطمہؑ میرا بچہ ہے بے گناہ
اے ارض نینوا میرا بچہ ہے بے گناہ
اے نہر علقمہ میرا بچہ ہے بے گناہ
اے ذوالفقار تو ہی بچا لے حسین کو
اے ذوالجناح تجھ سے میں لوں گی حسینؑ کو
ڈوبا لہو میں لوٹ کہ آیا ہے ذوالجناح
سمجھی سکینہ بابا کو لایا ہے ذوالجناح
سر خاک پر پٹخ کے پکارا وہ رہوار
سیدانیوں بچھڑ گیا مجھ سے میرا سوار
جلدی اتار لو یہ تبرک یہ ذوالفقار
ارے کٹتا ہے واں گلو شہنشاہؑ نامدار
زہراؑ قریب لاش پسر خاک اڑاتی ہیں
ارے خیموں میں جاؤ لوٹنے کو فوج آتی ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس