Qalamkar Website Header Image

امریکی نظام سیاست – حصہ اول

دو برس قبل ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ہنگامہ خیز انتخابات کے نتیجے میں صدر بنے۔ تب سے امریکی انتظامیہ مختلف تنازعات میں گھری رہی۔ موجودہ وسط مدتی انتخابات کے نتیجے سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کافی ناراض نظر آتے ہیں۔اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں ہم پہلے امریکی سیاسی اور مقتدر اداروں اور کرداروں کا مختصر جائزہ لیں گے۔

کانگریس
امریکی وسط مدتی انتخابات میں عوام نے کانگریس کے لئے امیدواروں کا چناؤ کیا۔ امریکی آئین کے آرٹیکل 1 کے تحت مقننہ یعنی ریاستہائے متحدہ کی کانگریس ایوان نمائندگان اور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں ایوان قانون سازی میں شراکت دار ہیں اور کسی ایک کو نظرانداز کر کے قانون سازی ممکن نہیں لیکن ہر ایوان کو کچھ مخصوص آئینی اختیارات علیحدہ سے بھی حاصل ہیں۔ مثال کے طور پر مالیات سے متعلق بل اولا ایوان نمائندگان میں پیش کیے جاتے ہیں اور سینیٹ ان میں صرف ترامیم تجویز کر سکتی ہے۔

کانگریس کے دونوں ایوانوں سے منظور شدہ بل صدر مملکت کو بھیجا جاتا ہے جو اس کی توثیق کرتا ہے جس سے وہ قانون بن جاتا ہے یا اعتراضات کے ساتھ اس کی شروعات کرنے والے ایوان میں واپس بھیج دیتا ہے۔ واپس بھیجے گئے بل کا متعلقہ ایوان میں اعتراضات پر بحث کے بعددو تہائی اکثریت سے منظور ہونا ضروری ہے۔ منظوری کی صورت میں اسے دوسرے ایوان میں اعتراضات سمیت پیش کر دیا جاتا ہے۔ اگر دوسرا ایوان بھی اعتراضات پر بحث کے بعد دو تہائی اکثریت سے اس کی منظوری دے تو یہ قانون بن جاتا ہے۔

کانگریس سیشن کے دوران ایک ایوان دوسرے کی منظوری کے بغیر اپنا اجلاس تین دن سے زیادہ کے لئے ملتوی نہیں رکھ سکتا۔ کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس کچھ خاص مواقع جیسے صدر کے سالانہ خطاب کے موقع پر بلایا جاتا ہے جس میں ایوان نمائندگان کا سپیکر صدارت کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ قانون ساز ی کے لئے کانگریس کی عمومی مدت دو سال ہوتی ہے۔ موجودہ کانگریس کی مدت  جنوری 2019 کو ختم ہو رہی ہے جس کے بعد حالیہ وسط مدتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے نمائندگان اور سینیٹر سبکدوش ہونے والوں کی جگہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ امریکی آئین کے تحت کانگریس اراکین کو غداری اور سنگین جرائم کے علاوہ اجلاس کے دوران گرفتاری سے استثنی حاصل ہے۔

ایوان نمائندگان
امریکی کانگریس کا ایوان نمائندگان 435 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے جو پچاس ریاستوں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ ہر ریاست کو آبادی کے تناسب سے اس زیریں ایوان میں حصہ دیا جاتا ہے۔ ریاست کیلیفورنیا کے لئے ایوان نمائندگان میں سب سے زیادہ 53 نشستیں جبکہ الاسکا، ڈیلوئیر، مونٹانا، شمالی ڈکوٹا، جنوبی ڈکوٹا، ورمونٹ اور وومنگ کے لئے ایک ایک نشست مختص ہے۔ عوام اس ایوان کے ارکان کو براہ راست انتخابات کے ذریعے دو سال کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ ایوان نمائندگان کے انتخابات ہر دو سال بعد یعنی صدارتی انتخاب کے ساتھ اور وسط مدتی انتخابات کے ذریعے منعقد ہوتے ہیں۔ اہل امیدواروں کے لئے پچیس سال عمر، کم از کم سات سال سے امریکی شہریت کا حامل اور متعلقہ ریاست کا رہائشی ہونا ضروری ہے۔ ایوان اپنے سپیکر اور مختلف کمیٹیوں کے ارکان چننے میں آزاد ہے۔ اس کے علاوہ "مواخذے” کی کاروائی شروع کرنے کا مکمل اختیار بھی اسی ایوان کو حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  ٹرمپ اور پیوٹن کا فون رابطہ، شامی امن عمل پر گفتگو

حالیہ انتخابات میں ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حریف جماعت ڈیموکریٹ نے ایوان نمائندگان میں مضبوطی سے قدم جمائے ہیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی کو سب سے بڑی کامیابی اہم ترین ریاست کیلیفورنیا میں حاصل ہوئی جہاں وہ اب تک کی آمدہ اطلاعات کے مطابق 44 نشستوں پر برتری لئے ہوئے ہے جبکہ 435 کے ایوان میں اسے ابھی تک 227 کی واضح برتری حاصل ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ تازہ ترین نتائج کے مطابق قریبا 95 خواتین ایوان نمائندگان کی ارکان منتخب ہوئی ہیں جو امریکی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

سینیٹ
ریاست ہائے متحدہ کا ایوان بالا یعنی سینیٹ سو اراکین پر مشتمل ہوتا ہے یعنی ہر ریاست کے لئے دو نشستیں مخصوص ہیں۔ اہل امیدواروں کے لئے تیس سال عمر، کم از کم نو سال سے امریکی شہریت کا حامل اور متعلقہ ریاست کا رہائشی ہونا ضروری ہے۔ ایک سینیٹر چھ سال کی مدت کے لئے منتخب ہوتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں کے لئے انتخابات ہر دو سال بعد یعنی صدارتی انتخاب کے ساتھ اور وسط مدتی انتخابات کے ذریعے منعقد ہوتے ہیں۔ موجودہ وسط مدتی انتخاب کے آمدہ نتائج میں حکمران ری پبلکن جماعت سینیٹ میں 51 نشستوں کے ذریعے اپنی معمولی برتری برقرار رکھنے میں کامیاب رہی جو ٹرمپ کے لئے کچھ نہ کچھ اطمینان کا باعث ہے۔ خواتین کے لحاظ سے بھی موجودہ امریکی سینیٹ تاریخی ہے جس میں 2016 کی 20 خواتین ارکان اب وسط مدتی انتخابات 2018 کے نتائج میں بڑھ کر 22 ہو گئی ہیں۔

امریکی سینیٹ کے اجلاس کی صدارت نائب صدر کرتا ہے۔ سینیٹ نائب صدر کا ایک جانشین بھی منتخب کرتی ہے جو اس کی غیرحاضری یا عدم دستیابی کی صورت میں سینیٹ اجلاس کی صدارت کرنے کا مجاز ہو۔ امریکی ایوان بالا یعنی سینیٹ کو ایوان نمائندگان کی جانب سے شروع کئے گئے مواخذے کی سماعت کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ امریکی صدر کے مواخذے کی صورت میں اجلاس کی صدارت چیف جسٹس کرتا ہے۔ سینیٹ میں مواخذے کی زیادہ سے زیادہ سزا برخاستگی اور سرکاری و آئینی عہدوں سے نااہلی ہو سکتی ہے۔ سنگین یا قابل سزا جرم کی صورت میں کامیاب مواخذے کے بعد مقدمہ، سماعت اور سزا کے لئے رائج آئینی و قانونی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔

صدر مملکت
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے انتظامی اختیارات مطلقا صدر مملکت کو حاصل ہیں جو ایک نائب صدر کے ساتھ چار سالہ مدت کے لئے منتخب ہوتا ہے۔ امریکی صدر کی مراعات میں اس کی مدت صدارت میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہو سکتی۔ صدارتی دفتر سنبھالنے سے پہلے صدر دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دینے اور آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔ امریکی صدر تمام مسلح افواج کا سربراہ ہوتا ہے اور اسے مواخذے کے سوا کسی بھی جرم کے مرتکب فرد یا افراد کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ سینیٹ کے مشورے اور دو تہائی اکثریت کے اتفاق سے صدر بین الاقوامی معاہدے کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی منظوری سے سفراء، وزراء اور سپریم کورٹ کے جج تعینات کرنے کا اختیار بھی اسے حاصل ہے۔ صدر کے لئے ضروری ہے کہ وقتا فوقتا امریکی کانگریس کو اہم ملکی معاملات پر اعتماد میں لیتا رہے۔

یہ بھی پڑھئے:  جنم جلے | وقاص اعوان

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے موجودہ اور 45 ویں صدر ہیں جو اپنے نائب مائک پینس کے ہمراہ نومبر 2016 کے صدارتی انتخاب میں 4 سال کی مدت کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ امریکی آئین کی 22ویں ترمیم کے مطابق ایک فرد صدارت کی چار سالہ دو مدتوں سے زیادہ کے لئے منتخب نہیں ہو سکتا۔ روزویلٹ واحد امریکی صدر تھے جنہوں نے اس ترمیم سے پہلے دو سے زیادہ مدتوں کے لئے کرسی صدارت کا لطف اٹھایا۔ دو سو سال سے زیادہ پارلیمانی تاریخ کے حامل ملک امریکہ میں اب تک کوئی خاتون سربراہ مملکت منتخب نہیں ہو سکی۔

امریکی صدر، نائب صدر اور کسی بھی اہم عہدےدار کو غداری، رشوت خوری یا کوئی سنگین جرم ثابت ہونے کی صورت میں مواخذے کے ذریعے برطرف بھی کیا جا سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں صدارتی مواخذے کے تین میں سے آخری واقعہ 1998ء میں بل کلنٹن کے ساتھ پیش آیا جن کا معاملہ ایوان نمائندگان سے سماعت کے لئے سینیٹ تک آیا جہاں انہیں سزاوار قرار دینے کے حق میں پچاس ووٹ آئے۔ مواخذے کی سزا صرف دو تہائی یعنی 67 ارکان کے اتفاق سے ہی سنائی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے ابراہام لنکن کے قتل کے بعد صدر کا عہدہ سنبھالنے والے اینڈریو جونسن بھی 1868ء میں ایوان نمائندان کے کامیاب مواخذے کے بعد سینیٹ میں مجرم ثابت ہونے سے بال بال بچے تھے۔ ان دو کے علاوہ واٹر گیٹ سکینڈل سے شہرت پانے والے صدر رچرڈ نکسن بھی اختیارات کے ناجائز استعمال پر  ایوان نمائندگان کے مواخذے کا نشانہ بنے اور گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر سینیٹ کی کاروائی سے قبل ہی عہدے سے استعفی دینے کو ترجیح دی۔ رضاکارانہ طور پر صدارتی دفتر چھوڑنے والے پہلے شخص نکسن کی جگہ ان کے نائب جیرالڈ فورڈ نے عہدہ سنبھالا۔ بعد ازاں فورڈ نے ایک متنازع صدارتی حکم کے ذریعے سابق صدر کے لئے معافی کا اعلان کر دیا۔ المختصر، مختلف بےظابطگیوں میں ملوث ہونے اور اعترافات کے باوجود قدیم جمہوری روایات کی دعوےدار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین اور سیاسی نظام میں صدر کے احتساب کی کوئی مثال اب تک بن نہیں پائی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس