تہذیبی اور ثقافتی روایات میں معاشرتی ارتقائی عمل جاری و ساری رہتا ہے پرانی روایات مرتی اور ان کی جگہ نئی روایات جنم لیتی رہتی ہیں انہی روایات میں اقدار کا ظہور بھی ہوتا ہے اور ان میں تبدیلی بھی آتی ہے لیکن کچھ اور سچائیاں بھی اس تناظر میں واضح ہیں معاشرتی اور انسانی اخلاقی اقدار ہر تہذیب اور ثقافت میں کچھ مختلف اور متضاد بھی ہوتے ہیں چنانچہ ایک معاشرے میں کوئی ایک جائز اور دوسرے میں غلط ہوتی ہے اور جب یہ اقدار وقت اور حالات کے جبر میں ایک سنگم پر آتی ہیں تو ان میں ملاپ کے بجاے تصادم پیدا ہو جاتا ہے لیکن پھر دونوں کو بہ امرِ مجبوری اتفاقِ رائے کرنا پڑتا ہے جس کا ایک پہلو طاقت ور کا غلبہ بھی ہوتا ہے جب کہ ایک نقطہء نظر ہے کہ۔۔۔ جیسی تہذیبی تاریخ ویسا ہی معاشرہ۔ اور پھر جیسی روایات و اقدار ویسا ارتقائی عمل۔۔۔ لیکن اس کے باوجود تخلیقی بنیادیں، قوتِ متحرکہ بن کر اثاثے کے طور پر موجود رہتی ہیں۔ قوموں اور ملکوں کے اجتماعی کردار کو بھی اسی تناظر میں دیکھا پرکھا جانا چاہیے۔
اب یہ تو واضح ہے کہ کولمبس نے امریکا دریافت کیا تھا تو وہاں آبادی بھی موجود تھی جو اپنے معاشرتی اور معاشی نظام کے تحت زندگی گزارتی تھی ان کی اپنی اقدار، روایات اور اخلاقیات تھیں۔ لیکن جب یورپ کے قانونی مجرم اور مفرور، اس وقت کی جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہوئے، قابض ہوئے ظاہر ہے کہ۔۔۔ نئی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی فتح یا پھر جدیدیت کی فتح اور قدامت کو شکست ہونا تھی یہی وہ فطری عمل ہے جو مخصوص سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اور بڑھتا رہے گا۔۔۔ مگر
ایک اور تاریخی صداقت ہے کہ ’مہاجر‘ قابض ہوں تو ان کی روایات و اقدار بھی ساتھ ہوتی ہیں اور وہ اسے مقامی تہذیب و ثقافت پر مسلط بھی کرتے ہیں اور نئی اخلاقیات کو جنم دیتے ہیں جس سے ایک نیا معاشرہ جنم لیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حکمرانوں کی ذہنیت، منفی ہو یا مثبت اس کے مقامی فکری اور ثقافتی روایات پر اثرات بھی ہوتے ہیں۔۔۔ اور اگر یہ حکمران طبقے استحصال کے لیے جائز و ناجائز میں تمیز نہ کرتے ہوں اور ’محبت اور جنگ میں سب جائز‘ کی تھیوری کے دعوے دار ہوں تو پھر۔۔۔ اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا ظہور بھی اسی پس منظر سے ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم امریکن معاشرتی اقدار کو ایسی اصطلاحات میں جکڑا ہوا دیکھتے ہیں جن پر ’قانون‘ کا تسلط اور مضبوط گرفت ہے۔ چنانچہ ایک نقطہء نظر اس کی جوہری تخلیق میں یورپ کے مہاجرین اور حکمران طبقوں کی مجموعی معاشرتی اور انسانی اقدار کو بھی دیکھتے ہیں اور یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ مفرور، مجرم اور باغیوں میں بغاوت کے جرثومہ کی نشوونما کی وجوہ کو اہمیت بھی دی گئی اور ساتھ ہی انصاف اور قانون کی فراہمی کے لیے مضبوط اور آزاد ادارے بھی ناگزیر تسلیم کیے گئے یہی وجہ ہے کہ طویل عرصہ گذرنے کے باوجود کہیں کوئی بڑی بغاوت نہیں ہوئی اور معاشرہ ایک مضبوط سیاسی نظام میں ارتقا پذیر ہے بلکہ موجود نظام کو چلتے ہوئے دو سو سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے اور وہ ارتقائی عمل میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ بلکہ
سرمایہ داری نظام کی تمام تر خامیوں، غلطیوں اور سنگینیوں کے باوجود دنیا اس کی تقلید میں اپنا ارتقائی سفر طے کرنا چاہتی ہے اسے اپنا راہبر بنا کر ہمسفر بننے کی بھی خواہشمند ہے۔ تاریخ کے اس جبر یا پھر طاقت کے اس غلبہ کو ہم ایسے مجبور اور محدود لوگ ستم ظریفی کی انتہا کہہ کر دل کو تسلی دیتے ہیں لیکن تاریخ میں اسی صداقت کی شہادتیں واضح ہیں کہ۔۔۔
طاقت کسی اخلاقیات کی پابند نہیں ہوتی بلکہ طاقت، وقت اور حالات کے مطابق نئی اخلاقیات کو جنم دیتی اور پھر اس کو خود ہی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مزید یہ کہ بالمقابل اٹھنے والی طاقتوں کو تباہ کرنے کے لیے ہر جائز، ناجائز حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتی ہر رکاوٹ کو پاؤں تلے روند کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ صرف اور صرف مفادات اور ان کے حصول پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔۔۔ جنگیں بھی جائز ہوتی ہیں، قتل و غارت بھی۔ سرحدوں کو عبور کرنا اور آزادیوں کو سلب کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ راستے میں کھڑی شخصیات کو خواہ ان کے پیچھے عوام کا جم غفیر ہو، انھیں ہٹانے کو بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اس حوالے سے امریکا کے حکمران طبقوں کو خصوصی اہمیت اور افادیت حاصل ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکی حکمران اپنے مفاد کے لیے دشمن سے بھی اتحاد کر لیتے ہیں مگر جب مفاد کے حصول کے امکانات واضح ہونا شروع ہوتے ہیں تو نیا دوست پرانے دشمن میں تبدیل ہونے لگتا ہے رفاقتیں بدل جاتی ہیں اور نیا سفر شروع ہو جاتا ہے اور ہمارے جیسے معاشرے اور معاشرتی دانش ور اخلاقیات کا رونا رونے لگتے ہیں۔ حالانکہ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلقات میں کوئی اخلاقی پابندی نہیں ہوتی۔ صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں۔ سیاسی اور معاشی، باقی سب لفاظی ہوتی ہے۔ کوئی ہمالیہ سے اونچا چلا جاتا ہے تو کوئی سمندروں کی گہرائی میں غرق ہو جاتا ہے۔۔۔ یہی سیاسی اخلاقیات ہے جو صدیوں پر محیط ہے جس کا آج بھی غلبہ ہے اور آیندہ بھی ہو گا۔
اسی کو سرمایہ داری نظام کی سیاسی اخلاقیات بھی کہا جاتا ہے جس میں مفادات کے لیے گدھے کو باپ اور ترقی کو راکھیل بنانے، یا اپنے ہاتھوں اپنی ماں کی سوتن لانے میں کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی ویسے ایک اور سچائی تو یہ بھی ہے کہ سرمایہ داری نظام کے معاشرے ان برائیوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں ہم ایسے معاشرے جو ان کے بقول ’جہالت‘ کے اسیر ہیں ابھی تک قدامت پسندی کی اس اخلاقیات کے شکنجے میں سرمایہ داری نظام کے کارندے، طاقت، دولت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے انھیں اپنے تئیں، یا پھر اپنے مفادات کی تکمیل کی خاطر آزاد کروانے میں معاونت کے دعوے دار ہیں۔
بہر حال دوستو! امریکا اس وقت دنیا میں سرمایہ داری نظام اور اس کی معاشی اقدار اور معاشرتی اخلاقیات کی ترویج کا سب سے بڑا دعوے دار اور محافظ ہے جس میں جمہوریت کو سیاسی معاون اور عالمی معاشی اور سیاسی اداروں کو تسلط اور غلبے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس میں دیگر ترقی یافتہ ممالک ’’پارٹنر‘‘ کے طور پر موجود ہیں یاد رہے کہ عراق اور افغانستان پر قبضہ میں اقوامِ متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال ہوا تو اس کے ساتھ ترقی یافتہ یورپی ملکوں کا جنگی اتحاد ’’نیٹو‘‘ بھی کارآمد ہوا۔ حالانکہ یہ اتحاد سوویت یونیئن اور کیمونزم کے خوف کی بنا پر قائم ہوا تھا۔ سوویت یونیئن کے سیاسی انتشار کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا مگر اس کو باقی رکھا گیا۔۔۔ اسی سے ہی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور اس کے اہداف کا اندازہ ہوجانا چاہیے تھا یا پھر نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے فلسفہ میں چھپے اہداف کا مسلمان بادشاہوں کو ادراک ہو جانا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن وہی پرانی بات کہ بادشاہتوں میں بادشاہ ہی عقل کل ہوتے ہیں ان میں ادارے بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی دانش وروں اور مستقبل بینوں کو اہمیت دی جاتی ہے بلکہ انھیں تختہء دار کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ اس کے لیے مذہب کو بھی ہتھیار بنانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کی پہلی جنگ میں نظریہء جہاد بھی اسی کا عکس تھا اور ابھی تک ہونے والی مبینہ مزاحمت کو بھی ایسی ہی نظریاتی چھاؤں فراہم کی جا رہی ہے حالانکہ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغانستان میں جاری موجودہ مزاحمتی جنگ محض مفادات کی جنگ ہے، جس کی سرپرستی مقامی، علاقائی اور عالمی قوتیں کر رہی ہیں اور وہ اس خطے میں موجود تین ہزار ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر میں اپنا اپنا حصہ تلاش کر رہے ہیں کچھ نئے گروپ ہیں تو کچھ پرانے اتحادی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس خزانے کی تلاش ہم نے کی انسانیت کی تباہی اور ہلاکتوں کے الزامات بھی ہم نے برداشت کیے اربوں ڈالر بھی ہم نے خرچ کیے۔۔۔ لیکن اب جب کہ پھل کھانے کا وقت آیا ہے تو مضافات میں رہنے والے بچے بھی دیواریں پھلانگ کر آ گئے ہیں۔
لیکن دوستو۔۔۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی اور واضح شکل ہے ہر کوئی مفادات کے لیے حدود عبور کرتا ہے لیکن ایک اور نقطہ یہ بھی ہے کہ جب مالِ غنیمت تقسیم کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو پھر تضادات بھی ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں آپسی اختلافات میں مرنا مارنا بھی ہو جاتا ہے آج کا علاقائی منظرنامہ اسی پس منظر میں دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔۔۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ موقعہ پرستی اور مفاد پرستی کا آغاز معروض میں کہاں سے آیا۔ حدود سے تجاوز کرنے اور دیواریں پھلانگنے کی روش کس نے اپنائی۔ اور اب ہر کوئی اس پر چلنے کو اولیت دے رہا ہے۔ صاحبو! اس سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ میں ایک اور سرمایہ دارانہ ذہنیت یا پھر امریکیوں کی اقتصادی نفسیات اور سیاسی اخلاقیات کا عکس دکھانا چاہتے ہیں جس کی مابعد سزائیں وہ قوتیں بھگت رہی ہیں جو امریکیوں کی محبت، نفسیات اور اخلاقیات کی زد میں آئی ہیں جس کا ایک عکس ہمارے قومی چہرے پر پھیلی ہوئی ٹیڑھی ترچھی لکیروں میں واضح نظر آتا ہے یہ الگ بات کہ ہماری قیادت ہنوز اس پر نقاب ڈال کر اپنی غلطیوں کو سچائی کے شور میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ غلطیوں کے اعتراف میں مستقبل کا یقین چھپا ہوتا ہے۔
بہر حال دوستو۔۔۔ سرمایہ داری اور سرمایہ کاری میں صرف اور صرف مفادات اور ان کا جائز، ناجائز طریقے سے حصول ہوتا ہے کوئی نظریہ کوئی اخلاقیات کوئی قانون پاؤں کی زنجیر نہیں بنتا تو کسی سیاسی نظام کی بھی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اگر اسے امریکی ترجیحات میں دیکھا جائے تو واضح ہو تا کہ دنیا میں بادشاہتوں اور غیر جمہوری حکومتوں اور حکمرانوں کی سب سے زیادہ سرپرستی بھی امریکا ہی کرتا ہے۔ دنیا میں بادشاہتیں ختم ہو چکی ہیں لیکن سعودی حکمرانوں کی بادشاہت ابھی تک امریکی سرپرستی میں قائم ہے اسی طرح کچھ اور بادشاہتیں اگر موجود ہیں تو وہ بھی اسے علاقے یا پھر سعودی عرب کے پڑوس میں ہیں۔۔۔ اس موقعہ پر ہمیں مصر کے شاہ فاروق کا وہ جملہ یاد آ رہا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’دنیا میں بالآخر وہ وقت آئے گا جب پانچ بادشاہ رہ جائیں گے چار تاش کے اور پانچواں برطانیہ کا‘۔ جہاں بادشاہ صرف کاغذی ہے، اور اسے صرف نمایش کے لیے رکھا گیا ہے۔۔۔ لیکن سچائی تو یہ ہے کہ سرپرستی خواہ کتنی ہی مضبوط اور طاقت ور ہو عوامی تحریک کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مارکوس ہو یا رضاشاہ پہلوی انھیں اپنی مٹی کے ساتھ غداری کرتے ہوئے بالآخر راہِ فرار اختیار کرنا پڑتی ہے۔ امریکی حکمرانوں کے پاس محبت اور تعلق کی گواہی کے لیے انھیں اپنے ملک میں پناہ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ یہ تو وفاداروں کے ساتھ حسن سلوک کی بات ہے۔ ویسے اس ضمن میں اگر پاکستانی چاہیں تو سابق درآمدی وزیراعظم شوکت عزیز کا یہ بیان بھی یاد رکھیے، جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ بل کلنٹن امریکی صدر، بھارت سے واپسی پر اسلام آباد میں نوازشریف کو بچانے رکے تھے۔ اب بھی دروغ بر گردنِ راوی گذشتہ دنوں جو امریکی وفد آیا تھا اور اس نے جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں افغانستان، اقتصادی راہداری، بھارت سے تعلقات کے علاوہ مبینہ طور پر نوازشریف کو تحفظ فراہم کرنے پر بھی بات ہوئی ہے۔۔۔ بہر حال صاحبو! نواز شریف کو شوکت عزیز کے بقول اس جرنیل کے عتاب سے بچایا گیا تھا جو کہتا تھا کہ ’’مَیں ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘‘ لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کے موقع پر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا تھا اور پھر حال ہی میں ملک چھوڑنے کے جو طریقے اختیار کیے وہ پاکستانی تاریخ کا انوکھا باب ہیں۔
امریکی حکمرانوں کی سرپرستی کی خواہش اولین ترجیح رہی ہے تو دوسری طرف اس حقیقت کی شہادتیں بھی واضح ہیں کہ پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں میں امریکا کا کردار رہا ہے۔ بلکہ سیاسی منظر پر نمایاں ہونے والے سیاسی اور غیرسیاسی حکمرانوں کو سرپرستی اور تعاون میسر رہا ہے لیکن جب ان میں حب الوطنی، قومی سلامتی اور اس کے تقاضے باغیانہ طرزِ عمل کی طرف عزمِ سفر بنے ہیں تو انھیں عبرت کی مثال بنانے کا نوٹس، انتباہ یا دھمکی دی جاتی ہے اس کے لیے ہیں، کسی اور جگہ سے نہیں اسی قوم سے وطن سے ’’حب الوطن‘‘ تلاش کیا جاتا ہے جو یہ کام مذہب اور اس کی بالادستی کے نام پر کرتا ہے۔ لیکن تاریخ کی یہ صداقت بھی اپنی جگہ ہے امریکا دشمنی کا احساس ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ہو گیا تھا اور اس کے انجام کا ادراک بھی تھا لیکن وہ اس خوش فہمی کا شکار بھی تھے کہ ’عوام کی طاقت‘ غیرمنتخب حکمرانوں کو تلخ فیصلہ نہیں کرنے دے گی۔ اسی لیے انھوں نے شاہ فیصل کی شہادت پر آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا کہ۔۔۔ ’اب میری باری ہے‘۔ افسوس کہ عوام تمام تر قربانیوں کے باوجود انھیں بچانے میں ناکام ہوئے۔ پھر بھی ذوالفقار علی بھٹو خواہش کے مطابق تاریخ میں نہیں مرے بلکہ دوام حاصل کر گئے اور پھر۔۔۔ اسے مارنے والے ضیاء الحق؟؟
یہ وہی ضیاء الحق ہیں، جو 80ع کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے ری پبلکن پارٹی کے صدر ریگن کے 20 جنوری 81ع کو اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے غیرملکی مہمان بنے تھے اور انھوں نے چار ارب ڈالر کی امداد کے ساتھ سوویت یونیئن کے خلاف افغانستان میں ’’امریکی جہاد‘‘ شروع کیا تھا۔ جو بتدریج آگے بڑھتا ہوا سٹریٹجک ڈیتھ کے جواز میں پاکستان کے لیے مشکلات و مصائب تلاش کر کے اپنی حدود میں جمع کرتا رہا۔ امریکا اور سوویت یونیئن کے درمیان تو ’’جنیوا‘‘ معاہدہ ہو گیا لیکن بقول ضیاء الحق کوئلوں کی دلالی میں پاکستان کے حصے میں سوائے سیاہی کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اور پھر طالبان کے مختلف گروہوں کی سرپرستی میں نئی سیاسی حکمت عملی شروع ہوئی جس کے کچھ پہلو مختلف خدوخال میں ہنوز نمایاں ہیں لیکن بقول شخصے اس پالیسی کو ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجہ میں ہوائی جہاز کا حادثہ رونما ہوا جس میں امریکی سفیر کی قربانی سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ ایک طرف تو یہ صورتِ حالات تھی اور دوسری طرف آج ’’شکیل آفریدی‘‘ کی حوالگی کا مطالبہ ہے جس نے اسامہ بن لادن جیسے ایک اور اہم معاون کی موجودگی کی نشاندہی کر کے امریکی فورسز کو مصدقہ شہادت ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا موقعہ فراہم کیا تھا۔
ایک نقطہء نظر ہے کہ امریکی ادارے پہلے مختلف افراد کو استعمال کرتے ہیں اور پھر انھیں منظر سے غائب کروا دیتے ہیں جس کی ایک واضح مثال صدام حسین کی بھی ہے اسے ایران کے خلاف آٹھ سالہ جنگ میں اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ جنگی وسائل بھی فراہم کیے گئے لیکن جب براہِ راست قبضہ کا فیصلہ ہو گیا چڑھائی ہوئی اور قبضہ ہو گیا تو نہ صرف بغداد میں اس کا مجسمہ گرا کر پوری دنیا میں اس کی تشہیر کی گئی بلکہ پھر اسے ایک غار سے دریافت کر کے تختہء دار پر چڑھا دیا گیا۔۔۔ غار کی ایسی ہی کہانی لیبیا کے صدر معمر قذافی کی بھی ہے جو پہلے مبینہ طور پر امریکی اداروں کے معاون بھی تھے۔ ایسا ہی معاون کردار مبینہ طور پر ایمل کانسی کے والد کا بھی تھا جس کو اس کے ساتھیوں نے قتل کر دیا تھا اور ایمل کانسی نے اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لیے انھیں انجام تک پہنچایا اور پھر واپس پاکستان آ گیا تھا۔ ایمل کانسی کی گرفتاری سردار فاروق لغاری کی صدارت میں ڈیرہ غازی خان سے ہوئی تھی جہاں سے اسے امریکا بھجوا دیا گیا تھا۔۔۔ بہ ہرحال یہ تو محبتوں، بے وفائیوں، موقعہ پرستی اور مفاد پرستی کی ایک معمولی سی کہانی ہے۔ لیکن اب معاملہ ہمارے خیال میں بہت تلخ اور گمبھیر ہے۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ دار کے لیے نہ تو کوئی انسانی ہلاکتوں کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ ہی کسی قانون کا کوئی خوف!! اسے صرف اور صرف سرمایے کی وسعت اور منافع سے ہی غرض ہوتی ہے۔ لیکن جب اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ۔۔۔ اس کی سرمایہ کاری ضائع جا رہی ہے منافع کے سارے خواب چکنا چور ہو رہے ہیں بلکہ نقصان کا عفریت منہ کھل رہا ہے تو اس کا جنون وحشت میں تبدیل ہو کر دھاڑنے لگتا ہے۔ ہمارا علاقائی سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ بھی اسی ’چیخم دھاڑ‘ کی زد میں ہے اسی سے اندیشہ ہائے گوناگوں جنم لے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سی پیک منصوبے اور گوادر بندرگاہ کے بدلتے ہوئے مناظر جس میں اہم اور بنیادی کردار پاکستان اور اس کی مسلح قیادت کا ہے جو خالصتاً قومی اور وطنی محبت کا واضح عکس ہے امریکا اور اس کے حواریوں کو پریشانی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ یہ پریشانی انھیں نفی کی تمام حدیں عبور کرنے اور انتہائی فیصلوں پر بھی مجبور کر سکتی ہے۔ اس لیے احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ تدبر و حکمت کی اشد ضرورت ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے نتائج بھی غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn