Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

ایران کے تین جوہری مراکز پر امریکہ کے حملے

بالآخر نیتن یاہو (اسرائیلی وزیراعظم) امریکہ کو اسرائیل ایران جنگ کے میدان میں اتارنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران ایران پر امریکی حملوں کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے بیانات اور ایران کے تین ایٹمی مراکز پر امریکی طیاروں کی بمباری کے بعد دیا گیا بیان کا مجموعی تجزیہ یہی ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ ” ظاہری مسخرے پن سے اپنی شخصیت کی حقیقی سفاکی چھپانے میں ماہر ہے ” ۔ ابھی دو تین دن قبل وہ کہہ رہے تھے ایران سے جوہری مذاکرات ہوں گے۔ دو ہفتے کا وقت ہے پھر د یکھیں گے کیا کرنا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا ترجمان کہہ رہا تھا صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کا فیصلہ نہیں کیا۔ یہ اطلاعات بھی تھیں کہ کینیڈا سے واپسی پر ٹرمپ نے امریکی سلامتی کونسل کا جو اجلاس بلوایا تھا ،اس اجلاس میں انہیں سوفیصد تائید حاصل نہیں ہوپائی۔ مگر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب جو ہوا وہ یکسر مختلف تھا۔ سادہ لفظوں میں ایک بھیانک یوٹرن ہے ۔ایران کے تین جوہری مراکز پر امریکہ کے حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا ’’یا تو امن ہوگا یا ایران کے لئے اس سے کہیں بڑا المیہ ہوگا ۔اگر امن نہیں ہوتا تو ایرانی اہداف پر مزید تیز اور شدید حملے ہوں گے ۔بہت سے ایرانی اہداف باقی ہیں جن کو تلاش کرکے منٹوں میں نشانہ بناسکتے ہیں‘‘۔

ایران کی تین جوہری تنصیبات پر امریکی حملہ حیران کن ہرگز نہیں البتہ یہ امر پیش نظر رکھنا ہوگا کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ نے جمعہ 20 جون کو کہا تھا  ا’’ایران جوہری ہتھیار بنانے کے مرحلے تک نہیں پہنچ پایا‘‘۔ یہ درست ہے کہ خود عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ذمہ داران کے پچھلے ہفتہ بھر کے بیانات اور جوہری توانائی ایجنسی میں 3 کے مقابلہ میں 19 ووٹوں سے ا یران کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد اسرائیل کی سہولت کاری کے زمرے میں آتی ہیں۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی پر ہی یہ الزام ہے کہ اس نے ایران کی جوہری تنصیبات اور سائنسدانوں کی فہرست اسرائیل کو فراہم کی۔
یہ الزام ایران پر اسرائیلی حملے سے دو دن قبل سامنے آیا تھا جس کے بعد ایجنسی کا وہ ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں ایران کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد گو اسرائیل کے حامی ممالک نے پیش کی مگر اس کی بنیاد اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان پر رکھی گئی تھی کہ ’’ایران 15 جوہری ہتھیار بنانے کی پوزیشن میں ہے‘‘ ستم یہ ہوا کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے انسپکٹروں نے اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملائی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جوہری توانائی ایجنسی اور قرارداد منظور کرنے والے 19 ممالک نے اسرائیل کو ایران پرحملہ کرنے کا اجازت نامہ تھمادیا تھا۔
   مذکورہ تحریر: ایران پر اسرائیلی حملے اور ’’آئی اے ای اے‘‘ کا سازشی کردار

یہ بھی پڑھئے:  کراچی کو مزید کرچی کرچی کرنے سے اجتناب کیجئے حضور!

ایران پر امریکہ کے براہ راست حملے کے بعد میدان جنگ کا نقشہ بدل گیا اب ایک جانب امریکہ اور اسرائیل ہیں اور دوسری جانب ایران۔ کیا اسرائیل کے وہ پڑوسی ممالک اس جنگ میں اسرائیل کے اتحادی قرار نہیں پائیں گے جنہوں نے اسرائیل پر ایرانی حملے روکنے اور اسرائیل کو ایران پر حملے کرنے کے لئے تعاون فراہم کیا؟ ایران پر امریکی حملے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے روایتی تعصب اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو الزام تراشی کی وہ محض الزام تراشی ہے یا اس میں کچھ حقیقت بھی ہے؟پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارتی میڈیا کے الزامات کو بیمار ذہنوں کی کارستانی قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی ایک بڑا طبقہ تو بھارتی الزامات کا ہمنوا ہے۔  اس کے خیال میں پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے حالیہ دورہ امریکہ اور ٹرمپ سے لنچ پر ہوئی ملاقات کی کہانی وہ نہیں جو ظاہر کی گئی بلکہ اصل کہانی یہ ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو ایران پر حملے کے لئے خاموش تائید فراہم کردی۔ کیا یہ واقعتاً درست ہے؟
   مذکورہ تحریر:
ٹرمپ فیلڈ مارشل ملاقات اور سازشی تھیوریوں کے ’’دہی بھلے‘‘

ہماری دانست میں اس الزام کو اب بھی آرمی چیف عاصم منیر کے اس موقف کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ ایران میں رجیم چینج یا اس پر امریکی حملے کی صورت میں خطے میں بدامنی کی بڑی لہر آئے گی۔ سرحد دہشت گردوں سے غیرمحفوظ ہوگی۔ ایک گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ ’’اگر امریکہ میدان جنگ میں کودا اور مرضی کے نتائج کے حصول پر بضد رہا تو صرف ایران متاثر نہیں ہوگا بلکہ پاکستان، ترکی، شام ، عراق بھی متاثر ہوں گے‘‘۔  میری اب بھی یہی رائے ہے کہ کسی ملک کا جغرافیہ توڑنے کے لئے عملی اقدامات کے بھیانک نتائج کا پورے خطے کو سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ تجزیوں کی عمارت سامنے موجود شواہد اور دستیاب معلومات پر اٹھائی جاتی ہے۔ تجزیہ نگاروں پر وحی اترتی ہے نہ ہی وہ دلوں کا بھید جانتے ہیں۔  اس لئے یہ پھبتی بلاوجہ ہے کہ آپ کا جھکاؤ فلاں طرف تھا۔

یہ بھی پڑھئے:  پاک امریکہ تعلقات کا نیا موڑ | حیدر جاوید سید

سوال یہ ہے کہ کیا گزشتہ سے پیوستہ روز خود ٹرمپ نے ایران پر امریکی حملے کی تردید نہیں کی اور یہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے نہیں کہا تھا کہ ” امریکی نمائندے کا ایران کے وزیرخارجہ سے رابطہ ہوا ہے جنگ کے متعلق ٹرمپ دو ہفتوں میں فیصلہ کریں گے۔ ایران سے مذاکرات کے اب بھی امکانات ہیں ” ۔ ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے یہ بیانات نہ تو کسی کی ذہنی اختراع ہیں اور نہ ہی یہ کہنا درست ہوگا کہ ان بیانات پر کیا جانے والا تجزیہ کسی جانب کھلے جھکاؤکی نشاندہی کرتا ہے۔ اتوار کی شب کے آخری حصے (ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب) میں امریکہ کا ایران میں فرود، نتانز اور اصفہان کے جوہری مراکز پرحملہ ہفتہ کی شام تک کی صورتحال کے یکسر برعکس ہی نہیں بلکہ یہ جوہری توانائی کے عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔امریکہ اور اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اسرائیل کی داخلی سلامتی کے خلاف قرارد یتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ایران جوہری توانائی کے عالمی معاہدے میں شریک ہے ۔جبکہ اسرائیل نہ تو کسی عالمی معاہدے کا حصہ ہے نہ ہی اس نے جوہری توانائی کے انسپکٹروں کو اپنے جوہری مقامات کے معائنہ کی کبھی اجازت دی۔

کیا اندریں حالات یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ مہذب دنیا کے خودساختہ لیڈران (بڑے ترقی یافتہ ممالک) دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اسرائیل کی غیراعلانیہ جوہری طاقت پر تو ایک لفظ نہیں بولتے۔ ماضی میں اسرائیل کی جانب سے عراق، شام اور لبنان میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کرتے رہے، لیکن ایران کے معاملے میں ان کاموقف یکطرفہ ہی نہیں بلکہ سامراجی رویوں کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  ضیاء دور کے قصے اور لطیفے - تین جماعتوں کی کہانی (قسط:7)

اپنے تین جوہری مراکز پر امریکی حملے کے کچھ دیر بعد ایران نے اسرائیل پر میزائلوں سے ایک اور حملہ کر کے اس تاثر کو زائل کردیا کہ امریکی حملوں نے فیصلہ سازی کی بنیادیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب اسرائیل نواز ممالک کو اپنے جانبدارانہ طرز عمل کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ ایرانی حکام کے اس بیان سے کیا یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ نہ صرف جنگ کا دائرہ وسیع ہوگا بلکہ دنیا ایک نئی کساد بازاری کا سامنا کرے گی؟ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ جو روس چین ترکی اور پاکستان پر مشتمل نئے عالمی بلاک کا ’’شور‘‘ تھا وہ بلاک کیا ہوا؟ اسرائیل کے ایران پر حملوں کے آغاز سے اب تک اور اب گزشتہ روز امریکہ کے ایران پرحملوں کے بعد کیا یہ واضح نہیں ہوگیاکہ اس بار بھی دنیا کو شام میں رجیم چینج کے دنوں کی طرح والی ’’رونقیں‘‘ دیکھنے کو ملیں گی۔ یعنی ایک طرف سے کامل جارحیت اور دوسری جانب سے صرف مذمتی بیانات۔

بہرحال یہ امر حقیقت ہے کہ ایران کے تین جوہری مراکز پر امریکہ کے حملے سے اسرائیل ایران جنگ کے میدان میں امریکہ کے براہ راست اترنے سے جو حالات بننے جارہے ہیں وہ امریکہ کی توقع کے مطابق نہیں ہوں گے ۔ آنے والے دنوں میں ایران کے پڑوسی ممالک کی پالیسی واضح ہوجائے گی۔  صرف یہی نہیں بلکہ ایران کیا جوابی اقدامات کرتا ہے یہ بھی دوچند ہوجائے گا۔ ایران آبنائے ہرمز بند کرنے پر اکتفا کرتا ہے یا اسرائیل اور امریکہ کے سہولتکاروں کے ساتھ ” معاملہ ” کرتا ہے اس کے جواب کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

Views All Time
Views All Time
47
Views Today
Views Today
7

حالیہ بلاگ پوسٹس