عین اس موقع پر جب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ رہی تھی بلکہ مفاہمت اور تعاون کے راستے مسدود ہو رہے تھے امریکا کا اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچ رہا تھا۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پریس کانفرنس کی اور دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں تعلقات کی نوعیت خصوصاً امریکی سیاسی کردار پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا
امریکا مطلب پرست دوست ہے ضرورت ہو تو آ جاتا ہے۔ بھارت سے بڑھتی قربت پر تشویش ہے 15 سال میں خود افغاستان کو پرامن نہیں کر سکا ہم سے فوری توقع کیوں؟ امریکی وفد سے کھل کر بات ہو گی۔
چین کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنرشپ کا قیام موجودہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا بھارت کے ساتھ تعلقات آگے نہیں بڑھ سکتے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھائیں گے، بھارتی دفاعی اخراجات پر تشویش ہے۔
انھوں نے کہا۔۔۔ امریکا مطلب پرست دوست ہے ہماری سکیورٹی کو اہمیت نہیں دیتا ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس آتا ہے کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں مطلب نہ ہو تو امریکا کا رویہ بدل جاتا ہے اس کے ساتھ تعلقات غور طلب ہیں۔۔۔انھوں نے کہا
نیوکلیئر سپلائر گروپ میں رکنیت کے لیے مؤثر سفارتکاری جاری ہے
وسط ایشیا، امریکا سے تعلقات اور روس سے معاشی تعلقات بھی خارجہ پالیسی کے راہنما اصول ہیں۔
جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے بھارت سے تعلقات اس وقت ٹھیک ہوں گے جب جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام ہو گا۔
دریں اثنا ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ۔۔۔ امریکا کے عالمی اینڈے پر ہندوستان زیادہ فٹ بیٹھتا ہے اس لیے وہ ہندوستان سے اپنے تعلقات زیادہ بہتر کر رہا ہے پاکستان نے امریکا کے ساتھ تعلقات میں تنزلی کو 2013میں بحال کر لیا تھا۔
ہمارا تاریخی المیہ ہے کہ برصغیر یا پھر ہندوستان کی آزادی نے عوام کو اجتماعی فکری غلامی سے نکال کر دشمنی کی آگ میں دھکیل دیا دونوں بڑے ممالک ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے کر دیے گئے دونوں طرف کے حکمران طبقوں نے نئی دنیا اور نئے حقائق میں پیش رفت نہیں کی بلکہ ماضی کے حصاروں میں کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو زک پہنچانے کے سوا کچھ نہیں کیا اپنے وسائل کو عوام کی بہتری اور فلاح کی راہ سجھانے کے بجاے محاذ آرائی اور انھیں جنگوں کے خوف میں مبتلا کر کے تمام وسائل کو اس آگ میں جھونکے رکھا۔ خصوصاً پاکستان میں یہ خوف اجتماعی قومی پالیسی کا حصہ بنا رہا۔ اسی میں حکمران طبقوں نے اپنی عافیت سمجھی۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بھارت کے حکمران طبقوں اور پالیسی ساز طبقوں نے مقابلتاً مسقبل بینی کا بہتر مظاہرہ کیا اور جنگی جنون کے ساتھ صنعتی ترقی کو بھی معاشی ترقی اور جمہوری عمل کو معاشرتی ارتقا میں لازم عنصر کے طور پر موجود رکھا۔ جس کا علاقائی سیاسی، دفاعی، معاشی اور معاشرتی منظر نامے میں واضح اظہار موجود ہے اور اس کی طرف عالمی جھکاؤ بھی نظر آتا ہے۔ اور ہمیں بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے۔ جو ہمارے لیے محض طفیلی ہے، لیکن ہم اپنی سیاسی، علاقائی، تہذیبی اور تاریخی اناؤں کے ساتھ زندہ رہنے کے خواہشمند ہیں۔ چنانچہ اگر اس تناظر میں پاک امریکا تعلقات کو دیکھیں اور پھر مشیر خارجہ کی پریس کانفرنس کا جائزہ لیں تو بہت سے ماضی اور حال سے جڑے ہوئے مناظر بھی واضح نظر آتے ہیں اور ان میں مستقبل کی سمت بھی اپنی نشاندہی کرتی ہے۔ پاکستان کے وہ مقتدر طبقے جو ستر سال تک امریکی ترجیحات و مقاصد کی تکمیل کا بنیادی علاقائی مرکز رہے ہیں اب نئی معاشی، اقتصادی اور دفاعی صورت حالات میں نئے ادراک میں آگے بڑھنا چاہے ہیں۔۔۔ اسے بھی تاریخ کا جبر کہا جا سکتا ہے کہ جب عوام حکمران طبقوں کو اپنا راستہ سیدھا رکھنے کے لیے دباو ڈالتے تھے تو انھوں نے عوام کو گمراہ بھی قرار دیا اور انھیں اپنی مخصوص راہوں کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی آج کا معاشی اور معاشرتی منظرنامہ اسی بے سمتی کا ہی نتیجہ ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ آج اگر سمت کی تبدیلی میں آخری پناہ گاہ کے امکانات دکھائی دیتے ہیں تو ہم رکاب اور ہم نوا بھی وہ معاشرتی قوتیں ہیں جو مفادات کے نقاب اوڑھے ہوئے ہیں ان کے پاس کومٹمینٹ ہے نہ نظریاتی اساس۔۔۔ وہ ہر عہد میں نیا چہرہ سجا کر عوام اور سماج کے نمائندہ بن کر آتے رہے ہیں۔ اس اجتماعی تاثر میں اگر ذرا گہرائی میں دیکھا جائے تو واضح طور پر یہی نظر آتا ہے ہمارے حکمران طبقے تنہا ہو چکے ہیں انھیں صرف مفاد پرستی کی حمایت حاصل ہے جو کسی بھی جنگ میں موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر تبدیل کر سکتی ہے اس کے باوجود یہ ہمارے حکمران طبقوں کی خوش قسمتی ہے کہ عوام کی اکثریت جو انہی کے استحصال کا شکار رہی ہے وہ تبدیلی کی امید میں سرابوں کی طرف دوڑ رہی ہے حالانکہ یہ عوام کو گمراہ رکھنے کی ایک اور پس پردہ کوشش ہے حالانکہ تاریخ کا یہ وہ موڑ ہے کہ جہاں عوام کو وقت اور حالات کے جبر سے ابھرنے والے نئے امکانات سے آگاہ بھی کیا جائے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں نئے سفر میں اپنا ہمنوا بھی بنایا جائے۔ لیکن ایک اور بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ عوام کے سیاسی شعور پر کبھی اعتماد نہیں کیا۔ عوام اور ریاست کے درمیان ایک فاصلہ رکھا گیا ہے اس تناظر میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اب جب کہ حکمران طبقوں کی پالیسیوں اور ماضی پرستی نے ریاست کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں تو عوام کی اہمیت کا احساس نمایاں ہو رہا ہے۔ مگر افسوس پچھلے پچاس سال میں جنہیں عوام کا نمائندہ بنایا گیا تھا وہی ریاست کے دشمن مگر سیاسی اور ذاتی مفادات کے محافظ بن کر سامنے آئے اور انھوں نے معاشرتی رویوں اور اجتماعی سوچ کو بھی متاثر کیا ہے۔ لہٰذا ریاست اور عوام اگر متضاد نظر آتے ہیں تو یہ فطری عمل ہے یہ تو ہونا ہی تھا۔
بہ ہر حال۔۔۔ دوستو بات ذرا دور نکل گئی حقائق کی نشاندہی بھی تو لازم تھی۔ بات تو آج اور کل کی ہو رہی تھی ایک زمانہ تھا جب ہمیں بتایا گیا تھا کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اگر افغانستان پر مستقل قابض ہو گیا تو وہ ریاست پاکستان کو بھی نگل جائے گا اور ہم مسلمان جنہوں نے بڑی مشکل سے انگریزوں اور ہندوؤں کے معاشی اور معاشرتی جبر سے آزادی حاصل کی تھی۔ ہم آزادی سے محروم ہو جائیں گے اور ہم نئی غلامی میں جکڑے جائیں گے۔ لہٰذا سوویت یونین کے خلاف بلکہ کیمونزم اور سیکولرازم یا پھر کفر اور دہریت کے خلاف جہاد لازم ہے یہی و زماہ تھا جب یہود و نصاریٰ کی ترکیب کے بجاے یہود و ہنود کی اصطلاح سامنے لائی گئی تھی۔ کیوں کہ اس وقت سوویت یونین کے بالمقابل امریکی اور یورپی عیسائیوں کے اتحادی تھے۔۔۔ اور ان کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے جہاد کر رہے تھے اب دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پرانے اتحادی جو وسطی ایشیا کی سوویت یونین سے آزاد ہونے والی ریاستوں کے وسائل اور افغانستان پر عملی قبضہ کر چکے ہیں، وہ گرم پانیوں تک آنے کے خواہشمند ہیں اور انھوں نے نہ صرف ماضی کی وابستگی کو نظرانداز کردیا ہے ہماری قربانیوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ ہمارے دشمنوں کا اتحادی بھی بن گئے ہیں بلکہ مفادات کی اس دنیا میں ہمارے معاشی مسائل کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ نقصانات کا ازالہ بھی نہیں کیا جا رہا۔ تو ہمارا بھی یہ حق ہے کہ ہم اپنے ماضی کے تعلقات پر نظرثانی کریں اور نئے امکانات تلاش کریں جس سے ہمیں معاشی، سیاسی اور علاقائی تحفظ بھی حاصل ہو۔ اسی تناظر میں ہر نئی صورتِ حالات کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ یہ ولگ بات کہ کچھ لوگ گوادر پورٹ کی معاشی اور دفاعی اہمیت و حیثیت کو بھی گرم پانیوں تک رسائی کے ماضی میں دیکھتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کل کوئی اور خواہشمند تھا تو آج یہ کسی اور کی اولین ضرورت ہے۔ اور یہ وہ قوت ہے جو نئی اقتصادی طاقت بن کر پوری سرمایہ داری دنیا کے غلبہ کے سامنے تیزی سے ایک چیلنج بن کر سامنے آ رہی ہے اور وہ نئے سیاسی عالمی اور اقتصادی کردار کی نشاندہی بھی کر چکی ہے۔۔۔ یہاں ایک جملہء معترضہ بھی ہے کہ وہ ہمارے نظریہ فروش جو کمیونزم اور سیکولرازم سوشلزم کو کفر قرار دیتے اور اس کے خلاف جہاد کو لازم کہتے تھے وہ کہاں ہیں؟ اور انھیں اب جہاد کیوں نظر نہیں آتا؟ چین میں معاشرتی اور معاشی نظام کیمونزم، سوشلزم اور سکیولرزم ہے جب کہ وہاں بدھ ازم، تاؤ ازم اور کنفیوشس ازم بھی موجود ہے جو کفر ہے۔ وہ اگر ہمارے راستوں سے گرم پانیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تو کیا اس کے اثرات ان راستو ں پر بننے والی آبادیوں اور بستیوں پر نہیں ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات میں تبدیلی کے امکانات واضح ہو رہے ہیں تو نظریہ فروشوں کے لیے بھی خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہیں بلکہ اب ان کی نظریاتی سمت بھی تبدیل ہو گئی ہے اب وہ افغانستان میں طالبان کی امریکی اور یورپی اتحاد کے غلبہ کے خلاف سرگرمیوں کو جہاد قرار دے کر اپنے ماضی کے کردار پر نقاب ڈال رہے ہیں یہی وقت کا تقاضا ہے چنانچہ ہمارے نظریہ فروشوں سے کچھ بھی عبث نہیں۔ پس یہی کافی ہے کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn