Qalamkar Website Header Image

اس پرچم کے سائے تلے

ابھی قلم کار کے آرٹیکلز پبلش کرتے ہوئے کام کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر پر ملی نغمے لگائےہوئے ہیں کہ "جشنِ آزادی” ہے آج۔ اچانک سے نیرہ نور کے مشہور ملی نغمے نے میری توجہ کام سے ہٹا دی اور مجھے ماضی میں لے گیا۔ بچپن میں سکول جاتے تھے تو بہت کم جیب خرچ ملا کرتا تھا۔ اگست شروع ہوتے ہی وہ جیب خرچ ہمیں مزید کم لگنا شروع ہو جاتا جب روزانہ کی بنیاد سکول سے واپسی پر بازاروں میں لگے سٹالوں سے چودہ اگست والے دن گھر کو سرسبز جھنڈیوں سے سجانے کے لئے جھنڈیاں خریدنا ایک لازمی کام ہوتا تھا۔ سکول میں بریک ٹائم میں پیسے بچا بچا کر رکھتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ سکول میں کچھ بھی نہ کھاتے اور سارے کے سارے جیب خرچ سے واپسی پر جھنڈیاں خریدتے۔

سب دوستوں کا اپنے گھروں اور محلے کو سجانے کے لئے ایک عجیب سا جذبہ ہوتا تھا۔ شام کو ساری جھنڈیاں ایک دھاگہ تان کر اس میں پروتے۔ یہاں تک کہ اگر گوند ختم ہو جاتی ( جو کہ اکثر ختم ہی رہتی تھی) تو آٹے میں تھوڑا سا پانی ڈالتے اور اس سے گوند کا کام لیتے۔ دھاگے پر جھنڈیاں پرو کر اسے سکھا کر ترتیب سے رکھتے جاتے کہ تیرہ اگست کی رات کو گھر کو سجائیں گے۔ تیرہ اگست مغرب کے بعد سارے دوست اسی کام میں جت جاتے۔ مل جل کر سب کے گھروں میں جھنڈیاں لگاتے اور اگلی صبح پورے کا پورا محلہ سبز جھنڈیوں سے سجا ہوتا۔ پھر پرائمری سکول سے ہائی سکول میں چلے گئے۔ وہاں ہر سال چودہ اگست کو جشنِ آزادی کی تقریب ہوتی۔ جس میں بچپن کی گھروں کو سجانے والی روٹین میں ایک اضافہ سکول کے دوستوں کے ساتھ مل کر سکول کی تقریب میں ملی نغمے گانےکا بھی ہو گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  امن اور ترقی۔ بذریعہ ادبِ اطفال

سارے مشہور ملی نغمے ہمیں زبانی یاد ہوتے اور سکول کی مختلف تقریبات میں اسے پڑھنا ہماری ڈیوٹی ہوتا۔ اک عجب خوشی کا سماں ہوتا۔ گھر سجا کر سکول جاتے تو سکول بھی سبر جھنڈیوں سے سجا ہوتا اور ہر بچے کے چہرے پر عید کی خوشیوں کا سماں ہوتا۔میری آنکھوں میں آج بھی وہ منظر گھومتے ہیں جب میں اپنے کلاس فیلوز علی عثمان، ارسلان خان، ارسلان عامر، ساجداور چند دیگر کے ساتھ مل کر ملی نغمے پڑھا کرتا تھا۔عمران علی کاظمی بھائی کی کمپئرینگ اور ان کے ملی نغمے اور کلامِ اقبال اب بھی سنائی دیتے ہیں۔ ریحان اختر بھائی کمپئیرنگ کرتے تھے۔ پھر عقیل ظفر کی کمپئیرنگ بھی یاد ہے۔ وقت آگے بڑھتا گیا اور مشکل ہوتی پڑھائیوں میں یہ بچپن کھوتے گئے۔ اور اب جشنِ آزادی کے انداز بھی بدل گئے۔

بچپن کے حالات کے ساتھ ہمارے معاشرے کے حالات بھی بدلتے گئے۔ ابھی ملی نغمہ سنتے ہوئے جب نیرہ نور نے کہا کہ
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں

تو ذہن عجیب سی الجھن کا شکار ہو گیا۔ مجھے لگنے لگا کہ شائد نیرہ نور کا یہ ملی نغمہ اسی وقت کے لئے تھا جب ہم چھوٹے تھے۔ بچپن میں آزادی کے دن کے موقع پر ہمیں یہی لگتا کہ ساری قوم ایک ہی ہے لیکن اب کے حالات دیکھ کر اس ملی نغمے کے یہ الفاظ مجھے جھوٹ لگے۔ اب شائد اس ملی نغمے کے الفاظ بدل دینے چاہییں۔ یہاں قوم ایک تو چھوڑ دو بھی نہیں بلکہ انگنت حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یہاں قوم کسی بھی واقعے پر اب ایک نہیں رہتی۔ کوئی بندہ کسی واقعہ کے بعد دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس سانحے میں مرنے والا میرےمسلک کا تھا بھی کہ نہیں؟ اگر ظالم اپنے فرقے کا ہے تو وہ ظالم نہیں حق کے لئے لڑ رہا ہے۔ ہر بندہ کسی بھی سانحہ کے بعد ہندو، عیسائی، احمدی، شیعہ ، سنی ، دیوبندی، وہابی کی نظر سے سانحے کو دیکھتا ہے۔ مذمت کرتے ہوئے بھی اگر مگر چونکہ نامی منافقت اوڑھتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  فلسطینی تحریک مزاحمت کل اور آج

ہمارے معاشرے سےمل جل کر رہنے والی اقدار تقریباََ ختم ہو گئی ہیں۔ پہلے محلے میں سب مل جل کر رہتے تھے تو اب یہ حالات ہیں کہ ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔ پہلے سارا محلہ ، سارا علاقہ ایک خاندان کا سا سماں پیدا کرتا تھا لیکن اب محلے میں کسی کے گھر ہونے والے واقعہ کا پتہ تک نہیں چلتا۔ ہر ایک کی اپنی اپنی خوشیاں ہیں اور غم میں بھی اکثر اکیلا ہی ہوتا ہے۔ تو ایسے میں مجھے یہی محسوس ہوا کہ نیرہ نور جھوٹ بول رہی ہیں کہ
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں

حالیہ بلاگ پوسٹس