Qalamkar Website Header Image

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا – امِ رباب

Umme Rubabدل بہت اداس ہے، بہت دکھی ہے، ان والدین کے لئے، ان بہنوں کے لئے،ان بھائیوں اور خاندانوں کے لئے جو اپنے پیاروں کو ہمیشہ کے لئے مٹی میں سلا آئے ہیں۔جو قیامت ان پر بیت گئی ، بیت رہی ہو گی اور بقیہ زندگی بھی کسی قیامت سے کم نہ ہو گی،اس کا ہم تصور ہی کر سکتے ہیں یا شاید وہ بھی نہیں۔ہماری قوم کے مقدر میں خوشیاں نہیں ہیں؟شاید خوشیاں ہم سے روٹھ گئی ہیں،نہ ہی ہماری قسمت میں امن و سکون رہ گیا ہے۔ایک ہم ہیں کہ ہمارازیادہ تر وقت بیکار کی باتوں میں ضائع ہوتا ہے۔ہم نان ایشوز کو ایشوز بناکر ان پر کئی کئی دن بحث میں الجھے رہتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور معاملات کو طول دے کر ان پر اپنی توانائی صرف کرتے رہتے ہیں۔
اصولاً ہونا تو یوں چاہئیے کہ کسی بھی موضوع پر اگر سیر حاصل اور قابل قبول حد تک گفتگو ہو چکی ہو تو اس موضوع کو ختم یا بند کر دیا جائے مگر شاید ہمارے پاس کرنے کو کوئی کام بھی تو نہیں ہے، لہذا بحث و مباحثہ کو ہی کام سمجھتے ہیں۔ صحافت اور سوشل میڈیا کی دنیا میں چورن، منجن اور ٹرک کی بتی جیسے الفاظ یا اصطلاحات بہت عام ہو گئی ہیں اور ہمارا یہی بحث مباحثہ ہی دراصل چورن، منجن اور ٹرک کی بتی ہیں۔
اب اس بیچ کوئی درد مند دل رکھنے والا، قوم کے مظلوموں کا دکھ سمجھنے والاہمیں چلا چلا کر لاکھ کہے کہ اللہ کے بندو، کوئی گم شدہ افراد پر ہی کچھ بولو،چار ہزارہ عورتوں کو شناخت کر کے قتل کر دیا جاتا ہے اس پر کچھ کہہ دو، کہیں نہتے عوام پرظلم ڈھایا جا رہا ہے اس کا جھوٹے منہ ہی ذکر کر دو۔مگر نہیں، ہم تو زنجیر زنی، ماتم، بیکن ہاؤس ، چائے والے اور تھپڑ کے اہم ترین ایشوز پر اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں کسی اور بات سے کوئی غرض ہی نہیں۔فیس بک یا کوئی بھی دوسرا سوشل میڈیم استعمال کرنے والا ہر فرد اس میں شامل ہے۔
ہماری بے حسی کا تو یہ عالم ہے کہ کسی دھماکے کے نتیجے میں برپا ہونے والے قتل عام پر سب سے پہلے مرنے والوں کی تعداداور پھر شناخت معلوم کرتے ہیں،اظہار افسوس کا وقت تو ان کی شناخت کے بعد ہی آتا ہے۔اس موضوع پر اگر کسی سے آمنے سامنے بات کرنے کی نوبت آجائے تو اکثر یہی جواب ملتا ہے کہ بھئی ہمیں اپنی جان پیاری ہے۔بات ایک طرح سے صحیح بھی ہے جس قوم کے لوگ سر پہ کفن باندھے ہمہ وقت جان ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہوں ،وہاں شاید ان کی بے حسی جائز بھی ہے اور اس کا کوئی جواز بھی بنتا ہے۔
حکومت مذمتی اور تعزیتی بیان دے کر اپنا فرض پورا کر رہی ہے، لکھنے والے لکھ کر اپنا فرض نبھا رہے ہیں، عوام غم و غصہ کا اظہار کر کے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، مگر کب تک؟ اب پانی سر سے اونچا ہوا جا رہا ہے،شاید ہمیں اب عملی طور پر باہر آنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر لکھی جانے والی تحریر، تحریر اسکوائر نہیں بن سکتی اور نہ ہی ان سے کوئی انقلاب برپا ہو گا۔ جب تک ہم سنجیدہ نہیں ہوں گے،باہر آکر اپنا وجود نہیں منوائیں گے، حکمرانوں کو اپنے وجود کا احساس نہیں دلائیں گے،اپنی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں کا مطالبہ نہیں کریں گے، حکمرانوں کی کرپشن اور زیادتیوں کی نشان دہی نہیں کریں گے، اسی طرح ظلم ہوتا رہے گااور ہم سہتے رہیں گے اور مرتے رہیں گے اور روز بروز اسی طرح بے حس ہوتے چلے جائیں گے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس