Qalamkar Website Header Image

یہ چھاؤں دیں گے تمہیں جب گھنے شجر ہوں گے – ام رباب

ملازمت پیشہ افراد کی زندگی میں گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ فرائض بھی شامل ہوتے ہیں اور ان ذمہ داریوں اور فرائض میں وقت کے مطابق کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔اپنے عہدے پر ترقی ہوئی تو ذمہ داریوں میں اضافہ بھی ہواجن میں ایک اضافی ذمہ داری اپنے یونٹ کا بجٹ بنانا بھی تھی۔چوں کہ اس سے پہلے کبھی بجٹ بنایا نہیں تھا تو ابتدا میں تھوڑی پریشانی لاحق ہوئی مگر گذشتہ چند برسوں کے بجٹ اور فائلوں کی مدد سے آئندہ سال کا بجٹ تیار کیا۔سوچا باس کے سامنے پیش کرنے سے پہلے اپنے ایک ایسے کولیگ سے مدد لے لوں جو اس نوعیت کی ذمہ داریوں کے ایکسپرٹ تھے۔ انہیں دکھایا تو انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے صرف دو تین معمولی سی تبدیلیاں کرنے کا مشورہ دیا۔
ایک روز لنچ بریک میں میرے وہی کولیگ کہنے لگے ،آپ سے ایک بات پوچھوں آپ میرا مذاق تو نہیں اڑائیں گی؟ میں نے کہا ہر گز نہیں۔پھر انہوں نے ایک بہت ہی آسان سے شعر کا مطلب بہت شرمندہ سے انداز میں مجھ سے پوچھا۔میں نے شعر کی تشریح کی تو بولے” اچھا یہ اتنا آسان تھا۔واقعی؟ دراصل مجھے شاعری بالکل سمجھ میں نہیں آتی،سر پر سے گزر جاتی ہے”۔اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ جب میں نے آپ سے بجٹ میں مدد لی تھی تو کیا آپ نے میرا مذاق اڑایا تھا؟تو کہنے لگے کہ وہ تو ایک” ٹیکنیکل” چیز تھی۔میں نے کہا دیکھئیے جو چیز میرے لئے مشکل ہے یا جو بات آپ سمجھ نہیں پاتے وہی دراصل ہمارے لئے "ٹٰٰیکنیکل” ہے۔
اس کی مثال میں آپ کو یوں دے سکتی ہوں کہ ایک کتابوں کی دکان میں بیک وقت چند خواتین و حضرات موجود ہیں وہ سب دکان میں اپنی پسند کے موضوع اور اپنے میلان کے شعبے کی کتابوں کے سیکشن میں ہی جائیں گے یعنی سائنس، آرٹ، موسیقی، فلسفہ، مصوری،فزکس، کیمسٹری، نفسیات ، کمپیوٹر سائنس اور کھانا پکانے کی تراکیب یا کشیدہ کاری کے رسالے،ہر شخص کی الگ پسند اور الگ رجحان و میلان ہو گا۔یہی چیز ہم روز مرہ زندگی اپنے بچوں کے معاملے میں سمجھ نہیں پاتے اور اپنے بچوں کو زبردستی اپنی مرضی پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور تعلیمی میدان میں انہیں ان کی دل چسپی ، رجحان اور پسندیدہ مضمون کے انتخاب کا حق نہیں دیتے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک بچہ جب اس دنیا میں تشریف لاتا ہے تو والدین پہلے دن سے ہی اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کا تہیہ بلکہ عہد کر لیتے ہیں اور شروع سے ہی یہ بات اس کے ننھے سے ذہن میں ٹھونسنے کی کوشش فرماتے رہتے ہیں۔یقین مانئے اس دور میں بھی ایسے والدین موجود ہیں۔
ہونا تو یوں چاہئیے کہ بچہ جب تک پرائمری اسکول کے مرحلے سے نہ گذر جائے اس وقت تک اس پر اپنی سوچ مسلط نہ کی جائے۔باہر کے ممالک میں ابتدا سے ہی کسی خاص مضمون میں بچے کی دل چسپی ،میلان اوررجحان دیکھ کر اسے اس مضمون کے انتخاب میں مدد اور پڑھائی میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں والدین بچے کا میلان جاننے کے باوجود اسے وہی بنانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں جو انہوں نے پہلے دن سے سوچ رکھا ہوتا ہے۔اب اس ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ہر موضوع اور ہر مضمون کی کئی کئی شاخیں ہیں، بچہ جس میں دل چسپی رکھتا ہو اسے اس مضمون کے انتخاب کی بھر پور آزادی میسر ہونی چاہئے۔ممکن ہے بچہ وہ سب پڑھنے میں یا ڈاکٹر ،انجینئر بننے میں ہر گز دل چسپی نہ رکھتا ہو بلکہ اس کے بجا ئے وہ ایک اچھا کھلاڑی، گلوکار یا مصور بننا چاہتا ہو یا سائنس کے کسی اور شعبے کی طرف جانا چاہتا ہو ، مگر چوں کہ آپ کے ذہن میں پڑھائی کا تصور صرف ڈاکٹر اور انجینئر ہے لہذا آپ اس بے چارے کی ایک نہیں سنتے۔
اس سب پر مزید ستم تو یہ ہوتا ہے کہ اس بچے کا تقابل دوسروں سے کیا جاتا ہے۔جس میں والدین اور اساتذہ دونوں شامل ہوتے ہیں۔اگر ایک ہی اسکول میں دو تین بہن بھائی پڑھ رہے ہیں تو اکثر اساتذہ بھی یہ مقابلہ بازی کرتے نظر آتے ہیں کہ تمہاری بڑی بہن یا بھائی تو پڑھائی میں یا فلاں مضمون میں اتنے اچھے ہیں، تم کیوں نہیں ہو؟یہ سوال یا مقابلہ بچوں سے اس عمر میں کیا جاتا ہے جس عمر میں بچہ اپنی بات سمجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا،یوں اس کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔
اس موازنے اور مقابلے میں کچھ والدین بھی شریک ہوتے ہیں کہ فلاں بچہ یا فلاں کا بچہ تو پڑھائی میں اتنا اچھا ہے، اتنے مارکس لیتا ہے۔ تمہارے اتنے مارکس کیوں نہیں آتے؟یہ سوچے اور جانے بغیر کہ ممکن ہے اس بچے کو اس مضمون یا مضامین میں دل چسپی ہی نہ ہو۔یہ ساری بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کو ان کی دل چسپی کے سبجیکٹ اور مضمون کے انتخاب کا حق دیجیئے تاکہ وہ اپنی تمام تر ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر کے ملک کے کارآمد شہری بن سکیں۔
ٓآخر میں ایک دل چسپ بات سنئے، اس بات کے کئی ماہ بعد مجھے میرے وہی کولیگ ایک روز کہنے لگے کہ آپ کی باتوں کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میرا بیٹا جو کالج میں کامرس لینا چاہتا تھا اور میں نے ضد باندھی ہوئی تھی کہ نہیں، تم سائنس ہی پڑھو گے اور انجینئر ہی بنو گے،میں نے اسے کامرس پڑھنے کی اجازت دے دی اور اپنی ضد سے دست بردار ہو گیا۔اب میرا بیٹا بہت خوش ہے۔میں نے ان سے کہا یہ نیکی آپ نے اپنے بیٹے کے ساتھ نہیں کی یہ نیکی دراصل آپ نے اپنے ساتھ اور اس ملک کے ساتھ کی ہے کہ اب آپ کا بیٹا اس ملک کا بہترین ، باشعور، مفید اور کارآمد شہری بنے گا۔نہ صرف یہ بلکہ یہ نیکی آپ اپنی بیٹی کے ساتھ بھی کیجئے گا کہ اسے اس کی مرضی کے مضمون کے انتخاب کا حق دیجئے گاکہ ایک لڑکی کی اچھی تعلیم ایک اچھی قوم کی بنیاد ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس