Qalamkar Website Header Image

اے کاش ہم اس ملک کے فن کار نہ ہوتے

آخر روحی بانو بھی ایک اذیت ناک زندگی گزار کر رخصت ہوئیں،ایسے کتنے ہی فن کار ہیں جو گم نامی، کسمپرسی اور بیماری جھیلتے جھیلتے آخر کار دنیا سے چلے گئے۔ماضی کی اداکارہ، آشا پوسلے، مینا شوری، نصرت آرا )عینک والا جن کی بل بتوڑی(،مزاحیہ اداکار لہری اور بھی نہ جانے کتنے فن کار جو ،یا تو اپنے آخری وقت میں بیماری سے لڑتے رہے یا کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے دنیا چھوڑ گئے۔،فن کار معاشرے کا ایک حساس فرد ہوتا ہے ۔فن کار تو اسی روز مر جاتا ہے جب معاشرہ اس کے فن کو بھلا دیتا ہے۔بہت کم خوش قسمت فن کار ہوتے ہیں جوایک طرح سے ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیںیا کم کر دیتے ہیں گویا وہ اپنی بھر پور زندگی گزار کر رضاکارانہ طور پرفیلڈ سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔لیکن یہ معاشرہ بہت ظالم اور بے حس ہے کہ جو بھی فن کار فیلڈ سے دور ہو جائے اسے بھلانے میں ذرا بھی وقت نہیں لگاتے۔ماضی کے کئی اداکار اور گلوکار ایسے ہیں جنہیں اب کوئی جانتا بھی نہیں۔وحید مراد جیسا عظیم اداکار بھی اسی غم کو لے کر دنیا سے چلا گیا۔


ہم بھی عجیب لوگ ہیں،فنون لطیفہ کی قدر ہم میں سے بمشکل ہی کسی کو ہے۔فنون لطیفہ کو ہم محض ایک لطیفہ ہی سمجھتے ہیں۔فن کاروں سے دوستی کرنا،ہاتھ ملانا اور ان کے ساتھ تصاویر کھنچوانا پسند تو کرتے ہیں مگر ان کی عزت کرنا نہیں چاہتے۔قدم قدم پر ان کی عزت نفس مجروح کرتے رہتے ہیں۔ کبھی انہیں میراثی اور کنجر جیسے القابات سے نوازتے ہیں ،کبھی مادام نور جہاں جیسی عظیم اور لیجنڈری گلوکارہ کو گھٹیا الفاظ سے یاد کرتے ہیں،کہیں میرا کی انگریزی کا مذاق ڑایا جا رہا ہوتا ہے،کہیں کسی گلوکارہ جو حاملہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہو کر گانا نہ گا سکنے کی پاداش میں بھری محفل میں گولی مار کر قتل کر دیا جاتا ہے جس میں اس کے نامولود بچے کا قتل بھی شامل ہے،کبھی قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر جان دینی پڑتی ہے،کہیں فن کاروں کے سچے جھوٹے اسکینڈلز کو مزید ہوا دی جاتی ہے اور کبھی انتہائی بے ہودہ اور غلیظ ریمارکس اور کمنٹس دئیے جا رہے ہوتے ہیں

یہ بھی پڑھئے:  مینگو پیپل-صبا کوثر


یہی سب لوگ انہی فن کاروں کی ایک جھلک دیکھنے اور اسکرین پر ان کی پرفارمنس دیکھنے کو مرے بھی جا رہے ہوتے ہیں۔ایک فن کار ہمیں تفریح مہیا کرنے کے لئے کتنی مشقت کرتا ہے اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔چوبیس گھنٹوں میں سے بیس بیس گھنٹے سیٹ پر گزارنا، ایک ٹیک کو کئی کئی بار ری ٹیک کروانا تاکہ ہم تک ڈرامے یا فلم کا سین حقیقت کی طرح پرفیکٹ انداز میں پہنچ سکے،اس مشقت کا ہمیں ادراک ہی نہیں ہو پاتا۔یہ سب محنت یہ فن کار ہمیں تفریح مہیا کرنے اور اپنا گھر چلانے کے لئے کرتے ہیں ان میں سے کچھ فن کار تو اپنی محنت کا معقول معاوضہ بھی نہیں پاتے۔لیکن اب بھی کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو فن کاروں کی قدر کرتے ہیں،انہیں عزت دیتے اورمعاشرے میں ان کا مقام پہچانتے ہیں فین کلب بناتے ہیں اور ان کے ساتھ پروگرام منعقد کرتے ہیں۔دنیا بھر میں اپنے فن کاروں کی عزت و تکریم میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی،اپنے پرانے اور لیجنڈری فن کاروں کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔

حکومتی سطح پر ایسے فن کاروں کی مکمل معلومات اور ان کی مدد کا معقول انتظام ہونا چاہیئے۔کچھ ادارے ہیں جو انہیں مالی امداد اور علاج معالجے کے لئے فنڈز مہیا کرتے ہیں مگر اس میں بھی اضافے کی گنجائش موجود ہے تاکہ وہ فن کار جنہیں آخری عمر میں بوجوہ کام نہیں ملتا یا بیماری کے سبب کام کرنے سے قاصر ہوں وہ بقیہ زندگی کسمپرسی میں نہ گزاریں۔ہم بحیثیت پرستار کم از کم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ جن فن کاروں کو ہم پسند کرتے ہیں ان کی عزت تو کریں،ان کا مذاق نہ اڑائیں ،ان کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔نہ جانے وہ خود کن تکالیف سے گزر کر ہمیں تفریح اور ذہنی سکون مہیا کرتے ہیں،انہیں یہ احساس دلائیں کہ ان کی زندگی بے معنی نہیں۔یہ دنیا ایک تماشا گاہ یے، ایک اسٹیج ہے۔ہم سبھی کا انجام ایک ہی ہے۔ پردہ گرتا ہے کھیل ختم ہو جاتا ہے،نئے کردار زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور دنیا رواں دواں رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  شارٹ کٹ

حالیہ بلاگ پوسٹس