Qalamkar Website Header Image

صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

ہم سبھی کے مشاہدے میں اکثر یہ بات ضرور آئی ہو گی کہ لو گ نمازوں میں ،بزرگوں کے مزاروں پراور اما م بارگاہوں میں جا کر رو رو کر گڑگڑا کر اللہ سے اولاد کی دعا مانگتے ہیں، منتیں مانتے ہیں، ہر ملنے والے سے دعا کرنے کو کہتے ہیں،اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔اولاد کی خواہش ایک جائز خواہش ہے۔ہر شادی شدہ شخص یہ ضرور چاہتا ہے کہ وہ اولاد کی نعمت سے سرفراز ہو۔

ہوتا یوں ہے کہ یہ سوچے سمجھے بغیرکہ نئے جوڑے کو چند دن ایک دوسرے کو سمجھنے اور آپس میں انڈر اسٹینڈنگ کے لئے کچھ وقت دیا جائے، شادی کے اگلے روز ہی ممکنہ "خوش خبری” کا انتظار کیا جانے لگتا ہے، دراصل یہ نئے نویلے جوڑے پر ایک طرح کا ذہنی دباؤ ہوتا ہے۔یہ دباؤ زیادہ تر غیر متعلقہ افراد کی طرف سے ہی ڈالا جاتا ہے ابتدا میں گھر والے اس دباؤ میں حصے دار نہیں ہوتے۔اچھا پھر چار چھے ماہ، سال بھر یا بات اس مدت سے بھی اوپر چلی جائے اور خوش خبری کے کوئی آثار نظر نہ آئیں تو چونکہ لڑکی ایک آسان ہدف ہوتی ہے،سارا پریشر اس پر ڈال دیا جاتا ہے اور پہلے دبے لفظوں میں ،پھر کھلم کھلا اسے بانجھ قرار دے دیا جاتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی کئی ٹیسٹ کرواتے ہیں جیسے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ۔ تھیلیسیمیا (Thalassemia)چونکہ خون کے سرطان کی ایک قسم ہے لہذا اس کا ٹیسٹ لازماً ہونا چاہئیے تاکہ جو بچے پیدا ہوں وہ اس بیماری سے محفوظ ہوں۔خیر اب تو تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ شادی سے پہلے کروا لینے کا شعور شہروں میں کافی حد تک آ گیا ہے۔اس کے علاوہ چونکہ ان ممالک کا لائف اسٹائل جدا ہے لہذا وہ شادی سے پہلے ایچ آئی وی (HIV)اور ایس ٹی ڈی (STD=Sexually Transmitted Diseases) کے ٹیسٹ بھی کرواتے ہیں۔یاد رہے کہ ایچ آئی وی یعنی ایڈز کا مرض محض جسمانی تعلقات کی بنا پر نہیں ہوتابلکہ کسی استعمال شدہ بلیڈ، چاقو،حجام کے استرے،استعمال شدہ سرنج یا کسی ایڈز سے متاثرہ شخص کے خون کی کسی اور کے جسم میں منتقلی بھی اس بیماری کا سبب بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ ان ممالک میں فرٹیلیٹی ٹیسٹ (Fertility Test)بھی شادی سے پہلے کروا لیا جاتا ہے۔

جب لڑکی پر پریشر بڑھتا ہے تو بہت سی لڑکیاں ،عورتیں جادو ٹونے کرنے والوں اور عامل بابا ٹائپ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور بہت نقصان اٹھاتی ہیں۔رفتہ رفتہ شوہر کو بھی یہی محسوس کروایا جانے لگتا ہے اور باور کروایا جاتا ہے کہ تمہاری بیوی بانجھ ہے اور اس پر دوسری شادی کے لئے بھی دباؤ ڈالا جانے لگتا ہے۔اور اکثر اس پریشر کے نتیجے میں مرد بھی ذہنی اذیت میں نہ صرف خود مبتلا ہو جاتا ہے بلکہ وہ اپنی بیوی کو بھی ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا شروع کر دیتا ہے۔جہاں تک بانجھ پن کا تعلق ہے تو بانجھ مرد بھی ہو سکتا ہے لیکن ڈاکٹری معائنہ کروانے پر زیادہ زور لڑکی پر ہی دیا جاتا ہے حالانکہ معائنہ بیک وقت دونوں کا ہونا چاہئیے تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ نقص کس میں ہے مگر ایسا ٹیسٹ یا معائنہ کرواتے ہوئے مردوں کی مردانگی پر ضرب پڑتی ہے جب کہ دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹری معائنے کے نتیجے اکثر 10 میں سے 9 مرد قصور وار نکلتے ہیں۔اس بات کے ثبوت کے طور پر وہ دیواروں کی دیواریں دیکھی جا سکتی ہیں جو حکیموں اور مردانہ کم زوری کے اشتہاروں کی سیاہی سے بھری پڑی ہیں۔اچھا یہ معلوم ہو بھی جائے کہ مرد ہی قصور وار ہے خرابی اسی میں ہے تو بھی عورت خاموش رہتی ہے اور بانجھ پن کا الزام اپنے سر لے لیتی ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ہر جگہ ایسا ہوتا ہے لیکن گاؤں دیہات یا کم تعلیم یافتہ گھرانوں یا روایتی قسم کے ماحول میں اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  میاں بیوی، رشتہ رفاقت کا

اس مسئلے سے نپٹنے کے لئے محض دعاؤں کا سہارا لینے کے بجائے ڈاکٹر سے مکمل طبی معائنہ اور مسئلے کا پریکٹیکل حل تلاش کیا جانا چاہئیے۔اگر خدانخواستہ اس مسئلے کا واقعی کوئی حل نہ ہو تو اس صورت میں دوسرے آپشنز پر غور کیا جا سکتا ہے مثلاً علیحدگی، دوسری شادی یا کسی بچے کو گود لینے کا آپشن بھی تو ہے۔مغربی ممالک میں سیلیبریٹیز نے بچوں کو گود لینے کا ٹرینڈ اپنایا ہے اس میں ہم انجلینا جولی، سشمیتا سین اور دوسرے کئی اداکاروں کی مثال دے سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بچوں کو گود لینے کا رواج نہیں ہے۔ جو بچے بد قسمتی سے اپنے والدین سے محروم ہو جاتے ہیں وہ یتیم خانوں میں پلتے ہیں جہاں ان کی تعلیم، رہائش، لباس،خوراک اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے مگر اس سطح پر نہیں جس کے یہ بچے مستحق ہیں کیونکہ اکثر سننے میں آتا ہے کہ یتیم خانوں میں بچوں کے ساتھ مارپیٹ، بد سلوکی اور جنسی ہراسگی کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔کچھ فلاحی اداروں نے بھی ایسے بچوں کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے جیسے ایدھی ٹرسٹ۔اصل میں تو یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کرے۔کوئی ایسا سسٹم بنائے کہ بے اولاد جوڑے یتیم خانوں سے بچے ایڈاپٹ کر سکیں۔ہمارا ملک مسلسل آفات، حادثات اور سانحات کی زد میں رہتا ہے۔بم دھماکوں کے نتیجے میں ہزاروں خاندان تباہ، ہزاروں عورتیں بیوہ اور ہزاروں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔غربت کے باعث ان بچوں کا مستقبل محض بھیک مانگنا، سڑکوں پر آوارہ پھرنا،نشے کی لت میں مبتلا ہو جانا ،جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ جانا یاکسی کاریگر، مستری کے ہاں کام سیکھتے ہوئے مار کھانا ہی رہ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  دہشتگردی کے خلاف فتویٰ پر عملدرآمد ہوگا بھی یا نہیں ؟ | کرن ناز

کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے کسی بچے کو گود لے کر اسے گھر کا آرام، تعلیم کی سہولت،بہتر مستقبل، معاشرے کا ایک فعال شہری بننے میں مدد اور والدین کا پیار دیا جائے کہ یہ سب اس بچے کا بھی حق ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے رشتہ داروں سے بچہ گود لے لیتے ہیں جو مجھے سراسر ظلم لگتا ہے کہ ایک بچے کے حقیقی والدین کے ہوتے ہوئے اسے والدین سے محروم کر دیا جائے، کیوں نہ کسی یتیم کا سہارا بنا جائے۔اس سلسلے میں کچھ لوگ مذہب سے تاویلات لے آتے ہیں اور محرم نا محرم کا جھنجھٹ شروع کر دیتے ہیں۔اس سلسلے میں میں صرف یہی کہنا چاہوں گی کہ یتیم کا حق ہمارے نبیﷺ اور قران نے بھی مقدم رکھا ہے۔یہ محض ایک تجویز ہے اس میں کسی کی دل آزاری ہر گز مقصود نہیں۔یہ ایک آپشن ہے، ہو سکتا ہے کہ آپ کی اس ایک نیکی کے نتیجے میں اللہ آپ پر بھی اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور آپ بھی اولاد جیسی نعمت سے سرفراز ہو جائیں۔ سوچنے میں کوئی حرج یا قباحت بھی تو نہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو صاحب اولاد کرے اور اولاد کی خوشی عطا فرمائے۔ آمین

حالیہ بلاگ پوسٹس