Qalamkar Website Header Image

سفرِ عشق

waqar hashmiحرمِ امامِ حسین ؑ کے باہر کے برآمدوں میں بستر بچھائے وہ کمبل میں سے کچھ ایسے منہ نکالے جیسے گلہری کسی درخت کی کھوہ میں سے باہر جھانک رہی ہو۔ سڑک پار دکانوں کو مسلسل دیکھ رہا تھا اور سوچوں کے سمندر میں غرق تھا۔لوگ اپنے پیاروں کے لئے عزیزو اقارب کے لئے تحفے تحائف و تبرکات خرید رہے تھے۔ لیکن اس کی جیب قیمتی تحائف خریدنے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ اسی سوچ میں گُم تھا کہ اتنے روپوں میں وہ اُن سب لوگوں کے لئے کیا لے سکتا ہے جنہیں ابھی تک یہ سعادت نصیب نہ ہوئی کہ وہ خود کربلا آ سکیں۔لیکن یہاں سے گیا تبرک بھی ان کے لئے ایسے ہی ہے جیسے امامؑ کی زیارت کر رہے ہوں ۔ بہت سے احباب کی فرمائشیں بھی تو ہیں کسی کو مس شدہ انگوٹھی چاہیے تو کسی کو رومال،خاک شفاء وغیرہ۔
اُس نے سوچا ِ خیر جو ہو سکا لوں گا اور امام کے روضے سے مس ہو کر معمولی چیز بھی گراں قدر ہو جاتی ہے۔ انہیں سوچوں میں گم تھا کہ اتنے میں اس کے ایک ساتھی نے عراقی قہوہ کا ایک کپ لا کر اس کو تھما دیا جو کہ قریب ہی ایک سبیل امام حسین ؑ پر بٹ رہا تھا۔ قہوہ کی ایک چسکی لیتے ہوئے اس نے اپنی سوچوں کے سلسلے کو وہیں سے مربوط کیا جہاں اس کے ساتھی کی آمد کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔
اس کا نام حیدر علی تھا۔ عمر 53سال، اور اس کا تعلق پاراچنار سے تھا۔اور وہ بتیس ہزار کے عوض ایک بسوں کے قافلے کے ساتھ براستہ ایران کربلا میں امامِ حسین ؑ کا چہلم منانے آیا تھا۔ اور یہ بتیس ہزار اس نے بہت مشکل سے جمع کیا تھا اس کے لئے اسے 11 ہزار روپے قرض بھی اُٹھانا پڑا تھا۔
وہ اپنے خاندان کا پہلا فرد تھا جس کو زیارتِ روضہ امام حسین ؑ کا شرف حاصل ہوا۔
کیوں کہ وہ بتیس ہزار کے پیکج میں آیا تھا جو کہ سب سے سستا پیکج تھا جس میں کھانا اور رہائش کا بندوبست خود سے کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ حرمِ امام حسینؑ میں ملنے والے مفت بسترجو کہ زائرین کو دئے جاتے تھے لے کر حرم میں ہی سوتا تھا۔ رات میں حرم کے اندر جگہ نہ ملنے کے باعث وہ برآمدوں میں ہی سو لیا تھا۔
نجف، کاظمین جوادین، سامرہ، کی زیارات کے بعد اس کے قافلے کا کافی دن کربلا میں ہی قیام رہا۔
اس دوران آقا و مولاامام حسینؑ سے خوب گفتگو ہوئی۔ ان کے توسط سے دعائیں بھی کی، حالات کی سختی کی شکایت بھی کی، جن لوگوں نے اس کے ذمے لگایا تھا، ان کا سلام، دعائیں اور حاجات بھی مولا کے گوش گزار کیں، زیادہ تر وقت حرم میں ہی گزرتا، لیکن اب اسکے واپس جانے کاوقت قریب تھا، دل میں سوالیہ دعا مچل رہی تھی کہ اے امامؑ پھر کب بلاؤ گے۔
مولاکیا میری یہ سعی اللہ کے حضور قبول بھی ہوئی یانہیں ؟
اور پھر تبرک کے طور پر تحائف بھی تو خریدنے تھے اپنے احباب کے لئے۔
ان سوچوں میں گم اس نے خود کو ان دکانوں کے سامنے پایا جہاں لوگ تبرک و تحائف خرید رہے تھے۔
کسی دوکان پر سیدہ سکینہ ؑ کی مناسبت سے رکھی گئی بالیاں دیکھ کر اپنی نواسی کا خیال آیا،کہیں جناب علی اصغر کی مناسبت سے رکھے گئے کرتے کو دیکھ کر پوتے کا چہرہ آنکھوں میں آجاتا،کہیں رسول اللہ ﷺ اور اہل بیت ؑ کےناموں کے خوبصوت کتبے دیکھ کر جی چاہتا کہ کاش یہ گھر کے در دیوار کی زینت بنتے۔ تسبیح لوں یا سجدہ گاہ،پتھر لوں یا خاکِ شفا، خیر اپنی استطاعت کے مطابق اس نے کچھ چیزیں خریدیں اور روضہ امام ؑسے مس کیں۔
جیسے ہی قافلہ سالار نے روانگی کا عندیہ دیا تو جیسے پیروں تلے زمیں نکل گئی ہو ، دوڑا حرم امامؑ کی طرف سلام آخر کی غرض سے،
آنسوؤں سے نم آنکھوں کے ساتھ بس میں سوار ہوا ، دل تھا کہ بچوں کی طرح ضد کر رہا تھا کہ مولا جا رہا ہوںلیکن پھر بلائیے گا،
اے میرے امام ؑ آپکے حضور پہنچا ضرور لیکن اللہ کے حضور کوتاہیاں معاف کروا دیجیے گا،
مولا قرض بھی ہے سر پر، ایک بیٹی ابھی تک اولاد کی دولت سے محروم ہے۔ ہاں وہ زوجہ بیمار ہے، اور بیٹے کا روزگار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے بس کربلا سے دور جا رہی تھی دل جیسے ڈوبتا جا رہا تھا۔خیر بس نے عراق سے ایران اور ایران سے پاکستان بارڈر کو عبور کیا اور کوئٹہ کی طرف رواں ہوئی۔ اپنا ملک آتے ہی اقارب کی یادوں نے آ گھیرا۔سوچنے لگا کہ وہ جا کر سب کو بتائے گا کہ کتنے کریم امامؑ کامہمان رہ کر آیا ہے۔ کیسی مہمان نوازی کی امامؑ نے، آخر رسولِ خدا ﷺ کے نواسے تھے ، علیِؑ مرتضیٰ اور سیدہ زہرہؑ کے لال،
مجھ نا چیز غلام کو کیا عزت بخشی امامؑ نے، پارا چنار پہنچتے ہی اپنے پوتے کو کرتا علی اصغرؑ پہناؤں گا، نواسی کے کانوں میں سیدہ سکینہؑ سے منسوب بالیاں پہناؤں گا تو وہ کتنی خوش ہو گی،اور ہاں اپنے بچپن کے دوست شیر محمد کے لئے انگوٹھی بھی تو لی ہے اور خاص امام حسینؑ کے روضے سے مس بھی کی ہے، شیر محمد ہے تو اہلِ سنت سے لیکن بڑا محبِ امام حسینؑ ہے ،
گھر پر جناب عباسؑ کے روضے سے مس کیا علم نصب کروں گا۔
اب امامؑ سے بات ہو گئی، مجال ہے کہ مشکلیں میرا آنگن دیکھیں اب زوجہ صحت یاب ہو گی۔ بیٹے کو نوکری بھی دلوا دیں گے، اور ہاں سب سے پہلے 11 ہزار روپے قرض اتاروں گا۔ سنا ہے لوگ کربلا سے کفن بھی لاتے ہیں کچھ اور پیسے ہوتے تو وہ بھی خرید لیتا۔لیکن اب سب بہتر ہو جائے گا میرے سخی امامؑ، میراکریم امامؑ۔۔۔۔۔
یہ سب سوچ کر اسکی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اس نے جلدی سے اپنی گود میں پڑے چھوٹے بیگ کو کھولاجس میں اُس نے وہ سب تحائف رکھے تھے جو اُس نے احباب کے لئے خریدے تھے۔ ایک ایک چیز دیکھنے لگا اور جس کے لئے خریدی تھی اُس کا چہرہ تخیل میں سوچنے لگا ،پھر اُس میں سے علم اور خاکِ شفا کی تسبیح کو نکال کرآنکھوں سے لگایا اور پھر دیکھنے لگا۔
بس ابھی کوئٹہ سے کچھ دور تھی، اچانک سے کسی نے بس کو روکا کچھ لوگ بس کے اندر داخل ہوئے، اور ‘ کافر کافر شیعہ کافر ‘ کا نعرہ لگا کر بس میں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی،
دو گولیاں سوچوں میں گم حیدر علی کے سینے میں پیوست ہو گئیں ۔ یہ اتنا اچانک ہوا کہ چہرے پر مسکراہٹ کا تاثر ابھی باقی تھا،
حیدر علی نے اپنے لہو کا غسل لیا، ہاتھ میں موجود جنابِ عباسؑ کے روضے سے مس علم اس پر کفن کی طرح پھیل گیا، اور خاک شفاء کی تسبیح کے دانے تسبیح سے ٹوٹ کر اس کے جسم پر بکھر گئے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس