Qalamkar Website Header Image

پروفیسر خورشید رضوی کے اعزاز میں ادبی بیٹھک – توقیر ساجد

toqeer sajidیو ایم ٹی لاہور پریس فورم کے تحت ہر ماہ کی پہلی اتوار کو لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے اس ادبی بیٹھک کا بیڑہ اٹھایا۔ اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو نے لکھنے والوں کی قومی کانفرنس کے لئے میزبانی کا کہا تو نہ صرف یہ کانفرنس یونیورسٹی میں منعقد ہوئی بلکہ اس سے ایک نئی روایت کا آغاز ہوا اور7 جون 2015 کو لاہور میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام منعقد ہوا۔ یہ لاہوری ناشتہ تھا، جس میں لاہور کے اہل علم و ادب کو دعوت دی گئی تھی۔ وہیں اعلان کیا گیا کہ لاہوری ناشتہ باقاعدگی سے ہوگا۔ لیکن رمضان المبارک، موسم گرما کی تعطیلات اور پھر محرم الحرام کے احترام میں اس کا انعقاد نہ ہوسکا۔امسال ادبی بیٹھک میں بانو آپا ،امجد اسلام امجد سمیت دیگر معروف ادبی شخصیات کے اعزاز میں یہ محفل سجائی گئی سو لفظوں کی کہانی کے خالق مبشر زیدی جن کے آباء نے امروہہ سے ہجرت کی کے خطاب سے 2016کی پہلی ادبی بیٹھک کاآغاز ہوا اور آج جس ادبی شخصیت کے اعزاز میں یہ بیٹھک لگائی گئی وہ بھی امروہہ میں1942میں پیدا ہوئے۔گویا کہ ادب کی سرزمین ادبی بیٹھک میں بھی غالب رہی دسمبر کے پہلے اتوار کو ادبی بیٹھک میں ڈاکٹر خورشید رضوی کو مدعو کیا گیا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی عربی ، فارسی ، اردو، پنجابی اور انگریزی زبانوں کے ایک کثیر جہتی اسکالر ہیں ۔ ڈاکٹر رضوی کو 2008 میں پاکستان کی حکومت کی طرف ستارہ امتیازسے نوازا گیا ۔ڈاکٹر خورشید رضوی بہت دھیمے لہجے میں لفظوں کے خوبصورت انتخاب کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں لاہوری ناشتے میں بونگ، پائے، نان چنے، حلوہ پوری، آملیٹ اور ڈبل روٹی کے ساتھ ساتھ چائے اور کافی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پرتکلف ناشتے کے بعد پروگرام شروع کیا جاتا ہے۔علمی اور ادبی حلقوں میں ڈاکٹر خورشید رضوی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کا شائستہ دھیما اور محبت آمیز لب و لہجہ ان کی مدلل اور جامع گفتگو اور ان کا باوقار اور فکر انگیز قرینہ اظہار مدمقابل کو اپنا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہے
ادبی بیٹھک کے ناشتہ سے قبل احمد نصراللہ صاحب ہر ایک شخصیت کو اپنے مخصوص انداز میں ویلکم کرتے اور سٹیج پر بلواکر فوٹو سیشن میں مصروف پائے گئے ۔اتوار اور دسمبر کی ہلکی سردی میں لاہوریوں کی ناشتہ کی دعوت کون ٹھکرا سکتا ہے تاہم وقت کی پابندی نہ ہوسکی اور ناشتہ ایک گھنٹہ تاخیر کا شکار ہوا۔کچھ احباب تو صرف ناشتہ کا شکار کرنے ہی آئے اور ادبی بیٹھک کے آغاز سے قبل ہی غائب پائے گئے ۔نصراللہ صاحب کی طرف سے حسب سابق ناشتہ سے قبل ناشتہ کرنے کی ہدایت جاری کی گئی کہ سب سے پہلے خواتین ناشتہ کے لئے ہال میں جائیں گی لیکن حال یہ تھا کہ کچھ داڑھی والی خواتین بھی موقع کی تلاش میں ناشتہ پر ٹوٹ پڑیں۔اسی selfieدوران ہی معروف شاعر نے سیلفی بنانے کا آغاز بھی کر دیا نفسا نفسی کے وقت میں ہر ایک شخص ناشتہ سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے لیکن موصوف ناشتہ میں مصروف لوگوں کی سیلفیاں اور ناشتہ کے ساتھ کرتی عوام کی تصاویر لیتے رہے ۔اس نشست کی ایک خاص انفرادیت یہ بھی ہے کہ لٹریچر سے وابستہ تمام لوگ مہینہ میں ایک مرتبہ اکٹھے ہوتے ہیں یونیورسٹی کی جانب سے یہ بیٹھک کسی ایک شخص کے اعزاز میں نہیں بلکہ تمام شرکاء کے لئے لگائی جاتی ہے تاہم وہ مہمان ستاروں میں چاند کی صورت ضرور ہوتے ہیں ۔ناشتہ کا اختتام ہوا ہی تھا کہ طاہر پرویز نے منقبت سے حاضرین محفل سے دادلوٹی ۔ڈاکٹر عمرانہ نے ابتدائی کلمات سے پروفیسر رضوی کا تعارف کروایا تو احمدندیم قاسمی کے موصوف کیلئے کہے گے تاریخی الفاظ کا استعمال کیا ۔خورشید رضوی صاحب نے سب سے پہلے حاضرین کو آگاہ کیا کہ مجھے فورم کی طرف سے وقت اور موضوع سے آگاہ نہیں کیا بلکہ آزادی دی گئی آزادی مجھے بے حد پسند ہے لیکن سارٹرنے کہا تھا
man is free to make his own choices, but is "condemned” to be free اس لئے میر ے نزدیک آزادی بھی ایک سزا ہے ۔اسلئے چونکہ ایک dr-khursheed-rizviتعلیمی ادارہ میں خطاب کا موقع میسر آیا ہے تو بطور معلم کچھ یادیں بتانا چاہوں گا ۔پروفیسر رضوی نے بتایا کہ ہر دورمیں معلم قابل رہے ہیں عمومی طور پر یہ خیال پایا جاتا کہ ہے طلبہ اساتذہ کی عزت نہیں کرتے ایسا تاثر بالکل بھی درست نہیں ہے ۔اساتذہ میں نمایاں شخصیات ہرادارہ میں ضرورہوتی ہیں طالبعلم کے دل میں ہمیشہ استاد کی عزت رہتی ہے ہاں اگر استاد کا استاد ہونا ثابت ہووہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے بہاولپور میں طالبعملوں کو پڑھانے کاآغاز کیا تومیری عمر بیس سال کے لگ بھگ تھی جس پر کلاس رو م کے باہر طلبہ اس شش و پنج میں مبتلا کھڑے رہتے تھے کہ یہ لڑکا کون ہے اور اس نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ،،گویا میری کم عمری بطور معلم لوگوں کے لئے حیرت کا باعث تھی۔ماضی کے اساتذہ طالبعلم کے اندر چھپی ہوئی صلاحیت کو اجاگر کرتے تھے عربی زبان کے شناور ڈاکٹر رضوی نے عربی سے خاص لگاؤ کی وجہ بھی اپنے استاد سے منسوب کرتے ہوئے بتایا کہ مو صوف کو استاد بھی عجب ملے۔ ایک استاد عربی کو پنجابی میں پڑھاتے تھے گویا میں پہلا شاگرد تھا جو عربی کو پنجابی میں پڑھنا سیکھتا تھا۔ دوسرے استاد ایسے کہ اپنی طرف سے عربی کا کوئی لفظ بتاتے تھے نہ اس کے معنی۔ کہتے تھے کہ خود معلوم کرو پھر گھنٹوں غور و فکر کے بعد استاد محترم پنجابی میں پوچھتے ہاں جی لبھ آیا ہے کاکا اور میں کہتا جی لبھ آیا اور پھر اپنی نشست سے اٹھ کر سینے لگا کر کہتے تو جن ہے کہ انسان۔
ڈاکٹر خورشید رضوی نے بتایا کہ ایک تصور پایا جاتا ہے علم ایک گہرا سمندر ہے میں ہر گز اس نظریہ کو نہیں مانتا کیونکہ علم تو ایک جزیرہ ہے سمندر تو ہماری لاعلمی ہے ڈاکٹر خورشید نے کہا دور حاضر میں ٹیکنالوجی نے ترقی کرلی ہے نسل نو بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہے لیکن ان میں تحقیق کے مرحلہ میں درپیش مشکلات کو برداشت کا مزاج ہرگز نہیں پایا جاتا جس کی شدید کمی محسوس جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہاں جب اس خطہ میں انگریز کا راج تھا تو یہاں دفاتر میں اردو کا دور دورہ تھا لیکن اب اردو میں انگریزی کی جھلک نظر آتی ہے بعض جگہوں پر خالص اردو میں گفتگو کرنے میں بھی اس لئے دشواری پیش آتی ہے کیونکہ مخاطب حضرات کیلئے آسان الفاظ یا متبادل انگریزی لفظ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور اس کے وجہ احساس کمتری کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے انہوں نے شرکاء کی فرمائش پر اپنا شاعرانہ کلام بھی سنایا اور خوب داد سمیٹی
جوکھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
وہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
ڈاکٹرصاحب کی علمی و ادبی گفتگو کے بعد انہیں رؤف طاہر ،الطاف قریشی اور دیگر شرکاء محفل نے جھرمٹ کی شکل میں شیلڈ پیش کی گئی اس دوران مخلتف شخصیات فوٹو سیشن اور سیلفیو ں میں بھی مصروف رہے اور یوں دسمبر کی ایک کوخوبصورت دوپہر کے آغا زپر اس پر رونق ادبی بیٹھک کا اختتام ہوا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »