Qalamkar Website Header Image

ٹیپو سلطان بحیثیت حکمراں و داستانِ حیات

ٹیپو سلطان ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء ؁ بمطابق جمعہ ۲۰ ذی الحجہ ۱۱۶۳ ھ ؁ کو دیوا نہالی میں پیدا ہوئے ، موجودہ دور میں یہ بنگلور دیہی ضلع کا مقام ہے، جو بنگلور شہر کے ۳۳ کلو میٹر (۲۱ میل] شمال میں واقع ہے ، ٹیپو سلطان کا نام آرکاٹ کے بزرگ ٹیپو مستان اولیا کے نام پر ہے، اور انکے والد کا نام حیدر علی اور والدہ کا نام فاطمہ ہے ، سلطان حیدر علی کو اللہ تعالی نے جنوبی ہندوستان میں وسیع سلطنت سے نوازا تھا،حیدرعلی نے ٹیپو سلطان کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور فوج اور سپاہی امور میں انہیں نوعمری میں ہی شامل کیا ۱۷ سال کی عمر میں ٹیپو سلطان کو اہم سفارتی اور فوجی امور پر آزادانہ اختیار دیدیا ، انہیں اپنے والد حیدر علی جو جنوبی بھارت کے سب سے طاقتور حکمراں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، ٹیپو سلطان کا پور انام فتح علی ٹیپو تھا ، آ پ کے والد سلطان حیدرعلی نے جنوبی ہند میں ۵۰ سال تک انگر یزوں کو بزور طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریز افواج کوشکستِ فاش بھی دی، ٹیپو سلطان کا قو ل تھا ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی ،گیڈر سوسالہ زندگی سے بہترہے‘‘،،

آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور بر صغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے ٓزاد کرنے کے لئے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے ، سلطان نے انتہائی دور رس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں ،صنعت وتجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسر نو منظم کیا، سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ بر صغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے ۔نظام اور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلئے خطرہ سمجھااور انگریزوں سے اتحاد کر لیا ۔ ٹیپوسلطان نے ترکی ،ایران ، افغانستان ور فرانس سے مدد حاصل کرنے کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہوسکے ، میسور کی آخری جنگ کے دوران جب سرنگا پٹنم کی شکست یقینی ہو چکی تھی ، ٹیپو نے محاصرہ کرنے والے انگریزوں کے خلاف بھر پور مزاحمت کی اور قلعہ کو بند کروادیا لیکن غدار ساتھیوں نے دشمن کی لیے قلع کا دروازہ کھول دیا اور قلع کے میدان میں زبردست جنگ چھڑ گئی،ذخیرہ میں آگ لگ جانے کے باعث مزاحمت کمزور ہو گئی اس موقع پر فرانسیسی افسر نے ٹیپو کو چترادرگا بھاگ جانے اور اپنی جان بچانے کا مشورہ دی مگر ٹیپو راضی نہ ہوئے اور ۴ مئی ۱۷۹۹ء ؁ کو میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
اندازحکمرانی : ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی ، مذہبی تعصب سے پاک تھے ، یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، ٹیپوسلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا ۔ حکمراں ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ، باوضورہنا اور تلاوت قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے، ظاہری نمود ونمائش سے اجتناب برتتے ، ہر فرمان کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے، زمین پرچادر بچھاکر سویا کرتے تھے ۔
علم دوست حکمراں: ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمراں کہے جاتے تھے آپ کو عربی ، فارسی، اردو، فرانسیسی ، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی ، آپ مطالعہ کے بہت شوقین تھے ، اور انکے ذاتی کتب خانہ کے مالک تھے جس سے کتابو ں کی تعداد کم وبیش ۲۰۰۰ بیا ن کی جاتی ہے، اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاص دلچسپی رکھتے تھے ، آپ کو بر صغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔
عظیم سپہ سالار : ۔ ہر جنگ میں اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظم کیا ، اسلحہ سازی ، فوج نظم ونسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔
ٹیپو سلطان نے نظام الملک کو جو خط لکھا وہ اس طرح کے ہیں : میر نظام خاں کا داماد نواب مہابت جنگ کا دیوان اسد علی خاں صلح کا پیغام لیکر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچتا ہے تو ٹیپو سلطان اس کی واپسی پر اپنے ایلچی محمد غیاث کو نظام الملک کے نام ایک خط لکھ کر روانہ کرتے ہیں ۔
جناب عالی :۔
آداب : میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر ۔ آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ما ں کا درجہ دیتا ہوں ۔ اور میری فوج اور علاقے کے ہر محب وطن کو وطن پر قربان کرکے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہوگی ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خا دم ہونا چاہئے ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مر ہٹو ں کے ساتھ ملکر اپنے ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے ، ملک کو کھو کھلا کرنے پر تلے ہو ئے ہیں ۔ معلوم ہو کہ آ پ دونو ں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکشتہ حال کیا جا رہا ہے ۔ میں آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں ملکر ہم خیال بن جاتے ہیں ، تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہما ری ریاستوں کی طر ف آ نکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی عیاری اور چا لا کی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے ، اور آپ کے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں ۔ اور تعجب ہے کہ آ پ اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں ، وہ آ پ کو اکسا رہے ہیں کہ آ پ مرہٹوں کے ساتھ ملکر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں ۔ اگر با ت آپ کو سمجھ میں آ جاتی ہے تو میں یہ مشورہ دونگا کہ آ پ کی اور میری دوستی امن اور آ شتی میں بدل سکتی ہے ۔ تو اس ایک بات پر کہ آ پ کے خاندان کے لڑکے ، بھتیجے ، بیٹوں کو میرے خاندان کی لڑ کیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے ، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے سا تھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے ، فقط۔
جاں بلب ٹیپو سلطان نے حیدری تلوا کا بھر پور مار مار تے ہوئے ، 4 مئی 1799ء کو غروب آفتاب سے پہلے میسو ر کا یہ آفتاب غروب ہوگیا۔ شہادت کے وقت ٹیپو سلطان 48 برس کے تھے .

یہ بھی پڑھئے:  عید قرباں کا درس

یو این این

حالیہ بلاگ پوسٹس