بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دوره ایران کے دوران ایرانی بندرگاه چاه بہار کی توسیع سے متعلق ایران اور بھارت کے مابین 12 معاہدوں پر دستخط ہوۓ ہیں جس کیلیے ایران کو پاکستان کے اک مخالف کے طور پر پورٹریٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
کسی بھی ملک کے نزدیک سب سے اہم ملک مفادات ہوتے ہیں اور پوری دنیا کے ممالک کی خارجه پالیسی اور دوسرے ملکوں سے تعلقات کی نوعیت اسی مرکزی نقطے کے گرد گھومتی ہے مثال کے طور پر مودی کے ہمارے برادر اسلامی ملک یو اے ای کے دوره کے موقع پر سٹیڈیم کے اندر پاکستان مخالف تقریر ہو یا پھر مسلم امه کے قائد سعودی عرب کا مودی کو ایوارڈ سے نوازا جانا سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اور سفارتخانے کا قیام ہمیں یه سمجھانے کے لیے کافی ہو گا که ملکی مفادات سب سے اہم ہوتے ہیں باقی عصبیتوں کی باری بعد میں آتی ہے
گوادر پورٹ کی اہمیت میں کمی افغانستان میں براه راست رسائ اور ایران کو پاکستان سے متنفر کر کے بھارت نے ایک تیر سے تین شکار کیے ہیں
وطن عزیز کی گوادر پورٹ دنیا کے کئی ممالک کی آنکھوں کا تارا ہونے کے بجائے ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی ہے اور اس کیلئے دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں کھینچا تانی شروع ہو چکی ہے۔ گوادر پورٹ سے ہمارے برادر ملک متحدہ عرب عمارات کی بندرگاہ دبئی کافی متاثر ہوسکتی ہے۔ اگر ہم اس کو ایک سٹریٹجک اثاثے کے لحاظ سے دیکھیں تو اس کی اہمیت اور کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ سٹریٹجکلی پاکستان بحرہند میں سٹریٹ آف ہرمز کیلئے بہت اہم گیٹ وے ہے اور اسی سٹریٹ سے دنیا کے 20 فیصد تیل کی ترسیل ہوتی ہے، اس سے دو اسلامی ممالک ایران اور افغانستان کی سرحدیں بھی ملتی ہیں۔
گوادر پورٹ کے فعال ھونے سے پاکستان ایک معاشی مرکز کے طور پر ابھرے گا۔ اس لیے امریکہ اور چین کے ساتھ ساتھ بھارت اور خلیجی ممالک بھی رسہ کشی میں شامل ہوگئے تھے۔ یہ رسہ کشی دو سطحوں پر جاری تھی۔ ایک تو اس پر کنٹرول حاصل کرنے کی دوسری اس کو ناکام بنانے کی۔ امریکہ اور چین قبضے کی تگ و دو میں لگ گئے جبکہ خلیجی ممالک اس کو ناکام کرنے کی ناکام کوشش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ گوادر پورٹ کے ذریعے توانائی سے مالا مال وسط ایشیائی ممالک تک رسائی آسان ہونے کی وجہ سے اس کی سٹریٹجک اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔اسی وجہ سے ایران اور متحدہ عرب عمارات اس کو مقابلے سے نکال باہر کرنے پر جت گئے ہیں۔ اگر ہم مغربی چین اور وسط ایشیائی ممالک کو دیکھیں تو یہ قیف کی مانند ہیں اور قیف کے چوڑے حصے پر گوادر پورٹ موجود ہے۔اگر ہم اس کی اہمیت فوجی لحاظ سے دیکھیں تو اس بندر گاہ سے بحیرہ عرب پر ہمارا تسلط قائم ہوتا ہے۔بھارت گوادر پورٹ کے مقابلے میں ایرانی بندرگاه چاه بہار کو فعال کرنے کی کوششیں 1990 سے کر رہا ہے صرف ایران ھی نہیں خلیجی ممالک خصوصا یو اے ای کو بھی گوادر پورٹ کے حوالے سے تحفظات ہیں ان کا ماننا ہے چونکه گوادر جغرافیائ پوزیشن اتنی آئیڈیل ہے کہ اس کے فعال ہونے سے دبئ کی مارکیٹ ویلیو گرنے کا اندیشه ہے لہزا یه فعال نہیں ہونی چاہییے حالانکه ایران پر عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہمیں ایرا کو اک اہم تجارتی منڈی کے طور پر لینا چاہیے تھا پاک ایران گیس پائپ لاین منصوبے ایران سے بجلی گیس تیل اور موٹر انڈسٹری کی تجارت ہمارے حق میں تھی مگر ایسا نھیں کیا گیا اب جب پاکستان نے خود ہی ایران سے تجارت اور لین دین سے فرار کا رویه اپنا رکھا تھا تو انہوں نے ملکی مفادات کیلیے بھارت سے ہاتھ ملانے میں دیر نہیں لگائ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں بلیم گیم کھیلنے کی بجاۓ زمینی حقائق اور ماضی میں افغانستان میں پراکسی وار کے بھیانک نتائج سے سبق حاصل کرتے ہوۓ اک نیا محاذ نہیں کھولنے کی بجاۓ خطے میں گوادر کی اہمیت برقرار رکھنے کی سعی کرنی چاہییے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn