فریڈرک اینگلس نے عورتوں پہ ہونے والے جبر کی طبقاتی جڑیں دریافت کرنے میں سب سے پہلے ہماری مدد کی تھی۔اور یہ مدد ہمیں اس کی کتاب ‘خاندان،نجی ملکیت اور ریاست کی اصل’ میں ملتی ہیں۔یہ کتاب 1884ء میں پہلی بار چھپ کر آئی تھی۔اس کتاب نے عورتوں کے حالات زار کے ٹھوس مادی تجزیے کی بنیاد رکھی۔اور یہ اس لیے ممکن ہوا کہ فریڈرک اینگلس کی تحقیق ہمیں صنفی جبر اور معاشرے کے سماجی ڈھانچے کے اندر خاندان کے مقام کا تجزیہ کرنا آسان بنادیا تھا۔
اینگلس نے ہمیں ایک بہت بنیادی اور اہم سچ بتایا کہ پیداوار کے طریقے میں آنے والی تبدیلیوں نے پوری کی پوری انسانی زندگی کے طریق پہ اثر ڈالا اور اس نے مرد اور عورتوں کے درمیان تعلقات پہ بھی اثر ڈالا۔
"تاریخ میں آخری فیصلہ کن عنصر پیداوار اور افزائش نسل کا ہے۔لیکن اس کا بھی دوہرا کردار ہے۔ایک طرف تو ضروریات زندگی کے ذرائع پیداوار، خوراک، کپڑے ، رہائش اور اس کے لیے درکار آلات پیداوار ہیں اور دوسری طرف افزائش نسل ہے۔پیداوار اور تولید ایک دوسرے کی احتیاج سے آزاد نہیں ہوتے۔پیداوار تولید کی صورت گر ہوتی ہے،جتنا سماج ترقی کرتاہے اتنا ہی تولید بھی ترقی کرتی ہے۔اور اس سے جو سماج سامنے آتا ہے اس میں خاندانی نظام ملکیتی نظام سے مغلوب ہوتا ہے۔”
اینگلس نے امریکی ماہر بشریات لیوس مارگن کی دریافت کو لے کر ہمیں بتایا کہ ابتدائی معاشرے اور سماج جو تھے ان میں ابتدائی اشتراکیت/کمیونزم رائج تھا اور طبقاتی معاشرے ان کے بعد سامنے آئے۔مرد اور عورتوں کی فطری استعداد کے مختلف ہونے کا خیال محنت کی تقسیم کا عکاس تھا اور صنفی رشتوں کی بنیاد شریک حیات چننے کی آزادی کا عکس تھی۔’مادری حق’ کی بنا پہ پہچان ماں سے ہوتی نہ کہ باپ سے۔لیکن محنت کی پیداواریت میں اضافے نے، سماجی رشتے بدل ڈالے۔جانوروں کے باڑے ‘دولت’ بن گئےاور یہ مرد تھے جو جانوروں کو پالتے تھے۔بتدریج عورتیں جوکہ گھر میں بالادست تھیں، انہوں نے اپنے اس مقام کو کھودیا۔جیسے ہی جانوروں پہ مشتمل دولت میں اضافہ ہوا تو مرد بھی اس کو اپنے مرد بچوں میں منتقل کرنے کی خواہش رکھنے لگے۔ماں کا حق ان کے راستے میں کھڑا تھا تو انھوں نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا۔اور اس طریقے سے یک زوجیت عورتوں کے لیے متعارف ہوئی، اور اس میں ایک عورت ساری عمر کے لیے ایک مرد سے جوڑ دی گئی اور وہ مرد کی مرضی کے تابع کردی گئی۔
ماں کا حق/مدر رائٹ کا خاتمہ نسائی صنف کی عالمی تاریخی شکست تھی۔مرد کی حکمرانی گھر پہ بھی قائم ہوگئی،عورت جو تھی وہ مرد کے لوبھ،لالچ اور ہوس کی غلام بنانے کی طرف دھکیل کر لائی گئی اور وہ بچے پیدا کرنے کی مشین بنادی گئی۔اینگلس اس شکست کو اس پروسس کا حصّہ قرار دیتا ہے جس کے ذریعے سے سماج کو استحصال کرنے اور استحصال کا شکار ہونے والوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور استحصال کرنے والے ریاست کے کنٹرول کے زریعے سے تشدد کے زرایع پہ اجارہ داری قائم کررہے تھے۔اینگلس لکھتا ہے:
"پہلا طبقاتی تضاد اور کشمکش یک زوجی شادی برائے خواتین اور مرد و خواتین کے درمیان کشمکش کے نمودار ہونے کے ساتھ ہی سامنے آئی۔اور پہلا طبقاتی جبر بھی عورت پہ مرد کے جبر کے ساتھ ساتھ ہی سامنے آیا۔”اس لیے اینگلس نے ہمیں پہلی بار بتایا کہ عورت کی نجات کی جدوجہد کو طبقاتی سماج کے خلاف کی جانے والی جدوجہد سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
مورگن اور اینگلس کی تحریریں انیسویں صدی میں سامنے آئی تھیں۔ ماڈرن سوشل انتھروپولوجی/جدید سماجی بشریات کا علم ان تحریروں میں موجود مدرسری ابتدائی کمیونزم کے دعوے کے خلاف کینہ اور بغض سے بھرگیا۔انھوں نے بہت کیچڑ اور گارا اس نظریہ پہ پھینکا۔لیکن کارل مارکس اور ڈارون کے انقلابی نظریات نے مورگن کے انقلاب آفریں خیال کو تنقید کے پہاڑ نیچے دفنائے جانے کے باوجود زندہ رکھا۔
مورگن اور انيگلس نے اپنے خیالات کی تائید میں ثبوت فراہم کرنے میں ٹھوکریں کھائیں۔مورگن نے ابتدائی کمیونسٹ سماجوں کے اندر بھائی-بہن کے میاں بیوی کے طور پہ رہنے کا جو دعوی کیا تھا اس کا ابت ک کوئی واقعی ثبوت میسر نہیں آیا۔بلکہ اس کے برعکس اب اتنے شواہد اور آثار موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں سماج جتنا زیادہ ابتدائی قبیل داری کے قریب تھا اتنا ہی محرمات کے درمیان جنسی تعلق ممنوعہ تھا۔اور نہ ہی اینگلس کا یہ دعوی درست ہوسکا کہ جوڑا شادیاں عورت کے مردوں کے ایک گروپ کے جنسی حق جتانے سے آزادی کی خواہش سے نکلی تھی۔
مورگن اور اینگلس کا یہ جو دعوی تھا کہ مدر سریت سے پدر سری تک ایک مربوط سسٹم کے طور پہ سماج کا سفر ہوا شاید غلط ہے۔کیونکہ ناکافی مواد کی وجہ سے یہ جاننا مشکل ہے کہ محتلف ادوار اور مقامات میں عورتوں کا کام (خوراک جمع کرنا) مدروں کے کام (شکار کرنے کا کام ) کے مقابلے میں کس قدر مدر سریت کی مادی بنیاد بنا۔اس لیے ظاہر ہے کہ علم بشریات کو بہت کچھ محض قیاس کے بل بوتے پہ کہنا پڑتا ہے کہ تاریخ یوں ہے جبکہ سائںس میں اتنا کچھ نہیں کہنا پڑتا۔
لیکن مورگن اور اینگلس کے نقادوں کی تنقید ان دو مفکرین کے حقیقی نقائص پہ نہ تھی،بلکہ ان کے تعبیر کے تاریخی اور مادیاتی طریقہ کار پہ تھی۔ان ماہرین بشریات کی دلیل یہ تھی کہ اب جبکہ انسانی سماج کے ابتدائی ادوار کے ابتدائی قبائل موجود نہیں ہیں تو تاریخی مادیاتی طریقہ کار کو استعمال نہی کیا جاسکتا۔اور وہ کہتے ہیں اس لیے موگن اور اینگلس نے جو نتائج اخذ کیے وہ محض قیاس ہیں۔تو ماڈرن انتھروپالوجی ابتدائی سماجوں/معاشروں کے بارے میں اور زیادہ الجھے ہوئے اور ابہام پہ مشتمل حقائق کی تفصیل بتاتی ہے۔لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے ان حقائق کو ابتدائی سماجی اداروں جیسے خاندان ہے کے ساتھ نہیں جوڑتے۔جب وہ خود قدیم ترین ابتدائی شادی کے ضابطوں کی اصل کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں،تو وہ خود بھی کم مفروضے اور قیاس استعمال میں نہیں لاتے۔اور ان کی بنیاد وہ ایسے نفسیاتی اور معاشی اصولوں پہ استوار کرتے ہیں جو ان کے خیال میں ‘عالمگیر’ ہوتے ہیں۔لیکن اصل میں وہ ان کے اپنے طبقاتی تعصبات سے انحراف ہی ہوتے ہیں۔
یہی ماہرین بشریات جو کہ مورگن اور اینگلس کے طریقہ کار کو مسترد کرتے ہیں اس بات سے بھی انکاری ہوجاتے ہیں کہ کبھی ایسا دور بھی تھا جب مرد و عورتوں کے درمیان برابری تھی،اور وہ اس طرح سے تمام معاشرے اور سماجوں کا چاہے وہ قدیم ترین ابتدائی معاشرے تھے یا بعد میں آنے والے ان کا نمایاں وصف نجی ملکیت بتاتے ہیں۔
چند ہی ایسے ماہرین بشریات ہیں جنھوں نے اینگلس اور موگن کے خیالات کی دوبارہ سے حمایت کی۔رابرٹ برفالٹ نے 1927ء میں ایک اسٹڈی جو کہ پدرسری خاندان کو ابتدائی قدیم ترین شکل بتانے کی نفی کرتی ہے سے استفادہ کرتے ہوئے بتایا کہ ترقی یافتہ انواع میں مادرانہ شفقت و خیال نے ممالیہ کو سماجی زندگی کی ترقی میں آگے لانے میں کردار ادا کیا۔اور یہی انسانیت کی جانب پہلا قدم تھا۔ایولائن ریڈ نے 80ء کی دہائی میں یہ ثابت کیا کہ مرد اور عورتوں کے مابین کوآپریٹو لیبر/مشترکہ لیبر کی تشکیل آدم خوری اور مدر سری بنیادوں پہ جمع ریوڑ کے اندر جنسی رشتوں کے ٹیبو/ممنوعہ قرار پاجانے کے ذریعے سے ہوئی۔اس خاتون ماہر بشتریات نے بتایا کہ شکار اور خوراک اکٹھا کرنے والی معشیت میں مرد و عورتوں کے درمیان صنفی برابری عورتوں کے معاشرے کو حیوانیت سے انسانیت کی جانب سفر میں قائدانہ رول بنیادی ناگزیر شرط تھی۔ایولائن ریڈ کی تحقیق آرتھوڈوکس انتھرپولوجی کے فراہم کردہ شواہد اور ثبوت پہ بھی مبنی ہے، جو ہوسکتا ہے بہت زیادہ قیاسی طریقہ کار ہو۔
مارکسی دانشوروں نے ابتدائی معاشروں کے مطالعے میں مرد و عورتوں کی برابری کے ساتھ ابتدائی کمیونزم کے تصور شامل نہیں کرتے۔نہ ہی وہ ارتقائی اور مادیت طریقہ کار کو شامل نہیں کرتے۔بلکہ مارکسی دانشوروں کے نزدیک معاشرے اور خاندان کے ڈھانچے میں عورت کے مقام کو صرف و صرف غالب طریق پیداوار کے سیاق و سباق میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
وہ ‘عورتوں کو تبدیل نہ ہونے والی پدرسریت کا متاثرہ’ ہونے کے خیال سے بہت دور ہوتے ہیں۔مارکسی دانشوروں کے خیال میں عورتوں کا معاشروں میں مقام اور خاندان کا ڈھانچہ گزشتہ دو سو سالوں میں متعدد تبدیلیوں سے گزرے ہیں۔کسان گھرانے جس میں اکثریت صنعتی انقلاب سے پہلے رہتی تھی وہ جدید خاندان کی مرکزیت سے بہت مختلف تھے۔یہ پیداوار کے ساتھ ساتھ صرف کرنے کی اکائی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے بیرونی دنیا سے تبادلے کا یونٹ بھی تھا۔کسان گھرانہ باہر کے معاشرے سے بالکل کٹا ہوا نجی اکائی نہ تھا۔
ایک اور ماہر بشریات مارک پوسٹر کہتا ہے کہ ابتدائی ماڈرن کسان زندگی کی بنیادی اکائی ایک شادی شدہ خاندان نہیں تھا بلکہ بنیادی اکائی گاؤں تھا۔گاشں کسان کا خاندان تھا۔عورتوں کا کام خاندان اور برادری کی بقا کے لئے بہت ضروری تھا۔عورتیں سخت اور طویل محنت کرتی تھیں۔کسان خواتین کھانا پکاتیں،ـبچوں کی دیکھ بھال کرتیں، پالتو جانوروں اور باغات کی دیکھ بھال کرتیں اور اہم مواقع پہ گاؤں کے کھیتوں میں کام میں شریک ہوجاتیں،جیسے کٹائی کے موسم میں۔جبکہ عورتیں پیدائش کے کام میں ضبط کرتیں اور شام میں چوپالوں میں ہوئے اجتماعات کی نگرانی کرتیں۔
جب صنعتی سرمایہ داری رائج ہوئی تو عورتوں کا کردار بھی گھر کے اندر بے گانگی کا شکار ہوا۔خاندان اب پیداوار کی اکائی نہ رہا۔بچوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانا اور دھلائی وغیرہ یہ ‘گھریلو کام’ یا ڈومیسٹک لیبر میں بدل گیا۔ہاؤس وائف/گھریلو بیوی/عورت اپنے گھر تک محدود ہوگئی۔خاندان کی نجکاری ایسے ہی پیدا ہوئی۔اور خاندان کی اس نجکاری کو قدامت پرستوں نے تمام معاشروں کا فطری اور قدرتی پہلو قرار دے ڈالا۔
لیکن پھر بھی یہ جو عورت کی گھر میں کی جانے والی لیبر/محنت ہے، جسے سماجی پیداوار سے الگ کردیا گیا تھا،سرمایہ داری نظام کی پیداوار کی تنظیم کاری اور سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار کا ناگزیر جزو ہے۔خاندان اور گھرانوں کے اندر جو محنت سرانجام پاتی ہے وہ سرمایہ داری نظام کو افرادی محنت/ورک فورس فراہم کرتی ہے۔
نسل در نسل،یہ عورتوں کی محنت ہے جوکہ افزائش نسل کے ذریعے اور بچوں کی پرورش کرتے ہوئے طبعی اور ثقافتی دونوں طرح سے افرادی قوت محنت/ورک فورس کو جنم دیتی ہے۔اور ہر روزمرہ کی بنیاد پہ عورتوں کی محنت خاندان میں آنے والے دنوں میں کام کرنے کے قابل بناتے ہوئے ورکرز/محنت کشوں کو پیدا کرتی ہے۔
اسی لیے کارل مارکس نے بھی عورتوں کی ڈومیسٹک لیبر کو جو خاندان کے اندر سرانجام پاتی ہے سرمایہ دارانہ پیداوار کے لیے بنیادی عنصر قرار دیا تھا اور اس نے ڈومیسٹک لیبر کو سرمایہ کی پیدائش نو کے لیے درکار ورکنگ کلاس کی مسلسل دیکھ بھال اور تولید کے لیے بھی ڈومیسٹک لیبر کو بنیادی شرط قرار دیا۔
پیداوار اور افزائش نسل کے درمیان یہ جو جدلیاتی وحدت ہے اسے سرمایہ داری کے حامی لبرل دانشور چھپاتے ہیں۔وہ افزائش نسل میں کارفرما ڈومیسٹک لیبر کی نجکاری کی حقیقت کو چھپا لیتے ہیں۔اور وہ اسے معاشرے/سماج سے باہر ایک انفرادی فرض قرار دیتے ہیں۔کیونکہ اگر عورتیں بلامعاوضہ ڈومیسٹک لیبر محنت کش خاندان کے اندر سرانجام نہیں دیتیں تو سرمایہ داری نظام کو یا تو زیادہ اجرت فراہم کرنا پڑتی یا اسے ان خدمات کی جگہ زیادہ فلاحی خدمات فراہم کرنا پڑتیں جو اب گھویلو بیویاں/عورتیں فراہم کرتی ہیں۔
خاندان کا ادارہ نہ صرف سماج/معاشرے کی معاشی بنیاد ہے بلکہ یہ اس کے بالائی ڈھانچے/سپراسٹرکچر کا حصّہ بھی ہے۔خاندان کے اندر عورتوں پہ جبر،زندگی کے ہر پہلو میں عورتوں پہ جبر کی شکل بن جاتا ہے،اور صنفی اسٹیریوٹائپنگ کو اور زیادہ مسخ شکل میں اگلی نسل میں جنم دیتا ہے۔عورتوں پہ جبر سرمایہ دارانہ طریق پیداوار کی جس طریقے سے خدمت کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مختلف طبقات کی عورتوں پہ مختلف طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ معاشرے میں،سرمایہ دار عورتوں کا کام جائز وارث پیدا کرنا ہوتا ہے،جو اگلی نسل میں حکمران طبقے کی جمع کی ہوئی دولت کو لے کر چلنے کے قابل ہوں گے۔ورکنگ کلاس/محنت کش طبقے کی عورتوں کا کام موجودہ اور آنے والی نسل سے مزدوروں کو جنم دینا ہوتا ہے۔حکمران طبقے کی عورتیں ورکنگ کلاس عورتوں پہ جبر سے فائدہ اٹھاتی ہیں، کیونکہ وہ خواتین کی سستی محنت سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ سرمایہ دار عورتیں اپنے طبقے کے مردوں کے مقابلے میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی ہیں۔لیکن ان دو کے درمیان تقسیم اس خلیج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو سرمایہ دار عورتوں کو محنت کش عورتوں سے الگ کرتی ہے۔اور اس خلیج کا ثبوت سرمایہ دارانہ سماج کے دو بنیادی سیکٹرز ملکیت اور تعلیم کے اندر سرمایہ دار عورتوں اور محنت کش عورتوں میں پائے جانے والے بہت بڑے فرق سے واضح ہے۔آج بھی پاکستان کے اندر چند فیصد سرمایہ دار عورتیں ایک طرف 80 فیصد سے زائد عورتوں کی کل دولت کی مالک ہیں اور جبکہ 95 فیصد ورکنگ کلاس عورتیں عورتوں کے پاس کل دولت کا مشکل سے 20 فیصد رکھتی ہیں۔ایسے ہی کالج اور یونیورسٹی لیول کی تعلیم میں اچھی اور معیاری تعلیم میں ورکنگ کلاس عورتوں کا حصّہ بہت کم ہے۔اور سماجی ریسرچ بتاتی ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم تک رسائی میں عورتوں کی طبقاتی حثیت کا فیصلہ کن کردار ہے۔
تعلیم اور ملکیت میں سرمایہ دار عورتوں کے پاس اپنے طبقے کے مردوں سے بہت کچھ مشترک ہے اور محنت کش عورتوں سے بہت کچھ غیر مشترک ہے اور ان دو شعبوں میں عورتوں کے درمیان یک جہتی اور بین بین ہونا پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔دونوں کی دنیائیں الگ الگ ہوجاتی ہیں۔عورتوں پہ جبر سے فائدے میں کون رہتا ہے؟ ریڈیکل فیمنسٹ اور بہت سارے وہ جو خود کو سوشلسٹ فیمنسٹ کہتے ہیں، یہاں تک کہ بعض مارکسی فیمنسٹ بھی یک زبان ہوکر کہتے ہیں:مرد۔ہمارا جواب ہے نہیں۔
ایک ورکنگ کلاس ویمن/محنت کش عورت ہونے،شوہر پہ مالیاتی انحصار کرنا،گھریلو کام اور ایک اکتادینے والی کم اجرت والی نوکری کرنے جیسا دوہرا بوجھ اٹھانا بہت ہی زیادہ جبر کا کام ہے۔تاہم ایک محنت کش مرد ہونا،انتہائی ترش و تند اور غیر محفوظ خطرناک دنیا میں روزی کمانے کا کردار ادا کرنا ہے۔جبکہ بے روزگاری کی تلوار بھی آپ کے سر پہ ہمہ وقت لٹکی ہو تو یہ کوئی مراعات یافتہ ہونا نہیں ہے۔محنت کش مرد بھی اتنا ہی غیر انسانی پن کا شکار ہوتا ہے جتنا کہ عورت۔لنڈسے جرمن نے اس موضوع پہ ایک نہایت شاندار مضمون ‘ پدر سریت کے نظریات’ لکھا ہے۔
"خاندانی کمائی مردوں کو مادی فائدہ نہیں دیتی۔بلکہ یہ تو تولید اور بچے جننے پہ جو کم سے کم لاگت آتی ہے،اسے بھی بمشکل ہی پورا کرتی ہے۔پورے خاندان کو پالنے میں فیملی ویج سسٹم میں جتنی رقم کی ضرورت ہوتی ہے اسے بھی یہ پورا نہیں کرتی۔ایسے نظام میں ایک شادی شدہ عورت کو زیادہ مصائب کا سامنا اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ اسے براہ راست سرمایہ دارانہ پیداوار سے خارج کردیا جاتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک بیروزگار کو کردیا جاتا ہے۔اس سے ایک خودمختار صارف کے طور پہ نظر آنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔یہ اس بات کو سمجھنے میں بہت اہم ہے جب ہم کہتے ہیں کہ ورکنگ کلاس کی گھریلو عورتیں/بیویاں جبر کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ان کے مردوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محنت کش مرد عورتوں کے جبر سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn