دن تو لوگوں سے بیٹے کی باتیں کرنے میں گزر جاتا ہے پر جب رات ہوتی ہے تو میرے دل میں ایک کھیچاؤ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایسی کیفیت ہے جو میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی ۔میں بہت تڑپتی ہوں اور دھاڑیں مار کے روتی ہوں ۔کبھی میں بہت طاقتور اور مظبوط دنیا سے ٹکرا جانے والی ماں ہوا کرتی تھی پر جوان بیٹے کی ناگہانی موت نے مجھے جیتے جی مار دیا ہے مجھے لگتا ہےکہ ابھی وہ ادھر سے آئے گا مجھے ماں کہہ کر پکارے گا اور میں اپنے سارے کام چھوڑ کے اسے گلے لگا لوں گی ۔اسے اپنے پاس بٹھا کے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کے ساتھ بہت سی باتیں کروں گی ۔بہت پیار کروں گی اسے اسے اتنا چوموں گی کہ میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی ۔پر یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں۔وہ جب صبح تیار ہو کے گھر سے نکلا تھا تو میں نے تو معمول کے مطابق آیات پڑھ کے پھونکیں بھی تھیں اور اسے الله کی امان میں بھی دیا تھا پھر یہ سب کیسے ہو گیا کہ وہ اپنے علم عقل اور ذہانت سمیت ایک دھماکے کی نظر ہو گیا؟ صرف میرے بیٹے کا وجود ہی نہیں بکھرا بلکہ میرا وجود بھی ریزہ ریزہ ہو گیا ہے ۔کیا وہ گھڑی قیامت سے کم تھی جب اس کی موت کی خبر ملی اور پھر میں پتا نہیں کیسے اپنے وجود کو گھسیٹتی سفید کفن میں لپٹے اسے دیکھنے اس تک پہنچ گئی تھی ۔ہاں مجھے یاد ہے جب پہلی بار پیدائش کے بعد اس کی شکل دیکھی تو میرے چہرے پر کتنے رنگ بکھرے اور میں کتنی خوش تھی اور آج میرے سامنے میرا بیٹا چپ سادھے لیٹا تھا جو بہت بولا کرتا تھا بہت سوال پوچھتا تھا ۔کاش مارنے والے ایک لمحے کے لیے میرے کرب کو محسوس کر سکیں۔ میرا کٹتا وجود دیکھ سکیں اور میری بے چینی ان کو نظر آئے۔ بھلا ان کو کیا پتا کہ بیٹا کیسے جوان ہوتا ہے اور مائیں کن ارمانوں سے بیٹے پالتی ہیں۔ آزادی منائی پوری قوم نے بھر پور طریقے سے منائی پر وہ ان 73 لاشوں کو بھول کر بھنگڑے ڈالتے رہے جن کو ابھی کوئٹہ میں وفات پائے ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا ۔سچ کہتے ہیں لوگ کہ جس تن لاگے سو تن جانے۔ ان معصوم بچوں کو کیا جواب دوں کہ ان کا باپ کبھی نہیں لوٹے گا وہ تو راہ عدم پہ چلا گیا اور مجھے اندر تک توڑ گیا ؟چھوٹے معصوم بچے پوچھتے ہیں کہ پاپا کب آئیں گے تو مجھ میں ہمت نہیں ان کا سامنا کرنے کی۔ کاش گولی کو معلوم ہوتا بارود کو پتا ہوتا کہ ہر مرنے والا اپنے گھر کے لیے کتنا قیمتی تھا اس سے کتنی زندگیاں جڑی ہوئی تھیں ۔کاش کوئی ایسا حکمران آئے کوئی ایسا منصف آئے جسے راہداریوں سے زیادہ اس دھرتی کے بیٹے عزیز ہوں ۔کاش وہ گارے مٹی کے بجائے زندہ انسانوں کی زیادہ حفاظت کریں کاش ان کو احساس ہو کی بوڑھے ماں باپ جوان بیٹے کی لاش کس اذیت سے وصول کرتے ہیں۔ کاش وہ یتیمی کو جان سکیں کہ کتنی خوفناک ہوتی ہے ۔ ایک ماں ہونے کے ناتے جانتی ہوں کہ ماں کا پیار کیا ہوتاہے وہ جوستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اس نے میرے بیٹے کو بہت پر سکون رکھا ہوا ہو گا ۔پر ہوں تو ایک کمزور انسان یہ دکھ بہت بڑا ہے اور برداشت بہت کم ۔اللہ میرے ملک کے بچوں کی حفاظت کرنا۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn