اعترافی بیان آخر میں کیوں دیتا؟ یہ بات وہ سارے سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ البتہ میں یہ سمجھ گیا تھا کہ حکومتی ایجنسیاں کسی سازش کے تانے بانے بن چکی ہیں اور چاہتی یہ ہیں کہ میں ان کی مرضی کے مطابق کردار قبول کر لوں تاکہ فوجی حکام مجھے استعمال کر کے اپنی سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے لئے مشکلات پیدا کر سکیں۔ سازش کیا تھی یہ معلوم نہیں مگر یہ جو بھارت جانے اور پیغام لانے کی باتیں میرے منہ میں ڈالنے کی کوششیں ہو رہی تھیں یہی بہت کچھ سمجھائے دے رہی تھیں۔ انہیں (فوجی حکام اور تفتیشی افسروں) کو امید تھی کہ تشدد اور اب جلد رہائی کی پیشکش میرے اندر ایسی کشمکش پیدا کر دے گی جس سے ان کا کام آسان ہو جائے گا۔جبکہ میرے سامنے واحد بات یہ تھی کہ جس کسی معاملے میرا کردار ہی نہیں تھا تو ان کی بات کیونکر مان لیتا۔ اچھا اگر مان بھی لیتا ہوں تو کیا زندگی شاہی قلعہ اور جیلوں کی دیواروں کے اندر ختم ہو جاتی ہے؟ ظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں۔ اس عقوبت خانے سے باہر کی دنیا میں میرے والدین، بہن بھائی، باقی کا خاندان، دوست احباب بسے ہیں۔ تو کیا رہائی کے لالچ میں ایک جھوٹی کہانی کا کردار بن کر باقی ماندہ زندگی بسر کی جاسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس ذات والا صفات نے مجھ سے عاجز کو استقامت عطا کی اور میں مارشل لاء حکام کے دام میں نہیں پھنسا۔ مجھے آج بھی یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر رب العالمین اور اس کے محبوب کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عنائیات نا ہوتیں تو شاہی قلعہ میں ہونے والا وحشیانہ تشدد برداشت کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ قربان جاؤں سیدہ عابدہ آمنہ سلام اللہ علیہا کے لعل ﷺ پرجنہوں نے میری ماں کی دعاؤں کے صدقے مصیبت کے دنوں میں دستگیری فرمائی اور میں ثابت قدم رہا۔ بھٹی اور اعوان جیسے کوڑھ مغز افسر یہ سمجھتے تھے کہ ایک جوڑا کپڑے اور برش پیسٹ اور میٹھے بولوں کے ساتھ رہائی کا لالچ دے کر وہ مجھ سے اپنی بات منوا لیں گے۔ مگر ہوا وہی جو میرے مالکِ ازلی کے کرم سے ہونا تھا۔
اعوان حالانکہ مجھے کہہ گیا تھا کہ منگل کو مجھے تفتیشی افسران بریگیڈئیر کے سامنے پیش کریں گے لیکن اچانک اتوار کی صبح (یعنی اگلے روز) تین چار اہلکار مجھے کوٹھڑی سے لینے آگئے۔ ہتھکڑی لگا کر انہوں نے مجھے کوٹھڑی سے نکالا اور تہہ خانے کے طرف لے کر چل دیئے۔ ایک لمحہ کے لئے تو دل بیٹھنے لگا کہ کیا ہونے والا ہے۔ پھر درود شریف کا ورد کرتے ہوئے مضبوط قدموں سے کوئی سوال کیے بغیر ان کے ساتھ چلتا رہا۔ چند منٹوں میں ہی ہم تہہ خانے والے اس ہال میں پہنچ گئے جہاں قبل ازیں تفتیش کے مراحل سے گزر چکا تھا۔ وہاں دو تین افرادپہلے سے موجود تھے۔ کوٹھڑی سے لانے والوں نے مجھے ان کے سامنے کھڑا کر دیا۔ کئی منٹ تک خاموشی رہی۔پھر پہلے سے وہاں بیٹھے ہوئے افراد میں سے ایک نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا’’دیکھو جوان! جو سوال ہو اس کا تسلی بخش جواب دینا ہے۔ اپنی کہانیاں نہ سنانے لگ جانا‘‘۔ ’’جی بہتر‘‘ میں نے کہا۔ تفتیش کے روایتی طریقہ کار کے مطابق انہوں نے نام ، ولدیت، تعلیم، ذریعہ آمدنی، خاندان، سیاسی نظریات، کس جماعت سے تعلق کے ابتدائی سوالات کیے۔ ایک آدمی سوال اور جواب لکھ رہا تھا۔ ابتدائی سوال و جواب کا مرحلہ مکمل ہوا تو پوچھا گیا’’کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اس کی مخالفت اور قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے باوجود ملک اور قوم کو بھٹو حکومت سے نجات دلوانے والی محسنِ پاکستان حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے اسی پیپلز پارٹی کے ساتھ جا کھڑے ہوئے؟ کتنے پیسے ملے تمہیں‘‘؟ میرا جواب تھا’’پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کی حکومت ایک منتخب جمہوری حکومت تھی۔ اس سے اگر اختلاف تھا تو اس بات پر کہ پاکستان کو ترقی پسند بنانے کے وعدے سے انحراف کیا اور حکومت نے ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے مذہبی عدم برداشت کا دروازہ کھلنے کے ساتھ وہی جاگیردار طبقہ مسلط ہوا جس کی بالادستی کے خاتمے کا وعدہ کر کے بھٹو صاحب نے طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ملک میں مارشل لاء لگانے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بالفرضِ محال اگر مارشل لاء کے نفاذ کے جوازکو درست بھی مان لیا جائے تو بھی عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ۹۰ دن میں انتخابات کروا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ میرے اس جواب پر سوال کرنے والے حضرت بھڑک اٹھے اور گالیاں عنایت کرتے ہوئے بولے ’’تو تمہارا مطلب ہے کہ یہ جاہل عوام جسے دین و دنیا کی کوئی خبر نہیں ایک منظم اور ملکی حفاظت کے ذمہ دار ادارے سے بہتر فیصلہ کر سکتی ہے‘‘؟ میں نے جواب دیا ’’عوام کیوں جاہل قرار پائیں گے؟ ملک عوام ہی بناتے ہیں‘‘۔ اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ’’لیکن تم نے ہمارے سوال کے جواب میں پوری بات نہیں بتائی۔ پیپلز پارٹی نے تمہیں کتنے پیسے دیئے اور یہ پیسے دینے والا کون تھا‘‘؟ ’’نہ تو پیپلز پارٹی نے مجھے کوئی پیسہ دیا نہ ہی میں نے خواہش کی‘‘ ۔’’اچھا چلو یہ بتاؤ جس رسالے میں تم کام کرتے تھے اسے سوویت یونین اور بھارت سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے کتنے پیسے ملتے تھے‘‘؟ ’’یہ الزام بھی غلط ہے‘‘ میں نے کہا۔ ’’بکواس بند کرو خنزیر کے بچے۔ ہمارے سوال کا جواب دو‘‘ وہ تڑخ کر بولا۔ ’’جواب ہی دے رہا ہوں ۔جو پوچھا جا رہا ہے اس کا جواب یہی ہے‘‘میں نے کہا۔ ’’تمہارے باپ میمن (رسالے کا مالک )نے مان لیا ہے کہ اسے سوویت یونین اور بھارت سے مالی امداد ملتی تھی‘‘اسی افسر نے کہا۔ ’’اگر میمن نے مان لیا ہے تو پھر مجھ سے سوال ہی غلط ہے۔اس لئے کہ میں اس کا ملازم تھا۔ اپنے کام کی تنخواہ لیتا تھا‘‘۔ ’’اچھا تو تم شرافت سے نہیں مانو گے‘‘؟ وہ افسر بولا۔ ’’مجھے جو معلوم ہے وہی کہوں گا۔ جو معلوم نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا درست نہیں ہوگا‘‘۔ ’’صحیح اور غلط کافیصلہ ہم کریں گے۔میمن نے اعتراف کیا ہے کہ سوویت یونین کے قونصل خانے سے ہرماہ پیسے تم لے کر آتے تھے‘‘اس افسر نے کہا۔ ’’تو میمن کو میرے سامنے لائیں‘‘۔ ’’الو کے پٹھے تمہارے نوکر ہیں ہم۔ ہمیں صرف اپنے سوالوں کا جواب چاہیے‘‘۔ ’’وہ میں دے چکا ہوں‘‘ میں نے کہا۔ایک دوسرا افسر بولا’’یہ ایسے نہیں مانے گا۔ بہت بڑا حرامی اور چالاک ہے۔ اس کی خدمت کرنا پڑے گی‘‘۔ ابھی اس کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ مجھے کوٹھڑی سے لانے والے اہلکار پاگلوں کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ مکے ، لاتیں، سوٹیاں، ’سارے ہتھیار‘ استعمال کئے جا رہے تھے۔ ان کے تشدد کے دوران میں ہال کے فرش پر گر گیاتو سوال کرنے والا افسر اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک ڈنڈا لے کر مجھے مارنے لگا۔ اسی دوران میں نے ایک آواز سنی ’’اوئے! اس حرام زادے کو ننگا کرو‘‘۔ تشدد چند لمحوں کے لئے روک کر انہوں نے میری قمیض اس طرح کر دی کہ گردن سے اس کے دونوں حصے میرے منہ پر آگئے اور شلوار اتاردی۔ اب میں آنکھوں کے آگے قمیض کے دونوں حصوں، دامن اور پچھلے حصے کے آجانے سے دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ تشدد کرنے والوں نے ایک بار پھر پرانا ہتھکنڈہ آزماتے ہوئے ننگے جسم پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے۔ کچھ دیر بعد کسی نے جسم کے نچلے حصے پر کوئی جلتی ہوئی چیز لگائی اور میں اپنی چیخ نہ روک پایا۔ درجن بھر گالیاں میری شان میں عطا ہوئیں۔اور ایک آواز سنائی دی ’’بھڑوے، کنجر، حرامی تم شرافت کی زبان نہیں سمجھتے‘‘۔ میرے لئے اس حالت میں بولنا بہت مشکل ہو گیا تھا اس لئے خاموش رہا۔ اس خاموشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی نے میرے جسم پر پھر کوئی جلتی چیز ایک ایک کر کے تین چار جگہ لگا دی۔ اس کے ساتھ ہی پھر ڈنڈوں سے پٹائی شروع ہو گئی۔ کافی دیر تک تو تشدد برداشت کرتا رہا پھر بے ہوش ہو گیا۔ ہوش میں آیا تو اسی ہال میں الٹا لٹکا ہوا تھا۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں الف ننگا ہوں۔ کیونکہ اگر قمیض میرے جسم پر ہوتی تو کم از کم اس کا اگلہ حصہ میرے منہ پر پڑا ہوتا مگر ایسا نہیں تھا۔ کچھ ہوش ٹھکانے آئے تو احساس ہوا کہ قمیض کے دونوں حصے میری چھاتی کے قریب بندھے ہوئے ہیں۔ جسم تشدد سے چور چور تھا۔ سردیوں کے اس موسم میں پیاس بہت شدید محسوس ہو رہی تھی۔ بہت مشکل کے ساتھ میں نے پانی طلب کرنے کی خواہش پر قابو پایا۔ کچھ دیر بعد ایک آواز سنائی دی ’’جو زیادہ بھونکتے ہیں ان کا انجام یہی ہوتا ہے۔ تمہیں کہا تھا سوال کا جواب دینا ہے تقریر نہیں کرنی۔ کتے کی اولاد تم ہمیں جمہوریت اور مارشل لاء کا فرق سمجھاؤ گے؟دو ٹکے کے حرامی‘‘۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn