’’پھر جب انہوں نے تمہاری والدہ کا ذکر کیا تو میں رہ نہیں سکا۔ اس ملاقات کی اجازت بہت مشکل سے ملی۔ مجھے امید ہے کہ تم اپنے والدین کی پریشانی اور خصوصاََ والدہ کی بیماری کو ذہن میں رکھو گے اور تفتیش کرنے والوں سے پورا پورا تعاون بھی کرو گے تاکہ ہم تمہیں جلد از جلد رہا کروا سکیں۔دیکھو جاوید! اپنے ماں باپ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور انعام ہوتے ہیں۔ جو اپنے والدین ہوسکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں۔ یہ بڑے لوگ مطلب کے لئے کسی کو بیٹا بیٹی کہتے ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو لاکھ تمہیں یا کسی اور کو میرا بیٹا میرا بیٹا کہیں مگر کبھی اپنے سگے بیٹوں مرتضیٰ اور شاہنواز والا مقام نہیں دیں گی۔ دو ماہ سے زیادہ ہوگئے تمہیں گرفتار ہوئے کسی نے تمہاری خبر لی؟ پیپلز پارٹی یا بیگم بھٹو نے کسی وکیل کے ذریعے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ میرا بیٹا گرفتار ہوا تو وہ کہاں ہے؟ یہ سب مطلب پرست لوگ ہیں۔ انہیں چھوڑو۔ جو تمہیں معلوم ہے وہ صاف صاف بتا دو اور ان لوگوں کے بارے میں بھی تفصیل کے ساتھ بتا دو جو تمہیں بھارت لیجانے کے ذمہ دار تھے۔ وہاں کس سے ملاقات ہوئی۔ بیگم بھٹو کے لئے جو پیغام دیا گیا وہ تم نے پاکستان واپسی پر کس کے حوالے کیا؟ یقین کرو جیسے ہی تم صاف صاف ساری باتیں بتا دو گے تمہاری رہائی کے لئے سب سے پہلے میں اعلیٰ حکام سے بات کروں گا۔ اب بھی جب انہوں (اعلیٰ حکام) نے تم سے ملاقات کی اجازت دی تو مجھ سے وعدہ کیا گیا کہ اگر تم میری بات مان لیتے ہو تو سارے مجرموں کی گرفتاری کے بعد ایک ماہ کے اندر تمہیں رہا کردیا جائے گا‘‘۔ حیرانی کے ساتھ بھٹی کی باتیں سنتا رہا۔ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔بھٹی خاموش ہوا تو اعوان کہنے لگا’’شاہ جی! میں نے اپنی ساری ملازمت میں اتنا خدا ترس اور غریب پرور افسر نہیں دیکھا۔ بھٹی صاحب اچھے نیک اور رحم دل افسر ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔ تمہارے معاملے میں ان کی ذاتی دلچسپی ان کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔ ورنہ ان حالات میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ تمہارے والدین کی کوئی نیکی کام آگئی جو ان کے خاندان کے ساتھ تمہارے خاندان کے مراسم نکل آئے۔ کرنل صاحب (کرنل لغاری) بھی ایک ایسے سابق فوجی افسر کے بیٹے کے لئے دل میں بہت درد رکھتے ہیں جو حضرت مودودی کا ذاتی دوست تھا۔ سب چاہتے ہیں کہ تم رہا ہو کر اپنے گھر چلے جاؤ‘‘۔ میں قربانی کے بکرے کی طرح قربانی سے پہلے پڑھی جانے والی دعا سن رہا تھا۔ ان دونوں خصوصاََ بھٹی کا میٹھا محبت بھرا انداز اور رویہ نئی بات تھی۔ حالانکہ ملتان میں جب میری گرفتاری کے بعد جو تفتیشی ٹیم تھی بھٹی اس کا سربراہ تھا۔ سعادت اللہ خان ایس ایس پی ملتان اور ایک کرنل اس ٹیم کا حصہ تھے۔ گرفتاری کے بعد جو سوالات اس ٹیم نے کئے اور بھٹی کی موجودگی میں جو تشدد مجھ پر ہوا اس پر کرنل نے تو ایک بار کہا تھا ’’تسی منڈے نوں مارن لگے او(تم لوگ لڑکے کو مار دیناچاہتے ہو۔) یہ اچھا نہیں ۔ ہم نے اس سے تفتیش کرنی ہے اسے جان سے نہیں مارنا۔ یہ نہ تو ہمارا ذاتی دشمن ہے اور نہ غیر ملکی ایجنٹ‘‘۔ اسی طرح ایس ایس پی ملتان سعادت اللہ خان کا رویہ بھی مناسب تھا۔ دوسرے پولیس افسروں کی طرح اس نے مجھے کبھی گالی نہیں دی۔ جب بھی سوال کرتا بہت عزت کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے کہتا ’’ہاں بھئی سید صاحب!‘‘ مگر یہ بھٹی نام کاآئی بی کا افسر ملتان میں دورانِ تفتیش فرعون بنا ہوا تھا۔ اس کے حکم پر آئی بی کے اہلکاروں نے مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے۔ مگر اب یہ میرا سگا بنا کوٹھڑی سے باہر جنگلے کے دوسری طرف کرسی پر بیٹھا اس طرح باتیں کر رہا تھا جیسے یہ مجھ سے میرے والد سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ اعوان نے ایک بار پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’شاہ جی! کیا سوچ رہے ہو؟ اس سے بہتر چانس تمہیں نہیں مل سکتا۔ اچھی طرح سوچ لو۔ بریگیڈئیر صاحب نے تمہیں سوچنے کے لئے دو دن دیئے ہیں۔ کہو گے تو ایک دن اور مل جائے گا تاکہ تم خوب اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو اور پھر اپنا تحریری بیان لکھ دو‘‘ بھٹی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’جاوید کوئی پابندی نہیں وقت اور دنوں کی۔ تم اچھی طرح غور کر لوتو اعوان کو بتا دینا کہ تم بیان دینا چاہتے ہو۔ میں خود ملتان سے آکر تمہارے بیان کے وقت موجود رہوں گا۔ تاکہ تمہیں تسلی ہو کہ جو وعدہ میں نے کیا ہے تمہار ے والد اور اب یہاں تم سے وہ پورا ہو گا‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔بھٹی نے روانگی سے قبل مجھے کپڑوں کا ایک جوڑا اور برش و ٹوتھ پیسٹ دیتے ہوئے کہا ’’یہ تمہارے والد صاحب لائے تھے‘‘ کتنا جھوٹا تھا۔ کپڑوں کا یہ جوڑا میرے سامان میں تھا۔ میں ملتان میں رہتا ہی نہیں تھا تو گھر پر میرے کپڑوں کا ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ ٹوتھ پیسٹ اور برش البتہ نئے تھے۔ میں نے سوچا کیا پتہ ابو کوباقی سامان دے دیا گیا ہو اور انہوں نے کپڑے میرے لئے بھجوا دیئے ہوں۔ بھٹی کے ملاقات پر آنے کا یہی فائدہ ہوا کہ پچھلے دو ماہ سے ایک ہی جوڑا پہنا ہوا تھا۔ کم از کم اب کپڑوں کے دو جوڑے تو ہو گئے ۔ اسی طرح پیسٹ اور برش بھی مل گیا تو چلو کچھ تو قیدی کا بھلا ہوا۔
ان دونوں کے جانے کے بعد ایک بار پھر تنہائی نے آن لیا۔ پہلی بات جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ کم از کم اب مجھے مزید دو تین دن کوئی تفتیش کے لئے نہیں بلائے گا۔ یعنی جب میں اعوان کو اپنی رضا مندی دوں گا تو مجھے کوٹھڑی سے اعترافی بیان کے لئے باہر نکال کر دفتر لیجایا جائے گا۔ ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ اعوان واپس آیا اور اس نے مجھے ایک جرسی دیتے ہوئے کہا’’بھٹی صاحب یہ اوپر دفتر میں بھول آئے تھے۔ وہ لائے ہیں تمہارے لئے‘‘ شکریہ کہہ کر میں نے جرسی رکھ لی۔ لنڈے کی تو نہیں لگتی تھی پھر بھی نجانے اسے پہننے کو کبھی دل نہیں مانا۔ البتہ دوپہر کے وقت میں نے نہا کر کپڑے ضرور تبدیل کر لئے۔ جب سے شاہی قلعہ آیا تھا یہ پہلا دن تھا جب مجھے برش کرنا اور دھلے ہوئے کپڑے پہننا نصیب ہوا تھا۔ اس لئے ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہورہا تھا۔ پھر میں بھٹی اور اعوان کی چکنی چپڑی باتوں اور میٹھے میٹھے مشوروں کے بارے میں سوچنے لگا۔ اتنی سی بات تو میری سمجھ میں آچکی تھی کہ آئی بی والوں نے میری گرفتاری کے بعد جو کہانی گھڑی تھی اسے مکمل کروانا چاہتے تھے۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ میں ان کی مرضی کے مطابق اعترافِ جرم کر کے ایک ایسا بیان دوں جو حکومت بیگم نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کرسکے۔ البتہ میں خوداپنے آپ سے یہ دریافت کر رہا تھا کہ اگر میں ان کی بات مان کر کوئی بیان دے دیتا ہوں تو کیا میری غلط بیانی بذاتِ خود ایک سنگین جرم نہیں ہوگی؟ میرے اندر کا انسان مجھے سمجھا رہا تھا کہ یہ تمہیں پھنسا رہے ہیں۔ رہائی وغیرہ کی باتیں طفل تسلیاں ہیں۔ یہ سوال بھی تھا کہ میری غلط بیانی سے پیدا ہونے والے مسائل زندگی بھر میرا تعاقب نہیں کریں گے؟ میں جھوٹا بیان دے کر اپنے لئے لعنت کا طوق کیوں خریدوں؟ اس رات بہت دیر تک جاگتا اور سوچتا رہا۔ بلآخر میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ مجھے بھٹی وغیرہ کی بات نہیں ماننی چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اس فیصلے پر پہنچ کر مجھے اطمینان حاصل ہو گیا جس کے بعد نیند کی دیوی مہربان ہوئی اور صبح تک سوتا رہا۔ درمیان میں دوبار اپنی زندگی کا ثبوت دینے کے لئے تبدیل ہونے والے سنتری کی آواز پر جواب دینا پڑا۔ اگلی صبح لانگری بھیا ناشتہ لے کر آیا۔ ناشتہ کیا تو سنتری کو کہہ کر سگریٹ لگوایا اور دھوئیں کے مرغولے بنانے لگا۔ کافی وقت گزر گیا تو شاہی قلعہ والا ڈاکٹر راؤنڈ پرآیا۔اس نے میرا معائنہ کیا اور فٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بخار وغیرہ مکمل طور پر اتر گیا ہے۔ اب مزید ادویات کی ضرورت نہیں۔ زخم بھی تقریباََ بھر چکے ہیں۔ اللہ کا شکرادا کیا کہ دوائیوں سے جان چھوٹی۔ اب پھر تنہائی تھی اور یادیں۔ بھٹی کے مشورے پر دل و دماغ گزشتہ شب اپنا فیصلہ صادر کر چکے تھے۔ میں اس فیصلے پر عمل کا ارادہ کر چکا تھا اس لئے اس بارے پھر سوچنا فضول تھا۔ دوپہر سے پہلے اعوان نے ایک چکر لگایا اور مجھے بتایا کہ منگل کو میرا اعترافی بیان لیا جائے گا۔ ’’آج کیا دن ہے‘‘ میں نے پوچھا۔ اعوان بولا’’ہفتہ‘‘ ’’چلو ابھی میرے پاس دو دن آج کے علاوہ اور ہیں۔ اللہ مہربانی کرے گا‘‘۔ اعوان نے مسکراتے ہوئے کہا ’’شاہ جی اللہ تو مہربان رہتا ہی ہے اپنی مخلوق پر۔ مخلوق کا بھی فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلے‘‘۔ ’’جی بہت بہتر اعوان صاحب‘‘ میں نے کہا اور وہ واپس چلا گیا۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn