دو دن ملے سوچنے کے لئے۔ سوال یہ تھا کہ آخر ایسے جرم کا اقراری کیونکر ہوا جائے جو سرزد ہی نہیں ہوا۔ لیکن اس سوال کا جواب کون دیتا۔ تفتیشی افسران کا رویہ اور اب تک جن حالات سے گزر آیا تھا دونوں اس بات کے شاہد تھے کہ وہ میرے منہ سے اپنی مرضی کی کہانی نکلوانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک مارشل لاء حکومت کی مخالفت کوئی جرم نہیں تھا۔ اصلی جرم یہ تھا کہ ایک منتخب حکومت امریکی سازش کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جنرل ضیاء الحق اور قومی اتحاد والے اس سازش کے کردار تھے۔ یہاں میری سننے والا کون تھا۔ کوئی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ذہنی مریض تفتیشی افسروں کے روپ میں موجود تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی حکومت کے مخبروں اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی رپورٹوں پر جو مقدمات میرے خلاف درج تھے ان کی مشترکہ سماعت بھی کسی فوجی عدالت میں کر لی جاتی تو زیادہ سے زیادہ دو چار سال کی سزا ہو جاتی۔ سزا کا خوف تو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ میری سمجھ میں ان کی کہانی نہیں آرہی تھی جو وہ میرے اقراری بیان کی صورت میں طلب کر رہے تھے۔ان تفتیشی افسروں کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ان کے پاس میرے بارے میں مکمل اور مفصل معلومات ہیں۔ یقیناََ ہوں گی۔ لیکن کیا ان معلومات میں انہیں میرے سیاسی و نظریاتی پسِ منظر بارے کچھ نہیں تھا یا کسی اہلکار نے شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری میں کچھ ایسی باتیں لکھ دی تھیں جنہیں تفتیشی افسران اپنی تفتیش کا مرکزی نکتہ بنا چکے تھے۔ جو بھی تھا اب مجھے بھگتنا تھا۔ کیا وہ پہلے سے بھی بدترین تشدد کریں گے؟ میری خستہ حالت مزید تشدد برداشت کر پائے گی؟ یہی باتیں تھیں جو ان دو دنوں میں سوچتا رہا یا پھر اپنے پیاروں کو یاد کرتا رہا۔ جیل یا حوالات میں انسان بیرونی تعاون حاصل کر لیتا ہے۔ ایک تو شاہی قلعہ اوپر سے قیدِ تنہائی۔ سوچتے اور کڑھتے رہنے کے سوا بندہ اور کربھی کیا سکتا ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کی شاندار بلکہ سکہ بند کارکردگی کا مجھے اندازہ ہوگیا تھا۔ جس کسی نے بھی میرے بارے کوئی کہانی گھڑی تھی یہ لوگ اب اس کہانی میں رنگ بھرنا چاہتے تھے۔ مگر میں اس میں کیا کرسکتا ہوں۔ اچھا اگر ان کی بات مان کر اقرار کر بھی لیتا ہوں تو بھی کہانی کرداروں کے بغیر کیسے مکمل ہو گی؟ میں تو کسی کوجانتا تک نہیں۔ بھارت کبھی گیا نہیں۔ البتہ 1975 میں افغانستان اور اسی سال ایران بھی گیا تھا۔ دونوں ممالک جانے کا سامان یوں ہوا کہ ایران کا مطالعاتی دورہ کراچی کے ایرانی قونصل خانے نے مرتب کیا تھا۔ غالباََ پندہ سے بیس افراد تھے۔ صحافی، طالب علم، سیاسی کارکن اور کچھ کاروباری لوگ۔ جبکہ افغانستان کچھ دوست ہفتہ بھر کی سیر کے لئے گئے تھے۔ میں اس گروپ میں شامل تھا۔ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے دوستوں نے اس معاملے میں بہت تعاون کیا۔ اس کے علاوہ تیسرا ملک میرا اپنا پاکستان تھا۔ تقریباََ دیکھا بھالا ہوا تھا۔ یہ بھارت جانے، دہلی میں کسی سے ملنے، ہفتہ دس دن کے قیام اور بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کے لئے کوئی پیغام لانے والی بات صریحاََ غلط تھی۔ اچھا اگر پیپلز پارٹی یا بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے کسی کو بھارت بھیجنا بھی تھا تو کیا ان کی اپنی جماعت میں دیکھے بھالے وفادار لوگ نہیں تھے کیا جو وہ مجھے بھیجتے؟ یہ بھی ایک سوال تھا کہ مجھے بھیجتے ہی کیوں؟ لیکن فوجی حکام تو کوئی بات سننے کے روادار ہی نہیں تھے۔ اگر یہ سوال تھا کہ جدوجہد کے مالک میمن کو کوئی بیرونی فنڈ ملتا تھا تو اس کا جواب تو وہی دے سکتے تھے۔ میں ان کے رسالے میں سب ایڈیٹر کے طور پر آیا تھا۔ پھر طیب رفیق چھوڑ کر بیرونِ ملک چلے گئے تو میمن نے مجھے یہ کہہ کر ایڈیٹر بنا دیا کہ مجھے امید ہے تم سنبھال لو گے۔ ہم نیا ایڈیٹر کیوں لائیں؟ مجھے خوشی یہ تھی کہ رسالے کی پیشانی پر ایڈیٹر کے طور پر نام شائع ہونے لگا تھا۔ کسی بھی کارکن صحافی کے لئے اخبار یا جریدے کا ایڈیٹر بننا زندگی کا خواب ہوتا ہے۔ میرا خواب وقت اور تجربے سے بہت پہلے پورا ہو رہا تھا تو میں کیوں انکار کرتا؟ ان خوابوں اور تعبیروں کی جو قیمت اب شاہی قلعہ میں چکانی پڑ رہی تھی اسے برداشت تو کر رہا تھا مگر حیران بھی تھا کہ جو ہوا نہیں اسے تسلیم کر لوں؟ کرنل لغاری کے دفتر میں پیشی بھگت کر کوٹھڑی میں واپس آیاتو بہت دیر تک سوچتا رہا دو دن بعد کیا ہوگا؟ یہ لوگ جب اقرار نہیں کروا سکیں گے تو کیا سلوک کریں گے؟ یہی سوچتے ہوئے میری آنکھ لگ گئی۔ کتنی دیر سویا ہوں گا یہ نہیں پتہ البتہ اپنے نام کی آوازوں نے اس نیند سے بیدار کیا۔ کوٹھڑی کے باہر اعوان کے ساتھ آئی بی کا ایک افسر جمیل بھٹی کھڑا تھا۔ اعوان کہنے لگا’’دیکھو شاہ جی تمہیں کون ملنے آیا ہے‘‘۔’’جانتا ہوں۔ انہوں نے ہی مجھے گرفتار کیا تھا اپنے مخبر کی نشاندہی پر‘‘میں نے جواب دیا۔ بھٹی نے بڑی محبت سے مجھے جنگلے کے پاس بلایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا’’یہ تم نے کیا حال بنا لیا ہے‘‘؟ اتنا ہی کہہ سکا’’اس کے ذمہ دار آپ ہیں‘‘۔ اتنے میں دو ملازم کرسیاں لئے ہوئے آگئے۔ انہوں نے کرسیاں جنگلے کے باہر رکھ دیں۔ بھٹی اور اعوان ان پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد بھٹی نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا’’دو تین قبل تمہارے والد صاحب ملے تھے۔ دفتر آئے گے۔ کہہ رہے تھے۔ جاوید بچہ ہے۔ ممکن ہے اس سے غلطی ہوئی ہو۔ آپ میری طرف سے اسے سمجھائیں تاکہ وہ جلد رہا ہو کر گھر واپس آجائے‘‘۔میں نے سوال کیا’’ابو سعودی عرب سے کب آئے؟‘‘(میرے والد فوج سے جبری ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعدپاکستان چھوڑ کر ملازمت کے لئے سعودی عرب چلے گئے تھے۔ میری گرفتاری کے وقت بھی وہ سعودی عرب ہی تھے) ’’بس چند دن قبل ہی واپس آئے ہیں۔ دو تین دن قبل مجھ سے ملنے آئے تھے۔ صدیقی صاحب(عقیل صدیقی، یہ موصوف جماعتِ اسلامی ملتان شہرکے امیر تھے)بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے تمہاری گرفتاری کی وجہ اور دوسری باتیں دریافت کیں۔ بہت دکھی تھے اس بات پر کہ ان کا بیٹاپیپلز پارٹی کے لئے کام کرتا ہے‘‘۔ میں نے کہا’’بھٹی صاحب آپ تو جانتے ہیں کہ تھانہ حرم گیٹ میں درج ایف آئی آر جس میں مجھے گرفتار کیا گیا ہے وہ ایک رسالے میں لکھے گئے مضمون کی بنیاد پر درج کی گئی۔ رسالے کا سالانہ خریدار بھٹہ آپ کا مخبر ہے۔ بھٹہ بھی مجھے اچھی طرح جانتا ہے کہ میں کبھی پیپلز پارٹی میں نہیں رہا‘‘۔ ’’ہاں ہاں مجھے معلوم ہے۔ لیکن شیعہ ہو یا کیمونسٹ، ان دونوں کے اندر سے پیپلز پارٹی اور بھٹو کی محبت نہیں نکلتی‘‘۔ میں نے جواب دیا’’میں شیعہ نہیں سید ہوں اور کیمونسٹ بھی نہیں‘‘۔’’معلوم ہے‘‘ اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا’’تم شیعہ نہیں لیکن اپنے نظریات کی بدولت شیعوں سے قریب تر ہو۔ پھر اس وقت فوجی حکومت کے مخالفین کون ہیں؟شیعہ، ترقی پسند کہلانے والے، قوم پرست اور کیمونسٹ یا پیپلز پارٹی۔ اب جو بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گا انہیں میں شمار ہوگا‘‘۔ بھٹی بولا۔ پھر خود ہی کہنے لگا’’یہ کیا باتیں شروع کر دی ہیں۔ میں تو یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تمہارے والد صاحب سابق فوجی افسر اور میرے بڑے بھائی کے دوست ہیں۔ بخاری صاحب (میرے والد) کی پریشانی مجھ سے دیکھی نہیں گئی۔ اس لئے میں نے اعلیٰ حکام سے درخواست کی کہ مجھے جاوید سے ملنے دیا جائے میں اسے سمجھا لوں گا‘‘۔ ’’جی بہتر۔ چلیں آپ ہی سمجھا لیں۔ ویسے ان لوگوں نے بھی سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘‘۔ میں نے اپنی گردن، ماتھے اور ٹانگ کے زخم اسے دکھاتے ہوئے کہا۔’’یہ مصیبت تم نے خود مول لی۔ میں نے تو جب ملتان سے تمہیں لاہور لے جار ہے تھے یہ کہا تھا کہ میں نے تو رعایت کی لیکن شاہی قلعہ میں کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ جتنا تعاون کرو گے اتنا فائدہ ہوگا‘‘۔ ’’مگر بھٹی صاحب میں کیا تعاون کروں؟ آخر ایسا کون سا جرم میں نے کیا ہے جو مجھے تو معلوم نہیں لیکن ایجنسیوں کے معلوم ہے زیر زبر پیش کی تفصیلات کے ساتھ‘‘؟ میں نے سوال کیا۔ بھٹی نے کہا’’دیکھو جاوید ! ایجنسیوں کی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے والے بہت باصلاحیت لوگ ہوتے ہیں۔ تم بھی بچے نہیں ہو۔ ایک رسالے کے ایڈیٹر ہو اتنا تو تم جانتے ہی ہو کہ حکومت اور اس کے اداروں کے وسائل اورمعلومات کے ذرائع ایک عام آدمی کے مقابلہ میں کروڑ ہا درجہ زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے اپنے جھوٹ پر اڑے رہنے اور بلاوجہ تشدد برداشت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ تمہارے والد صاحب بتا رہے تھے کہ تمہاری گرفتاری اور شاہی قلعہ بھجوانے کی خبر نے تمہاری والدہ پر بہت برا اثر مرتب کیا ہے۔ وہ شدید بیمار ہیں۔ بخاری صاحب چونکہ میرے بڑے بھائی کے دوست ہیں اس رشتے سے میں تمہارا بزرگ ہوں۔ اسی لئے یہاں آیا ہوں ورنہ حکومت کے کسی ایسے مخالف جس کے بارے میں معلومات ہوں کہ وہ بھارت کے لئے کام کر رہا ہے سے کوئی اپنا رشتہ یا تعلق تسلیم نہیں کرتا‘‘۔ ’’بڑی مہربانی کی آپ نے۔ میں احسان مند ہوں۔ پہلے مجھے گرفتار کیا اور اب ملاقات کے لئے بھی آئے‘‘۔ اس (بھٹی نے) میری بات کاٹتے ہوئے کہا ’’بخاری صاحب کی پریشانی دیکھی نہیں گئی‘‘
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn