زندان کی چیخ ۔تیسویں قسط
جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کی تاریخ کو جس طور تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری و ساری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں تحریف کی ان وارداتوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دستیاب تاریخِ مسلمانان کے ساتھ ماضی میں کیا ہوتا رہا۔ شامی، قریشی خلفیہ اور ان جیسے دوسرے ’’نابغے‘‘ تو محمود عباسی نامی اس محقق کے تلامذہ میں شامل ہیں جس نے کربلاکی تاریخ لکھتے ہوئے آیاتِ قرآنی اور احادیث کے ساتھ دیدہ دلیری سے دو دو ہاتھ کر ڈالے۔ اس کی بدبودار تحقیق اور مغالطوں کو سر پر اٹھائے پاکستان میں ایک طبقہ پچھلے 31 سالوں سے فساد برپا کئے ہوئے ہے۔ مجھ سے طالب علم کو حیرانی ہوتی ہے جب قرآنی آیات اور احادیث سجا کر کالم لکھنے والے جھوٹ کے دفتر لکھ مارتے ہیں۔ ان میں یہ حوصلہ تو ہے کہ وہ ایک ظالم او جابر اور خائن جنرل کو ’’فاتح‘‘ قرار دے کر اس کی سوانح عمری لکھ ماریں لیکن ان کی غیرت ایمانی کبھی انہیں جوش نہیں دلواتی کہ وہ اپنے روحانی گرو گھنٹال جنرل ضیاء الحق کے عہدِ ستم میں سیاسی مخالفین پر توڑے گئے مظالم کے بارے دو سطریں بھی لکھ دیں۔ بھٹو صاحب سے اپنی والہانہ محبت کے باوجود تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ان کے دورِ اقتدار کی بعض پالیسیوں اور بالخصوص طبقاتی بالادستی کی پشت پناہی کی طرف سے آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں۔ کبھی بھی یہ نہیں سمجھا کہ ذوالفقار علی بھٹو میں خوبیاں ہی خوبیاں تھیں۔ انسان تھے وہ بھی گوشت پوست کے انسان۔ خامیاں خوبیاں دونوں تھیں ان کی ذات میں۔ ولی کامل یا آسمانی اوتار نہیں تھے۔ ان کے دور میں بھی مخالفین کے ساتھ کوئی رعائیت نہیں برتی گئی۔ دیانتداری کا تقاضہ یہ ہے کہ بھٹو صاحب کے دور کا تجزئیہ کرتے ہوئے صرف ان کے طرزِ عمل اور اقدامات کو ہی ہدفِ تنقید نہ بنایا جائے بلکہ ان کے مخالفین نے ان کے خلاف جس زبان دانی اور کلام شانی کا مظاہرہ کیا اسے بھی مدِ نظر رکھا جائے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ بھٹو مخالف نام نہاد اسلام پسندوں نے انہیں ہر وہ گالی دی جو انہیں تربیت میں ملی تھی۔ ہندو عورت کا بیٹا، کافر، ہندوؤں اور یہودیوں کا ایجنٹ، اسلام کا دشمن۔ اسلامی صحافت و سیاست کے علمبرداروں نے کیا نہیں کہا اور کیا نہیں لکھا۔ شامی اور قریشی سلہری و صلاح الدین سمیت اس دور کے نامور اسلام پسند صحافیوں نے دنیا کا ہر عیب بھٹو صاحب کی ذات میں جمع کر کے دیکھایا۔ جولائی 1977ء میں مارشل لاء لگا تو ان ’’اسلامی حلال زادوں‘‘ کو قرار آگیا۔ کیا ہم بھلا دیں کہ جامعہ اشرفیہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے جو غالباََ اس جامعہ کے بانیان میں شامل تھے ، روزنامہ جنگ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو اسلامی چھتری فراہم کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اسلام میں سب سے پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لگایا تھا۔کیسے کیسے نابغے نہیں بھگتے اس ملک اور عوام نے۔ کس کس کا ذکر کیا جائے۔ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے مولانا ظفر احمد انصاری کو تو جنرل ضیاء الحق کا دور خلافتِ راشدہ کا تسلسل دیکھائی دیتا تھا۔ کہاں خلیفہ راشدین جیسی عظیم شخصیات اور کہاں چڑی مار ضیاء الحق۔ بدقسمتی سے اس ملک کے مذہبی طبقات بھی بالادست طبقات سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی طرح بددیانت ومنافق ہیں۔ دونوں نے ہر دور کے آمر کو الٰہی نمائندہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کیا یہ کڑوا سچ نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے ایما پر کراچی سے جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو دیس نکالا دلوانے کے لئے ان کے ممدوح اور سندھ کے وزیراعلیٰ سید غوث علی شاہ نے ایم کیوایم بنوائی؟ بھٹو اور اس جمہوریت سے جنرل ضیاء الحق کی نفرت اور اس کی بی ٹیم جماعت اسلامی کے بغض کی آگ اب بھی کچھ بونوں کے اندر بھڑک رہی ہے۔ ان کی اسلام پسندی اور اسلامی صحافت یہ ہے کہ بھٹو دور میں پنجاب پولیس میں بھرتی ہونے والی عفت مآب بچیوں کو’’پولیس کی نتھ فورس‘‘ کہا اور لکھا۔ بلکہ یہاں تک ہوا کہ کہا گیا کہ یہ لیڈی پولیس والیاں بازار(بازارِ حسن) سے لائی گئی ہیں۔ یہ المیہ ہی ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان اور پھر 1970 کے بعد کی پاکستان کی مربوط تاریخ نہیں لکھی گئی۔ ستم بالائے ستم جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سال پر پھیلا دورِ اقتدار ہے جس میں ریاستی تعاون سے ساری تاریخ کی ایسی تیسی پھیر دینے والے بونے دندناتے پھرے۔ بھٹو صاحب سے یقیناََ غلطیاں سرزد ہوئیں۔ لیکن جس طرح بھٹو کو مجسم برائی اور فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو فرشتہ صفت بنا کر پیش کرتے پھرتے رجعت پسندبوزنوں کے ظرف کا معاملہ ہے تو اسے شام چوراسی سے آئے صحافتی سرخیل مجیب الرحمان شامی کی اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے جو انہوں نے چند دن قبل کی۔ فرماتے ہیں کہ دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو لاہور ایک جنت کی طرح لگتا ہے۔ زندہ لوگوں اور عذاب بھگتتے شہریوں کی آنکھوں میں جوتوں سمیت اترنے کی اس کوشش سے اندازہ لگا لیجئے کہ ضیاء الحق قبیلہ بھٹو دور کی تاریخ لکھتے ہوئے کیسی کیسی ڈنڈی نہیں مارتا ہو گا۔ بھٹو دور کو ہٹلر کا دور قرار دینے والے ان رجعت پسندوں کی زبانوں کو تالے لگ جاتے ہیں جب ان کے آقا ضیاء الحق کے دور میں لاہور شاہی قلعہ، پشاور کے قلعہ بالاحصار، لاہورمیں سی آئی اے سٹاف چونا منڈی، ملتان کے تھانہ حرم گیٹ، عظمت واسطی روڈ پر انٹیلی جنس بیورو کے بوچڑ خانے، سی آئی اے سٹاف ملتان، کراچی میں کورنگی کریک کیمپ کے بدنامِ زمانہ تفتیشی مراکز میں جمہوریت پسند زمین زادوں پر رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم کی بات ہوتی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دورِ اقتدار اس ملک کے ماتھے پر بدنما داغ کے طور پر قیامت تک قائم رہے گا۔ اس دور میں جس طرح چادروچاردیواری پامال ہوئی، خواتین سیاسی کارکنوں پر کورنگی کریک کیمپ اور لاہور کے شاہی قلعہ میں جو وحشیانہ مظالم ڈھائے گئے وہ اسی تاریخ کا شرمناک باب ہیں۔ ہمارے اسلام پسندوں کی منصورہ شاخ والے جنرل ضیاء الحق کے عہدِ ستم کو بھی ایک طرح سے خطائے اجتہادی کی سند دلوانے کے لئے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔ معاف کیجئے گا ہم خطائے اجتہادی کی آڑ میں ہوئی وارداتوں کے عذاب بہت بھگت چکے۔ تاریخ کو تاریخ ہی رہنے دیجیئے۔ اسے عقیدوں اور سیاسی نظریات کی سان پر چڑھانے کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ جنرل ضیاء کا دور سفاکی اور بربریت میں اپنی مثال آپ تھا۔فرقہ واریت، لسانی تعصبات، عسکریت پسندی کے جنوں کو ریاست نے پورے اہتمام کے ساتھ بوتل سے باہر نکالا اور ہلہ شیری دی۔ اپنے روحانی گوروگھنٹال جنرل ضیاء الحق کے جرائم کی بات آتی ہے تو من پسند رنڈی رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان کو امریکہ کے لئے کرائے کا قاتل بنانے میں تین فوجی آمروں کا کردار ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ ایوب خان تو باقاعدہ سی آئی اے سے ماہوار حقِ خدمت لیتے رہے۔ جنرل ضیاء کے والد فوج میں پیش نماز تھے۔ ان کی اولاد کی بے حساب دولت لوٹ ماراور امریکی غلامی کی خدمت ہی ہے۔ کس نے اوجڑی کیمپ کا اسلحہ فروخت کیا۔ افغان مزاحمت کاروں (میرے نزدیک اس وقت کی افغان حکومتوں کے باغی) کے لئے امریکہ اور عالمی برادری کا فراہم کردہ جدید اسلحہ عراق کو کس نے فروخت کیا اور پھر جب بات دنیا پر کھلی تو کس نے اوجڑی کیمپ کو جلانے کی سازش رچائی؟ ڈال دیجیئے یہ بھی ذوالفقار علی بھٹو پر جیسےایک خلیفے نے جنرل ضیاء دور کا سانحہ کالونی ملز ملتان بھٹو پر ڈال دیا ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں منظم منصوبے کے تحت بھٹو صاحب بارے نفرت آمیر پروپیگنڈہ ہوا۔ اپنی اسیری کے دوران میں اسی نفرت کا نشانہ بنا۔ انسانیت سوز تشدد برداشت کیا۔ ضیاء کے عہد ستم میں اس ملک میں ریاست نے جن جرائم کا ارتکاب کیا کونسا مذہب اور نظام اس کو تائیدی سند عطاکرے گا؟ اس دور کے مظالم کو مردانہ وار برداشت کرنے والی نسل کے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ تاریخ سے بلاد کار کے شوقین ایجنسیوں کے میر منشی ہوں یا دوسرے رجعت پسند یکطرفہ ٹریفک چلانے کی ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ تاریخ کے اپنے اصول ہیں۔ آدمی اپنا جج نہیں ہوتا۔ تاریخ منصفِ اعلیٰ ہوتی ہے۔ اس کے انصاف سے کوئی فرار نہیں۔ یہ بات کسی کو بھی نہیں بھولنی چاہیے
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn