’’کسی سیاسی اجتماع میں تاریخ و سیاسیات کا ایک طالب علم بطورمقرر کیا گفتگو کر سکتا ہے۔ یہی جو میں نے کی اور آپ کے مخبروں کی روپورٹ پر مقدمات درج ہوئے۔‘‘ میجر کی تسلی نہیں ہوئی۔ یا تو حضرت چغد تھے ۔ نہیں تھے تو بنارہے تھے۔ ایسا ہے تو اچھے اداکار تھے۔ لیکن اس کے ہر احمقانہ سوال پر مجھے یقین ہو جاتا کہ میجر صاحب بس صاحب ہی ہیں۔ مثلاََ گھنٹہ بھر سے زیادہ سوال جواب کے بعد اچانک بولا،’’تمہاری سنتیں ہو چکی ہیں‘‘؟ ’’کھول کر دکھاؤں‘‘؟ میں نے کہا۔ وہ میرے اس جواب پر کچھ شرمندہ ہوا اور پھر بولا،’’لیکن ہماری رپورٹ کے مطابق تم اسلام سے زیادہ ہندو مذہب کے قریب ہو‘‘۔’’ان پڑھ رپورٹیں لکھنے لگیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے میں مسلمان ہوں۔ البتہ مجھے اسلام کا دورہ نہیں پڑتا۔ اس لئے کسی مذہب کو حقیر اور اس کے ماننے والوں کو دوسرے تیسرے درجے کاشہری نہیں سمجھتا۔ ساری مخلوق اللہ کی ہے ۔ میں اللہ کی مخلوق سے نفرت کا جرم کیوں کروں‘‘؟ میرا جواب تھا۔ ’’دیکھومجھے بتایا گیا ہے کہ تم شدید بیمار ہو۔ اس لئے رعائت برت رہا ہوں۔ ورنہ میرے پاس ایسے نسخے ہیں کہ تم فرفر بولنے لگو‘‘۔ دھمکی آمیز انداز میں میجر بولا۔’’اپنے نسخے آزما لیجیے۔ یہاں میں مہینہ ڈیڑھ سے تجربوں کی بھینٹ ہی چڑھا ہوا ہوں‘‘۔میں نے جواب دیا۔ ’’ٹھیک ہے تم تندرست ہو جاؤ اور یہاں تفتیش مکمل کروا لو۔ ہم تمہیں سکھر لے جائیں گے۔ آمنے سامنے بٹھائیں گے تمہارے ہندو باپوں کو اور پھرتم سب کچھ بک دو گے۔‘‘ میجر نے کہا۔ میں نے جواب دیا،’’باپ تو میرا ایک ہی ہے۔ سید محمود انور بخاری نام ہے۔ اور اپنے باپ کے والد کانام بھی آتا ہے۔ اس زمین میں میرے خاندان کی بارہ چودہ پشتیں دفن ہیں۔ باہر سے نہیں آیا کہ باپ تلاش کرتا پھروں‘‘میجر بھڑک اٹھا اور تھپڑ جڑ دیا مجھے۔ اس اچانک حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے میں زمین پر گر گیا۔ ایک اہلکار کی آواز سنائی دی’’میجر صاحب! بریگیڈئیر صاحب کا حکم ہے اس پر ابھی تشدد نہیں کرنا۔ آپ کوسوال کرنے کی اجازت ملی ہے۔ جو بھی پوچھنا ہے پوچھیں لیکن تشدد سے گریز کریں‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میجر نے کہا۔ فلک شیر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’میجر! یہ ہماری تفتیش کا اہم ملزم ہے۔ بھارت کی مدد سے بغاوت برپا کرنے کے غداروں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ۔ یہ مہمان نہیں ملزم ہے۔ بہت قیمتی ملزم۔ اسی لئے اس کا علاج کروانے پر مجبور ہوئے ہم لوگ کہ اگر یہ مر گیا تو ہم غداروں تک کیسے پہنچیں گے‘‘ میجر نے اپنی اوقات کے مطابق مجھے چند گالیاں دیں۔ جس پر میں نے کہا،’’اب میں تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ جو کرنا ہے کرلو۔ بڑے آئے جاسوسِ اعظم۔ باہر جا کر ساری معلومات حاصل کرلو‘‘ تمہاری ساری اکڑ نکال دوں گا حرام زادے دو منٹ میں‘‘۔’’حرام زادہ کون ہے اور حلال زادہ کون۔ وقت اس کا فیصلہ کرے گا۔ رات کی تاریکی میں اپنے ہی ملک کو فتح کر نے والے گالیاں دے سکتے ہیں یا تشدد کر سکتے ہیں۔ اب تک دونوں بھگت رہا ہوں‘‘۔ غصے میں وہ پھر گالیاں دینے لگا۔ یہ تفتیشی افسر کتنے بدزبان تھے مجھے آج بھی سوچ کر حیرانی ہوتی ہے۔ پاکستان سماج کے عام لوگوں کو جاہل، گنوار اور نجانے کیاکیا کہتے ہیں یہ فوجی افسران مگر خود ان کی اخلاقی پستی کا کیا حال ہے۔ یہ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے سیاسی قیدیوں کو اچھی طرح معلوم ہے۔ کافی دیر بعد میجر نے مجھ سے سوال کیا’’تم سکھر سے شکار پور گئے تھے‘‘۔’’ہاں گیا تھا۔ کشن کے گھر رہا تین چار دن‘‘میں نے جواب دیا۔’’مجھے یہ معلوم نہیں کرنا تم کتنے دن رہے وہاں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کشن کے گھر پر جو اجلاس ہوا تھا اس میں کون کون آیا تھا‘‘میجر نے کہا۔’’کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ ایک دوست دوسرے دوست کے پاس جاتا ہے تو دوستوں میں میل میلاپ کو اجلاس نہیں کہتے۔ آپ کے مخبر کیسے جاہل ہیں جو شادی بیاہ کی تقریبات اور دوستوں کی عمومی ملاقاتوں تک کو سیاسی اجلاس بنا کر رپورٹیں لکھتے ہیں۔اور آپ لوگ مان لیتے ہیں‘‘میں نے کہا۔ ’’بکواس کرنے کی ضرورت نہیں جو پوچھا ہے وہ بتاؤ‘‘ میجر بولا۔میں نے کہا’’کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ تین چار دن ہم مزے مزے کے کھانے کھاتے ، کتابوں پر تبادلہ خیال کرتے اور تاش کھیلتے رہے۔ پھر میں کراچی چلا گیا‘‘۔’’چلو ٹھیک ہے ہم تم سے اس وقت سب کچھ اگلوالیں گے جب تم ہماری تحویل میں آؤ گے‘‘۔ ’’جی بہتر۔ میں اس وقت گاندھی اور لیاقت علی خان کا قتل بھی مان لوں گا‘‘میں نے جواب دیا۔میجر ہتھے سے اکھڑ گیا۔ وہ مجھے مارنے کے لئے کرسی سے کھڑا ہوا ہی تھا کہ ساتھ والی کرسی پر بیٹھے اعوان نے اس کا بازو پکڑ لیا۔ اعوان نے کہا’’اس کی گردن کے زخم کے ٹانکے ابھی دو دن قبل ہی کھلے ہیں۔ ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے تشدد کا‘‘۔ حسب دستور وہ گالیاں دینے میں مصروف ہوگیا۔ اعوان کے اشارے پر اہلکار مجھے وہاں سے واپس کوٹھڑی میں ڈال آئے۔ قیدی کا دکھ کیا اور غصہ کیا۔ یہ سب تو سہنا ہی تھا اور سہہ رہا تھا۔ مجھے اس میجر پاشا کی جہالت پر حیرانی تھی۔ کس الو کے پٹھے نے اسے تفتیشی افسر بنا دیا تھا۔ جسے یہی نہیں معلوم تھا کہ میں سندھی نہیں سرائیکی ہوں۔ ہندو طلباء سے میری دوستی ہے۔ میں مسلمان ہوں، سید ہوں اور ملتان کا رہنے والا ہوں۔ کراچی میں پڑھنے کے ساتھ ملازمت کرتا ہوں۔ ملازمت بھی عام نہیں ایک اچھے بھلے معروف سیاسی ہفت روزہ کا ایڈیٹر ہوں۔
اپنے سارے سوالات کےجواب خود ہی دیتا رہا کہ ان کا مقصد مجھے اعصابی طور پرتوڑ کر بکھیر دینا ہے تاکہ میں ہار مان کر سدھائے ہوئے جانور کی طرح وہی کروں جو یہ چاہتے ہیں۔ عجب بات بالکل نہیں تھی کسی مسلمان اور ہندو کا دوست ہونا۔ فقط اشوک، کشن کنعیا لال ہی نہیں کوئی درجن بھر ہندو طلباء میرے دوست تھے۔امرت جاسم نامی ہندو طالب علم جس کے والد کراچی میں وکیل تھے میرا بہت اچھا دوست تھا۔ ہم پانچ چھ سال ایک ہی سکول میں اکٹھے پڑھتے رہے۔ امرت سے دوستی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے بھی میری طرح بچوں کی کہانیا ں لکھ کر شائع کروانے کا شوق تھا۔ کنعیا لال سے میرا تعارف سید عبدالطیف شاہ جیلانی ایڈووکیٹ کی معرفت ہوا تھا۔ شاہ جی اور کنعیا لال دونوں گھوٹکی کے رہنے والے ہیں۔ لطیف شاہ بعد میں پیپلز پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری بھی بنے۔ ایک بار انہیں پارٹی نے علی محمد مہر کے مقابلہ میں قومی اسمبلی کا امیدورا بھی بنایا۔ ایک درویش صفت سید زادہ مہروں کے مقابلے میں پورے قد سے میدان میں ڈٹ گیا۔ جیت گو مہروں کی ہوئی لیکن سید زادے نے مہروں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اس طرح سپاف سانگھڑ کے ساون ماتھیو اور حیدر آباد کے راجیش اجلانی میرے عزیز ترین دوست تھے۔ دوستی میں مذہب کا کیا لینا دینا۔ اس طرح کی گھٹیا باتیں تو ہم نے کبھی سوچی بھی نہیں تھیں۔ پھر پاکستان کے آئین میں کہاں لکھا تھا کہ مسلمان ہندوؤں یا دوسرے مذہب والوں سے دوستی نہیں کر سکتے۔ مرزا مبارک کا بیٹا مرزا شہریار میرا جگری دوست تھا تو کیا اس قادیانی شہریار کی دوستی سے میں قادیانی ہو گیا تھا؟ کیا فاور صائمن جوزف کی دوستی نے مجھے عیسائی بنا دیا تھا۔ ہر گز نہیں۔ نہ ہی میں ہندو قادیانی یا عیسائی ہوا نہ وہ میری دوستی میں مسلمان قرار پائے۔ لیکن یہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی کارندے (فوجی افسر اور تفتیشی) عجیب ذہنیت کے لوگ تھے۔ بعد کے برسوں میں مجھے اس سوچ کا جواب سمجھ میں آیا۔ ایک تو یہ ہے کہ فوجی لوگ اپنے علاوہ کسی کو اچھا مسلمان اور سچا پاکستانی نہیں مانتے۔ دوسرا یہ کہ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی ہونے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ایک بات اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں کی 95 فیصد تعداد کا تعلق وسطی اور بالائی پنجاب کے علاوہ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخواہ) سے ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں مذہبی شاؤنزم زیادہ ہے۔ ہندو یہاں بہت کم ہوتے ہیں۔ جبکہ سندھی سماج میں مذہب کی جگہ سندھی ہونا باعثِ فضیلت سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح سرائیکی علاقوں میں بھی مذہب ثانوی چیز ہے۔ تعصبات 1980 کی دہائی میں ایک سازش کے تحت پیدا کئے گئے۔ میں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ صوبہ سندھ میں گزارا ہ تھا اس لئے مزاجاََ آج بھی خود کو سندھیوں کے قریب محسوس کرتا ہوں۔ جہاں لوگ دوستی میں مذہب و عقیدے کو درمیان میں نہیں لاتے۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے زمانہ میں اپنی اسیری کے دوران قدم قدم پر مجھے اپنی اس آزاد خیالی کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ گو مجھے آج بھی اس کا افسوس نہیں۔ افسوس کس بات کا کروں۔ فاتح لشکر مفتوح علاقوں کے لوگوں سے اسی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق چونکہ زمین زادہ نہیں تھا اس نے پاکستانی سماج کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ البتہ اس بات پر افسوس ہوتا تھا کہ اس کے فوجی اور سیاسی حواریوں میں جو زمین زادے شامل تھے وہ اپنے لوگوں کے لئے فرعون بن گئے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے ان وفاداروں نے فوجی حکومت کے مخالفین پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ ان کا خیال آتے ہی آج بھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn