منصوبہ یہ تھا کہ مارشل لاء حکومت کے خلاف بنے غیر اعلانیہ اتحاد کو توڑا جائے کسی بھی قیمت اور کسی بھی طرح۔ شاہی قلعہ یا دوسرے تفتیشی مراکز میں تعینات سرکاری اہلکاروں کاطریقۂ واردات یہی ہوتا تھا۔ ترغیب، لالچ، دھمکی اور بے رحمانہ تشدد۔ انسان ہی تھے سیاسی قیدی، گوشت پوست کے انسان۔ کچھ تشدد سے ڈرے، تھک گئے، زندگی کی بھیک مانگ لی۔ دوستوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے۔ کچھ توبہ تائب ہوئے۔ مگر بودے تعداد میں بہت کم نکلے۔ زیادہ بلکہ اکثریت ان اجلے زمین زادوں کی تھی جنہوں نے ہر ستم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آفرین ہے پیپلز پارٹی کے نچلے طبقوں اور لوئر مڈل کلاس کے جواں عزم کارکنوں پر جنہوں نے عزم وہمت اور قربانی کی لازوال مثالیں قائم کیں۔ ان میں سے بعض کے اہلخانہ کا ان کے سوا کمانے والا بھی کوئی نہ تھا۔ ایسے کارکنوں کو آزادی کے ساتھ ملازمت اور مالی امداد کی پیش کش بھی کی گئی مگر حقارت کے ساتھ ٹھکرا دی انہوں نے حکومت کی ہر پیشکش۔ انہوں نے قیدیں کاٹیں، کوڑے کھائے، شدید وحشیانہ تشدد سہا مگر چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب 1988ء میں بینظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو چند ایک کے سوا کسی کو کسی نے نہ پوچھا۔ قربانیاں دینے والوں کی جگہ ٹھیکیداروں نے لے لی۔ کیونکہ اب ٹھیکیدار ہی سیاسی کارکن اور گلی محلوں کے رہنما تھے۔
لاہور کے شاہی قلعہ میں جو درگت بنی اس کے اثرات صحت پر پچھلے 36 برسوں سے ہمیشہ نمایاں رہے۔ ایک بار میرے والد محترم مجھے ملتان جیل میں (جب شاہی جیل سے چھٹکارا ملا اور ملتان جیل شفٹ کیا گیا) ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ میری حالت دیکھ کر بہت دکھی ہوئے۔ آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے وہ مجھے سے فقط یہ ہی کہہ پائے،’’میری جان! پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ تم نے کیا سوچ کر کیا‘‘؟ ان کے قدموں کو چھوتے ہوئے عرض کیا تھا،’’ابا جان! پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں دیا۔ ہم نے تو بحالی جمہوریت کے لئے جدوجہد کا فیصلہ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سے یقیناََ کچھ غلطیاں سرزد ہوئیں تھیں۔ مگر فیصلہ کرنے کا حق عوام کوتھا نا کہ فوج کو۔ مارشل لاء لگانے والوں نے ہمیں کالی رات میں دھکیل دیا ہے۔ یہ ملک کسی جرنیل نے فتح کر کے نہیں بنایا۔ عوام کے حقِ حکمرانی کے لئے بنایا گیا تھا۔ ہم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ ابا جان نے مجھے سینے سے لگاتے ہوئے کہا،’’تمہارے نظریات، دلائل اور بھگتے عذاب تمہارا اپنا فیصلہ ہیں۔ مجھ سفید پوش باپ کی خوشی اور فخر یہ ہے کہ تم نے معافی نہیں مانگی۔ یقین کرو اگر تم معافی مانگ کر رہا ہوتے تو میں ساری عمر تمہاری شکل نہ دیکھتا اور یہ ذہن میں بٹھا لیتا کہ میرا جاوید مرچکا ہے‘‘۔ ملاقات سے واپسی پر میں سوچتا رہا انہوں (اباجان) نے مجھ سے کوئی شکوہ کیا نہ ڈانٹا۔ حالانکہ وہ جماعتِ اسلامی میں تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ مگر اس ملاقات میں انہوں نے ایک بہادر باپ کی طرح حوصلہ افزائی کی اور اپنے نظریات پر قائم رہنے کی تحسین کرتے ہوئے باور کروا دیا کہ ظلم و جبر کے سامنے جھک جانے یا حوصلہ ہار کر معافی مانگ لینے والوں کے لئے ان کے اپنے گھر میں بھی عزت نہیں رہتی۔
پاکستان کے سیاسی کارکنوں کی اکثریت کا تعلق معاشرے کے سفید پوش طبقات سے رہا۔ جمہوری یا انقلابی جدوجہد میں یہی طبقہ ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں چند تفتیشی مراکز میں جو انسانیت سوز سلوک سیاسی کارکنوں سے ہوا اس کا تذکرہ چند دوستوں نے اپنی سوانح حیات میں ضرور کیا مگر ایک مربوط تاریخ رقم کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہی تاکہ بات بات پر فوج کی طرف دیکھنے اور ’’مٹ جائے گی مخلوق توانصاف کرو گے؟‘‘ کے پوسٹر لگانے والی مخلوق کے علم میں آئے کہ مارشل لاء جب بھی رخصت ہوا جرنیلوں نے پلیٹ میں رکھ کر جمہوری اقتدار واپس نہیں کیا بلکہ طالع آزما جرنیلوں کو یہاں تک لانے کے لئے سیاسی کارکنوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کے ساتھ محنت کش طبقوں سے تعلق رکھنے والے زمین زادوں نے جو قربانیاں دیں جمہوریت (جیسی بھی ہے) اس کا ثمر ہے۔مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر طبقاتی بالا دستی سے عبارت نظام لوگوں کی گردنوں پر مسلط ہوا۔ لے دے کر فقط ذوالفقار علی بھٹو کا دور قدرے بہتر تھا۔ باقی کی جمہوری حکومتیں تو جی ایچ کیو اور سول بیوروکریسی کے ساتھ خاموش معاہدوں کے ذریعہ اقتدار میں آئیں۔ فوج اور بیوروکریسی کی طاقت کا اندازہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 1988ء والی حکومت سے کر لیجئے۔ پہلے تو فوج نے پی پی پی مخالف اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا۔ پنجاب میں ایک ہی وقت میں ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ اور ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا پروپیگنڈا ہوا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔تو پنجاب میں فوج کے ماتحت دو اداروں کے افسران نے پنجاب اسمبلی کے لئے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے ارکان کو مسلم لیگ میں شامل کروانے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمایا۔ فوج اگر اس وقت خود غیر جانبدار رہتی اور بیورو کریسی کو بھی غیر جانبدار رہنے کے لئے کہتی تو پیپلز پارٹی آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر پنجاب میں بھی حکومت بنا سکتی تھی۔ مگر جی ایچ کیو میں منعقدہ ایک اجلاس میں فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں حکومت نہیں بنانے دینی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل سمیت متعدد پنجابی جرنیلوں کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اگر کلی طور پر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ بھٹو صاحب کی پھانسی اور اپنے کارکنوں کے ساتھ مارشل لاء دور میں ہونے والے سلوک کا بدلہ لے گی۔
یہی خوف جرنیلوں کی نیندیں حرام کئے ہوئے تھا۔ 1988ء کی انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد نے پیپلز پارٹی یا بھٹو خاندان کے خلاف جس بدزبانی و بدلگامی کا شرمناک مظاہرہ کیا وہ فوج، شریف خاندان اور جماعت اسلامی کی تگڑم کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی پنجاب میں انتخابی مہم کے میڈیا مینجر حسین حقانی تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے کراچی یونیورسٹی کی انجمنِ طلباء کے صدر منتخب ہونے والے حسین حقانی زمانہ طالب علمی میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سے رابطہ میں تھے۔ ان رابطوں کی وجہ سے ہی کراچی یونیورسٹی کے بہت سارے غیر جماعتی طالب علم رہنما مارشل لاء دور میں زیرِ عتاب آئے۔ جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ حسین حقانی نے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹوکے خلاف شرمناک اشتہاری مہم چلائی۔ ان خدمات کے عوض بعد ازاں انہیں سری لنکا میں سفیر بنادیا گیا۔ تاریخ کا جبر یہ ہے 1988ء اور1990ء کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کا یہ میڈیا مینجر 1993ء میں برسرِ اقتدار آنے والی پی پی پی حکومت کا اہم ستون بنا۔ یہاں تک کہ اس نے ناہید خان کی چھوٹی بہن سے شادی بھی کر لی۔
ہم 1988ء کے انتخابات کی طرف واپس چلتے ہیں۔ انتخابی نتائج سامنے آئے تو فوج اور غلام اسحاق خان (یہ قائم مقام صدر تھے) نے پوری کوشش کی کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بننے پائے۔ جب اس میں ناکامی ہوئی تو فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی اور انہیں بتا دیا کہ اقتدار ان کے حوالے کیا جائے گا۔ مگر وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان ہوں گے۔ اسی طرح دیگر چند شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ پی پی پی غلام اسحاق خان کو صدارتی امیدوار کے طور پر قبول کرے گی۔ بے نظیر بھٹو اکتوبر 1977کے بعد پی پی پی چھوڑ کر مارشل لاء کی گود میں جا بیٹھنے والوں کی ڈسی ہوئی تھیں۔ انہیں خطرہ لاحق ہوا کہ اگر انہوں نے فوج کی بات نہ مانی تو فوج ان کی پارٹی پر پھر سے حملہ کر کے کچھ لوگوں کو توڑ کر نوازشریف اینڈ کمپنی کے حوالے کر دے گی۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے انہوں نے فوج سے سمجھوتہ کر لیا تاکہ کسی طور جمہوری حکومت معرضِ وجود میں تو آئے۔
(یاداشتیں قسط وار پڑھنے والے قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ 36 سال بعد یاداشتیں لکھتے وقت تسلسل قائم نہیں ہو رہا۔ بلکہ جو واقعہ یاد آتا ہے اسے لکھ دیتا ہوں۔ امید ہے کہ وہ میری مجبوری اور طویل وقت گزر جانے ہر دو کو مدِ نظر رکھیں گے۔ حیدر جاوید سید)
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn