مسکین سی صورت والے جنرل ضیاء الحق بڑے گہرے انسان تھے۔ اتنے گہرے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے بالغ نظر انسان کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب رہے۔ بھٹو صاحب نے انہیں آرمی چیف بناتے وقت یہی سمجھا تھا کہ ان جیسا ’کمی‘ آرمی چیف نہیں ملے گا۔ لیکن وہ اس بات سے لاعلم تھے یا انہوں نے ضیاء کی ظاہری تابعداری کو دیکھتے ہوئے کوئی اہمیت نہ دی ، جنرل ضیاء الحق اس وقت سے امریکیوں کے رابطے میں تھے جب وہ بریگیڈئیر کے طور پر اردن میں تعینات تھے۔ امریکی ان کے مذہبی رجحانات کی وجہ سے انہیں کارآمد چیز سمجھتے تھے۔ افغانستان کے اندر تبدیلی در تبدیلی اور ان تبدیلیوں کے بیچوں بیچ پکنے والی کھچڑی سے سی آئی اے کے حکام پوری طرح باخبر تھے۔ بھٹو صاحب سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکیوں کے تعلقات سردمہری کاشکار تھے۔ سو ایک طرف توانہوں نے اردن کے شاہ حسین سے کہلوایا کہ ضیاء الحق آرمی چیف ان کے لئے سود مند رہے گا دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اپنے بعض رہنما جن میں مولانا کوثر نیازی، رفیع رضا، یٰسین وٹو وغیرہ شامل تھے ہر اس محفل میں ضیاء الحق کی بھٹو صاحب سے والہانہ محبت کا تذکرہ دھوم دھام سے کرتے جہاں بھٹو موجود ہوتے۔
یہ حضرات جب بھی جنرل ضیاء الحق کی تعریف کرتے بھٹوصاحب کو نواب صادق حسین قریشی (وزیراعلیٰ پنجاب) کے ملتان والے گھر وائٹ ہاؤس کے لان میں پیش آنے والا وقعہ یاد آجاتا ہو گا۔ ہوا یوں کہ بھٹو صاحب نے وائٹ ہاؤس ملتان بہاولپور اور ڈی جی خان کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلا رکھا تھا۔ جنرل ضیاء الحق ان دنوں ملتان کے کور کمانڈر تھے۔ وہ بھی بھٹو سے ملاقات کے لئے وائٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے پر انہیں معلوم ہوا کہ وزیرِ اعظم اندر اجلاس میں مصروف ہیں۔انہوں نے صادق قریشی کے ملازموں سے کہا کہ وہ یہیں لان میں وزیراعظم کے اجلاس سے فارغ ہونے کا انتظار کر لیتے ہیں۔ لان میں ٹہلتے ٹہلتے جنرل ضیاء الحق نے سگریٹ سلگا لیا۔ ابھی دو چار کش ہی لگا پائے تھے کہ وزیرِ اعظم کمرۂ اجلاس سے نکل کر باہر آگئے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو لان کی طرف بڑھتے دیکھا تو سلگا ہوا سگریٹ اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال کر بجھا لیا۔ بھٹولان میں چند قدم چلے تو انہیں احساس ہوا کہ ان کے ایک بوٹ کا تسمہ کھلا ہوا ہے۔ وہ ایک دم پلٹے اور پاس پڑی ہوئی کرسی پر اپنا پاؤں رکھ کر تسمہ باندھنا ہی چاہتے تھے کہ دو ہاتھ آگے بڑھے اور تسمہ باندھ دیا۔
وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سر اٹھا کر دیکھا تو ناف پر دونوں ہاتھ باندھے جنرل ضیاء الحق کھڑے تھے۔ وزیرِ اعظم بولے مسٹر ضیاء یہ آپ نے کیا کیا؟ سر آپ ہمارے محبوب قائد اور عالمِ اسلام کے دبنگ رہنما ہیں۔ ضرورت پڑنے پر میں آپ کے لئے جان دے سکتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے ضیاء الحق نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر ادب سے سرجھکا لیا۔ (اس سارے قصے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کسی ستم ظریف فوٹوگرافر نے جنرل ضیاء الحق کی دونوں اداؤں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔ اور بعد ازاں دونوں تصاویر بنا کر نواب صادق حسین قریشی کوپیش کر دیں۔نواب صاحب نے تسمہ باندھنے والی تصویر کو اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا لیا اور ہر آنے جانے والے مہمان کو بڑے شوق سے دیکھاتے ہوئے کہا کرتے تھے’’بابا سئیں! جس لیڈر کے جوتے کے تسمے کو کور کمانڈر باندھے وہ پاکستان کے لئے قدرت کا انعام ہی تو ہے‘‘) 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء نافذ ہوا اور 6 جولائی کی صبح سویرے فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے نواب صادق حسین قریشی کے وائٹ ہاؤس پر دھاوا بول دیا۔ انہیں ان دو تصویروں کی تلاش تھی جو نواب صاحب کو کسی فوٹو گرافر نے تحفہ میں دی تھیں۔
مالکوں کے نوکر مالکوں سے سیانے ہوتے ہیں۔ نواب صاحب کے ایک خاص ملازم نے فوج اور پولیس کی گاڑیاں گھر کا گھیراؤ کرتے دیکھیں تو دونوں تصاویر لے کر وائٹ ہاؤس کے کسی کونے یا تہہ خانے میں چھپ گیا۔ گھنٹہ بھر تک گھر کی تلاشی ہوئی۔ تصاویر نہ ملنا تھیں نہ ملیں۔ بالآخر سرکاری لشکر واپس روانہ ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے بہت کوششیں کیں کہ وہ ’’نادر تصاویر‘‘ انہیں مل جائیں۔ مگر انہیں مایوسی ہوئی۔ بعد کے برسوں میں میں نے ’’بھٹو کی آستین کا سانپ‘‘ کے عنوان سے ہفت روزہ ’’جدوجہد‘‘ کراچی میں لکھے گئے اپنے مضمون میں سارا واقعہ لکھ دیا۔ اس مضمون کی اشاعت سے بھونچال آگیا۔ ( یاد رہے کہ اس مضمون کا ایک حصہ ابھی دو تین سال قبل ’’تاریخ کے نام پر رام لیلائیں کیوں؟‘‘ کے عنوان سے روزنامہ خبریں کے ادارتی صفحہ پر میرے کالم میں شائع ہوا۔ اسے لکھنے کی نوبت جاوید چودھری کے ایک کالم میں ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے لکھی گئی چند لغویات کے جواب میں آئی)اس بھونچال سے کچھ عرصہ بعد مارشل لاء کے حکم پر پرچے کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا۔ اپنی گرفتاری کے بعد مجھے فوجی حکام کی شدید نفرت اور تشدد کا نشانہ اپنے نظریات، مارشل لاء کا مخالف ہونے کے ساتھ ان چند مضامین کی وجہ سے بھی بننا پڑا جو’’ جدوجہد ‘‘اور ’’بصیرت‘‘ میں شائع ہوئے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے رشتے میں ایک کزن رحمٰن بھارتی پنجابی فلموں میں چھوٹے موٹے اداکار تھے۔ یہ دعویٰ ہمارا نہیں تھا بلکہ 1979ء میں ستمبر یا اکتوبر کا مہینہ ہو گا۔ بھارتی پنجابی فلموں کے اس اداکار نے ایک ریڈیو انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ پاکستان کے فوجی صدر جنرل ضیاء الحق ان کے کزن ہیں۔ اس انٹرویو کی خبر کہیں چھپی کہیں نہ چھپی۔ لیکن مجھے میرے ایک دوست نے بھارت سے شائع ہونے والے فلمی رسالے کا ایک صفحہ فراہم کیا جس پر اس اداکار کی تصویر اور ریڈیو انٹرویومیں کیا گیا دعویٰ چھپا ہوا تھا۔ میں نے اس پر ایک مضمون لکھا۔ جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ’’ ایک بھائی بھارت کی پنجابی فلموں کا ایکسٹرا اداکار ہے اور دوسرا پاکستان میں اسلام نافذ کرنا چاہتا تھا‘‘۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد میرے خلاف کراچی کے تھانہ پریڈی سٹریٹ (غالباََ یہی نام ہے) مارشل لاء کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔
ملتان میں جب میری گرفتاری عمل میں آئی تو مجھ سے ابتدائی تفتیش کے دوران اس کہانی کی اشاعت کی وجہ اور اداکار کی تصویر فراہم کرنے والے کا نام دریافت کیا جاتا رہا۔ کبھی ترغیب، کبھی دھمکی، کبھی تشدد۔ آئی بی، پولیس اور فوج کے افسروں پر مشتمل مشترکہ کمیٹی نے ایڑی چوٹی کا زرو لگا لیا لیکن مجھ سے اس مہربان کا نام نہ اگلوا سکے۔ ملتان سے جب لاہور کے شاہی قلعہ کے لئے بھجوایا جا رہاتھا تو ایک افسر نے مجھ سے کہا،’’تم اب جہاں جا رہے ہو وہاں پتھر اور گونگے بھی بول پڑتے ہیں‘‘۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں پتھر اور گونگے کو بلوانے کے لئے بوچڑ خانے کے تفتیشی افسروں نے کیا کیا ستم نہیں ڈھائے۔ مگر معاملہ عجیب یہ ہوا کہ انہوں نے مجھے جن جرائم یا یوں کہہ لیں جن مقدمات کی وجہ سے گرفتار کیا تھا اس کے بارے میں پہلے دو ماہ تو پوچھا ہی نہیں۔ ان دو مہینوں میں تو وہ یہ کوشش کرتے رہے کہ میں اعتراف کر لوں کہ بھارت گیا تھا اور وہاں سے بیگم نصرت بھٹو کے لئے کوئی پیغام لے کر آیا تھا۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ اولاََ تو میں بھارت گیا ہی نہیں۔ اور بالفرض میں یہ مان بھی لیتا ہوں تو مجھے کوئی بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کے لئے پیغام کیوں دے گا؟ کیونکہ میں پیپلز پارٹی کا کبھی رکن یا ہمدرد نہیں رہا۔
ذوالفقار علی بھٹو سے محبت یا ان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے پر مارشل لاء حکومت کی مخالفت قومی جمہوریت پر یقینِ کامل کی بنا پر تھی۔ لیکن وہ مان کر نہیں دئیے میری بات۔ حالانکہ میرے خلاف جتنے بھی مقدمات تھے ان میں کہیں بھی پیپلز پارٹی سے تعلق کا حوالہ نہیں تھا۔ انٹیلی جنس کے اداروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں ذہنی اور نظریاتی طورپرماضی میں نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی کے ہم خیالوں میں شمار ہوتا تھا اور میرے دوستوں کی اکثریت کا تعلق ان سندھی قوم پرستوں کا حلقہ تھا جو زمانہ طالبِ علمی میں سندھ نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن میں تھے۔ ہم سب بھٹو صاحب کو ایک اچھا انسان اور مدبر سمجھتے تھے لیکن جس طرح ملک بھر کے ٹوڈی جاگیر دار، پیر، سردار، خان اور وڈیرے جوک در جوک پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر اس پر قابض ہوئے تھے اس پر ہمارا تبصرہ یہی ہوتا تھا کہ یہ سارے فصلی بٹیرے ذوالفقار علی بھٹو کو آخری مغلیہ تاجدار بہادر شاہ ظفر کی طرح کے انجام سے دوچار کروائیں گے۔ ہوا بھی یہی۔ جونہی اکتوبر 1977ء کے انتخابات کے التواء کا اعلان ہوا فصلی بٹیروں نے پیپلز پارٹی کی کشتی سے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ اسی دھکم پیل میں مولانا کوثر نیازی نے پیپلز پروگریسو پارٹی کی بنیاد رکھی لیکن یہ پارٹی زیادہ دن زندہ نہ رہ سکی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ ترقی پسند حلقوں (ماسوائے عبدالولی خان اور معراج محمد خان کے) کی ہمدردیاں بھٹو صاحب کے ساتھ تھیں۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn