Qalamkar Website Header Image

زندان کی چیخ ۔تیرہویں قسط

zindan ki cheekh’’شاہ جی! یہ جیل ہے تمہارا گھر نہیں کہ اس طرح بے خبر سوتے رہو‘‘، ایک اہلکار نے کہا۔ ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ دوسرا اہلکار بولا’’امجد! اے منڈابیمار اے (امجد یہ لڑکا بیمار ہے)‘‘۔ امجد نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور کہا چلولانگری سے کہتے ہیں اسے اس کا ناشتہ دے جائے۔ کچھ دیر بعد بھیا لانگری ناشتہ لے آیا۔ رس یا آدھی روٹی ملتی تھی مگر اس دن چائے کے ساتھ پوری روٹی دیتے ہوئے لانگری بولا’’کھالو تمہیں دوائیاں بھی کھانی ہیں‘‘۔ ناشتہ کیا۔ کچھ دیر بعد گارڈ سے کہہ کر دوائی کی خوراک لی۔ اور پھر دیوار کے سہارے بیٹھ گیا۔ بخار ابھی تھا۔زخموں میں درد کے ساتھ سارا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ شاہی قلعہ کے باہر کی دنیا یاد آتی تھی۔ یادیں قطار اندر قطار اترتیں۔ یہاں یادوں کے سوا کسی بھی چیز کا داخلہ بند تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھاکہ جن مقدمات میں گرفتار ہوا ہوں ان کے حوالے سے ابھی دو لفظی تفتیش تک کسی نے نہیں کی۔ بھارت یاترا کی رام لِیلا سننے کے لئے وحشیانہ تشدد کر رہے تھے۔ ہنسی آتی تھی اپنے تفتیشی افسران پر کہ جو ہوا ہی نہیں وہ منوانا چاہتے تھے۔ اقتدار کی سیاست کے کھیل عجیب ہیں۔ اہلِ اقتدار کا عوام سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔کبھی کہیں پڑھا تھا کہ ’’اقتدارکا مائی باپ اور اصول نہیں ہوتے‘‘۔ سچ یہی ہے ہم مسلمانوں کی تاریخ اسی سے عبارت ہے۔ کب اقتدار کا مائی باپ اور اصول ہوئے؟کتابی کہانیوں اور اندھی عقیدت سے بندھے قصوں کو اٹھا رکھیئے۔ سچ تو یہ ہے کہ اقتدار کی بدمست طاقت نے بانئ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے خاندان کے تقدس کو پامال کیا۔ امام حسن ؑ سے جو معاہدہ ہواوہ ہوا ہُوا۔ 90 برس سے زیادہ عرصہ تک امام علیؑ پر مساجد کے ممبروں سے سب و شتم ہوا۔ چوتھے خلیفہ راشد کے خلاف بغاوت اور جنگیں اجتہادی غلطیاں قرار پائیں۔ لکھنے والوں نے تو معرکہ کربلا کو دو شہزادوں کی جنگ لکھ دیا۔ کسی نے صاحبانِ اقتدار کے تلوے چاٹنے والے ان مؤرخوں سے یہ نہیں پوچھا’’حضرت! حسین ؑ تو چلیں نبی مکرم ﷺ کے نورالعین کا شہزادہ تھا۔ یہ یزید کب سے شہزادہ ہو گیا‘‘؟
آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم کے بھیانک مظالم سہنے والی نسل کی موجودگی میں کچھ درباری مسخرے ضیاء الحق کے دور کو اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا دور قرار دیتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ تاریخ کیسے لکھی جاتی ہے اور کیوں دو طرح کی تاریخ سامنے آتی ہے جنرل ضیاء الحق کے چاپلوسی صحافی اربوں پتی ہیں۔ ایک جنرل ضیاء ہی کیا سارے حکمران ایسے ہی تھے۔ درباری مسخروں سے تاریخ لکھوانے والے۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب کوئی درباری مؤرخ لکھے گاکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور کے شاہی قلعے کی جیل کو ختم کر کے اس میں ایک عالیشان مدرسہ کھولا گیا۔ جہاں دور دراز سے طلبأ علم دین حاصل کرنے کے لئے آتے اور جید علمائے اکرام سے فیض علم حاصل کرکے انہوں نے اسلام کی نشاطِ ثانیہ کے اس عظیم کام کو آگے بڑھایا جس کی بنیاد ’’امیرالمومنین‘‘ اعلیٰ حضرت جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھی تھی۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے سے قبل جنرل ضیاء الحق ان سے جب بھی ملتے تو ایسی انکساری اور تابعداری کا مظاہرہ کرتے جیسے ایک کمی کمین اپنے زمیندار کے حضور حاضری کا شرف پا کر خوش ہوتا ہے۔ جس بھٹو کو جنرل ضیاء الحق زہریلا ناگ کہتے تھے اس کو کبھی عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز اور عظیم مدبر ودانا قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ جس بھٹو کے بوٹ کے تسمے باندھنے کو جنرل ضیاء الحق سعادت سمجھتے تھے اس کی پھانسی پر وہ اتنے شاداں تھے جیسے کسی مقتول کا بیٹا باپ کے قاتل کی پھانسی پر خوش ہوتا ہے۔ پاکستان کا یہ تیسرا فوجی آمر عجیب ہی مخلوق تھا۔ ایک مکاری بھری مسکراہٹ چہرہ پر سجائے رکھتا۔ مکاری سے عبارت اسی مسکراہٹ کے ساتھ ایک بار اپنے دورہ بہاولپور میں درباریوں سے خطاب کرتے ہوئے ضیاء الحق نے کہا ’’میرا بس چلے تو ان سوشلسٹوں اور اسلام دشمنوں پر ٹینک چڑھا دوں‘‘۔ ٹینک چڑھانے کی ان کی خواہش بعد کے برسوں میں (1983ء کی ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران) سندھ میں پوری ہوئی۔ مگر 1978ء سے 1985ء کے درمیانی برسوں میں پاکستان ان کے مخالفین کے لئے جہنم بنا دیا گیا۔ زیرِ تفتیش قیدیوں پر ملک بھر کے ٹارچر سیلوں میں جو غیر انسانی برتاؤ ہوا اس نے برطانوی استعما ر کے اس جبروستم کو بھی مات دے دی جو برطانوی حکام نے برصغیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ڈھائے تھے۔ اسلام کے نام پر فرقہ واریت کا زہر گھولنے اور پاکستان کو امریکی رکھیل بنا دینے میں ان کے گھناؤنے کردار کا خمیازہ مزید کتنی نسلیں بھگتیں گی فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے انہوں نے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمایا جس سے ان کی دہشت قائم ہو سکے۔ لیکن اس دہشت زدہ ماحول میں بھی جمہوریت کا علم بلند کرنے والے کم نہیں تھے۔ شاہی قلعہ لاہور کی جیل کے درودیوار ان فرزندانِ زمین کی استقامت کے گواہ ہیں جنہوں نے اپنے حوصلے سے ضیائی ظلم کو شکست دی۔ سچ کہا ہے کسی نے ظلم ہمیشہ نہیں رہتا۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں تفتیش کے دوران اکثر سوچتا تھا یہ تفتیشی افسران آخر اس بات پر ہی کیوں بضد ہیں کہ حکومت مخالفین اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔بعد کے برسوں میں مطالعہ نے یہ بات سمجھائی کہ حکومتوں کا دھندہ اسی طرح چلتا ہے۔ ان کی دہشت اسی طرح قائم رہتی ہے۔دلچسپ بات یہ تھی کہ سال بھر سے اوپر تختۂ مشق بنانے والے تفتیشی افسروں کی آنکھوں میں کبھی ایک لمحے کے لئے بھی شرمندگی کے آثار دیکھائی نہیں دئیے۔ بلکہ وہ ہمیشہ قیدی کو یہ تاثر دیتے کہ اس کی وجہ سے اسلام اور پاکستان بدنام ہوئے۔ وحشیانہ تشدد اور بدزبانی کی ساری حدیں پار کرنے والے یہ تفتیشی افسران کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔ ہمارے ہی سماج کے خاندانوں کا حصہ تھے مگر حکومتِ وقت کی وفاداری میں سبقت لے جانے کی خواہش نے انہیں انسانی جذبوں سے محروم کر دیا تھا۔ سال بھر کے دوران جس بھی تفتیشی افسر سے پالا پڑا وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ماہر نکلا۔ کبھی پیار سے اقرارِ جرم کا مشورہ، رعائیت کی یقین دہانیاں اور کبھی ایسا ہولناک تشدد کروانا کہ آج بھی اس تشدد سے ملی نشانیوں (زخموں کے نشانات) پر جب نظر پڑتی ہے تو زِیر زَبر سمیت ساری باتیں یاد آجاتی ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

بنی اسد

10 محرم سے لیکر 13 محرم تک امام حسینؑ، آپ کی اولاد، بھائی، اعوان و انصار کے اجسامِ مطہر زمینِ کربلا پر بے گور و کفن بکھرے ہوئے تھے۔ 13

مزید پڑھیں »

اردو کے ہندو مرثیہ گو شعراء

اردو مرثیہ نگاری میں ہندوستان کے ہندو شعرا کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو ایک سیکولر زبان ہے۔ اوریہ اردو

مزید پڑھیں »