تینوں نے آپس میں بہ زبان انگلش مشورہ فرمایا۔ لبِ لباب یہ تھا کہ ہسپتال تو بھیجا نہیں جاسکتا یہیں دوائیاں دے دی جائیں۔ ایک سادہ پوش بولا’’اس نوجوان کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے اس کے پاس بہت قیمتی معلومات ہیں‘‘۔ ’’قیمتی معلومات‘‘ میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر اوردوسرے لوگ کوٹھڑی سے باہر چلے گئے۔ گارڈ نے ایک بار پھر کوٹھڑی کا دروازہ بندکرتے ہوئے تالا لگا دیا۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میں ہنس رہا ہوں۔ حیرانی ہوئی ۔ غور کیا تو یہ اپنی بے بسی کا اظہار تھا۔ طبیعت بدمزہ بھی تھی اور خراب بھی۔ سوچنے لگا۔ جناح صاحب تو کہتے تھے’’ہم مسلمانوں کے لئے الگ ملک اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ ان کا کسی قسم کا استحصال نہ ہو‘‘۔ مگر کیسا ملک بنا جس کی بنیاد ہی استحصال پر تھی۔ پہلی ضرب صوبہ سرحد کی منتخب حکومت ( ڈاکٹر خان کی حکومت تھی اور صوبائی اسمبلی میں انہیں اکثریت حاصل تھی) کو برطرف کر کے لگائی گئی۔ زبان کے مسئلے پر بھی غیر حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا گیا۔ حالانکہ بہت بہتر ہوتا اگر بنگالی، پشتو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور بلوچی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے کر اردو کو اقوام کے رابطے کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جاتا۔ایسا ہوتا تو انگریزوں سے ورثے میں ملی نوکر شاہی کیا کرتی۔ عجیب بات ہے یہ نوکر شاہی مغلوں کے ساتھ رہی۔ پنجاب میں رنجیت سنگھ کے ساتھ پھر انگریزوں کی وفادارہوئی۔ اب اس نوکر شاہی کا مسلمان حصہ پاکستان کو جہیز میں مل گیا۔کیا ہمارے اہلِ دانش کبھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے کہ بٹوارے کے بعد پاکستان کا حصہ بننے والے علاقوں کی مقامی زبانوں کو نظر اندازکرکے ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے لوگوں کی زبان کو ایمان کا چھٹا نکتہ قرار دینے کے جو نتائج نکلے اس سے نقصان کس کا ہوا۔ اردو بولنے والی جہیز میں ملی بیوروکریسی کا یا پاکستان کا؟
ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ پاکستان اس لئے بنانا پڑا کہ اگر ہندوستان اکٹھا رہتا تو ہندو مسلمانوں کو ان کے حقوق نہ دیتے۔ لیکن یہ کیسا پاکستان بنا جہاں عام لوگ پہلے ہی دن سے بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ اور سازشی بالادست طبقات کی جے جے کار تھی۔ 1956ء تک تو نئے ملک کو دستور نہ دیا جا سکا۔ خدا خدا کر کے وہ بنا بھی تو دستور کم اور دستور کے نام پر گالی زیادہ تھا۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد سابق آقا انگریزوں کے ٹوڈی خاندانوں کی مرادیں برآئیں۔ کلیموں کی لوٹ مار کی داستان الگ ہے۔ مگر پاکستان کی تاریخ کے نام پر جو بددیانتی کی گئی اس نے تین نسلوں کو دولے شاہ کا چوہا بنا دیا۔ سچ بولنے اور لکھنے سے پاکستان میں لوگ ایسے بھاگے کہ جھوٹ کے دفتر سیاہ کر ڈالے۔ مثال کے طور پر ہندومسلم فسادات کی ابتدأ روالپنڈی اور لاہور سے ہوئی لیکن ہمیں طوطے کی طرح رٹوایاگیا کہ ہندوؤں او رسکھوں نے فسادات کی ابتدأ کی۔شاہی قلعہ کی اسیری اوراس اسیری کے عذاب بھگتنے کے 36 سال بعد جب اپنی یاداشتیں لکھ رہا ہوں تو کم از کم مجھے یہ لکھنے اور کہنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ برصغیر کے مسلم تاریخ نویسوں نے اپنی تاریخ کی عمارت جھوٹ کی بنیاد پر کھڑی کی۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا کہ پاکستان کا حصہ بننے والے علاقوں میں 13اگست 1947ء تک جو لوگ خونی قاتل، لٹیرے حملہ آور اور بردہ فروش کہلاتے تھے انہیں 14اگست 1947ء کے بعد ہمارا ہیرو بنا دیا گیا۔محسنِ اسلام و ہند قرار پائے۔ وہ حملہ آور۔۔۔۔۔ اور ہمارے دھرتی جائے مزاحمت کار غدار چور لٹیرے۔اذیت بھری تکلیف کے وہ دن مجھے کبھی نہیں بھولتے۔ سچ یہ ہے کہ بس ایک بات کا یقین تھا کہ میں مروں گا نہیں باقی ہر چیز سے مایوس تھا۔ بہت خوشحال خاندان سے گو میرا تعلق نہیں تھا پھر بھی سادگی عزت بھری تھی۔اپنی زندگی اور راستے خود بنانے کے جنون میں گھر سے نکل کر کراچی گیا تھاتو محض چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔محنت مزدوری اور پھر سلسلۂ تعلیم کو برقرار رکھنے میں بہت پاپڑ بیلنا پڑے۔لیکن جس حال میں بھی رہا ایسی بدترین صورتحال سے کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔مجھے نہیں یاد کہ کبھی ایک دن کے کپڑے دوسرے دن پہنے ہوں۔ ہر ماہ تنخواہ لیتے ہی پہلے دو کام یہ کرتا۔ ایک عدد کھدرکا جوڑا خرید کرسلنے کے لئے دیتا اور دو تین کتابیں خریدلیتا پڑھنے کے لئے۔ اب یہاں شاہی قلعہ میں یہ صورت تھی کہ 15دن قبل مجھے ملتان سے یہاں پہنچایا گیااور پہلے دن سے اب تک نہانے کی خواہش پوری نہ ہوئی۔ منہ بھی ایسے دھوتا تھا کہ ہاتھے گیلے کر کے منہ پر پھیر لیتا۔ شدید سرد موسم کے باوجود مجھے اپنے اندر سے بدبو آتی تھی۔پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں دو روٹیوں کی بجائے ایک روٹی لیتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ حوائج ضروریہ والا پاٹ کوٹھڑی کے اندر ہی رکھا ہوا تھا اس کی بدبو برداشت کرنا پڑتی۔ پھر بھی کوٹھڑی میں عجیب بدبو تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا عادی ہوتا گیا۔ بے بسی عادی بنا دیتی ہے۔ گرفتاری سے قبل میں ڈن ہل سگریٹ پیتا تھا۔ شاہی قلعہ میں مجھے سپر برانڈ کے پانچ سگریٹ روزانہ ملتے تھے۔ اپنی والدہ کے بعد مجھے دوست بہت یادآتے تھے۔ آزادمنش بندہ ضیاء الحق سرکارکے جال میں پھنس گیا تھا۔
سکھر، بہاولپوراور ملتان میں میرے خلاف درج مقدمات کوئی مسئلہ نہیں تھے۔اس سے تو انکار ہی نہیں تھا کہ فوجی حکومت کا مخالف ہوں۔ بھٹو صاحب کے طرز سیاست اور پھر مولویوں کے دباؤپرسوشلسٹ نظریات سے ان کی پسپائی پر اختلاف ضرور تھا لیکن وہ عوام کے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔ کیا جو سلوک جنرل ضیاء الحق اور اس کے درباری ججوں نے ان سے کیا وہ درست تھا؟ ایک میں ہی نہیں دوسرے بہت سارے جمہوریت پسند یہ سمجھتے تھے کہ ضیاء الحق کا مارشل لاء امریکہ کی سازش تھی۔ امریکی سی آئی اے دنیا کی طاقتورترین خفیہ ایجنسی تھی۔ امریکی حکام جنوبی ایشیأ کے بعض ممالک کے اندر امریکہ نواز حکومتوں کے خلاف پکتی کھچڑی سے آگاہ تھے۔ بھٹو صاحب نے جب افغان صدر داؤد خان کے مخالف گلبدین حکمت یار، ملا ربانی اور دیگر کو پاکستان میں پناہ دی تھی تو امریکی یہ سمجھنے لگے کہ بھٹو امریکہ کی نئی افغان پالیسی میں ان کے پرجوش ہمنوا ہوں گے۔ مگر بھٹو صاحب سیاسی پراکسی وار سے آگے بڑھنے کے موڈمیں تھے نا وہ افغان عوام کے خلاف کسی عالمی سازش کا حصہ بننے پر آمادہ ہوئے۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا پہلے ہی ان کا ناقابلِ تلافی جرم قرار پاچکا تھا۔ امریکی یہ بھی سمجھتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایران میں شاہ مخالف تودہ پارٹی کے لئے اپنے سیاسی نظریات کی بدولت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔امریکیوں نے بھٹو سے 1974ء میں ہی جان چھڑوانے کی کوشش کی تھی۔ بھٹو مخالف حزبِ اختلاف کی تحریک سول نافرمانی امریکی آشیر باد کا ہی نتیجہ تھی۔ وہ تو پاکستان (یوں کہہ لیں مغربی پاکستان، اب پاکستان بھی یہی تھا) کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آگیا اور اپوزیشن کی سول نافرمانی کی تحریک اس سیلاب میں بہہ گئی۔ سیاسی طور پر یقیناََ بھٹو صاحب سے بہت ساری غلطیاں سرزد ہوئیں مگر ان غلطیوں کے باوجود وہ پاکستان کے سب سے مقبول اور بلند پایۂ رہنما تھے۔ ان جیسا صاحب علم رہنما دوسرا کوئی نہ تھا۔ کچھ اندازوں اور کچھ مشاورت کی غلطیوں نے انہیں تنہا کیا۔ مگر وہ اتنے بھی تنہا نہیں ہوئے تھے۔ مگر ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ خود ان کی جماعت کے اندر ایسے رہنما موجود تھے جنہوں نے مارشل لاء لگنے کے فوراََ بعد فوجی حکام سے رابطہ کر کے کعبہ بدلنے کا عندیہ دے دیا۔ مولانا کوثر نیازی، سردار شوکت حیات، احمد رضاقصوری اور کمال اظفر ایسے ہی لوگوں میں شامل تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے ان تینوں سے کام لیا۔ احمد رضا قصوری کے والد بھٹو دور میں قتل ہوئے تھے۔ انہوں نے بعد میں بھٹوصاحب سے صلح کر لی۔1977ء میں پی پی پی کے ٹکٹ پر قصور سے دوبارہ قومی اسمبلی میں گئے۔ بیگم بھٹو کو اپنے گھر بلا کر ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا۔ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں بیگم نصرت بھٹو کے سر پر چادر اوڑھاتے ہوئے بولے’’بہن بھائی کے گھر سے خالی نہیں جاتی‘‘ مگر جونہی جنرل ضیاء الحق کے سٹاف آفیسر نے ان سے رابطہ کر کے ملاقات کے لئے کہاوہ فوراََ ’’برہنہ پاؤں‘‘ دوڑتے ہوئے اسلام آباد پہنچے۔ اور پھر اس سازش کے تانے بانے بننے لگے جس نے بعدازاں مقدمۂ قتل کی براہِ راست ہائیکورٹ میں سماعت کی صورت اختیار کی۔ جنرل ضیاء الحق پہلے ہی دن سے بدنیت تھے لیکن ان کے امریکی آقابھی جلد از جلدبھٹو سے جان چھڑوانا چاہتے تھے تاکہ جنوبی ایشیأ کے یا یوں کہہ لیں پاکستان کے دو پڑوسی ملکوں میں جو سیاسی نقشہ بننے جا رہا تھا اسے ناکام بنانے کا امریکی کھیل شروع ہو تو پاکستان میں مقبول عوامی رہنما موجود نہ ہو
جاری ہے۔۔۔
سابقہ اقساط کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn