دنیا کی تاریخ انسانی تجربات سے بھری ہوئی ہے اور دور حاضرمیں کوئی بھی انسان قدیم تاریخ کے مطالعے سے نہ صرف سبق سیکھ سکتا ہے بلکہ یہ موجودہ دور کے مسائل کے حل میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاریخ دانوں کا کام لوگوں کو زندگی کے انتہائی مایوس کن حالات سے روشناس کروانااور مشکلات اور مصائب سے سرخرو ہو کر نکلنے کے لیے جدوجہد اور عمل پیہم کی راہ دکھانا ہے۔
جرمن تاریخ دان سپینگلرنے 1917میں اپنی شہرۂ آفاق تصنیف مغرب کا زوال (decline of west)لکھی اور مدلل اور متاثرکن انداز میں مغربی تہذیب کی موت کی پیش گوئی کر کے اہل یورپ کواداس کر دیااگرچہ اس وقت مغربی تہذیب بام عروج پرتھی اور طاقتوراقوام ایشیا اور افریقہ کے قدرتی اور معدنی ذخائر پر قبضہ کر کے ان کو اپنی کالونی بنا چکیں تھی کہ پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔جنگ و جدل کے اس منظر نے مغربی تاریخ دان کی پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت کر دی۔
اس طرح ٹائن بی(Toyn Bee) نے دس جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب مطالعہ تاریخ(study of History)میں تمام دنیا سے23طاقتور اقوام کی تہذیبوں کامطالعہ کر کے تقابلی جائزہ پیش کیا اور اہل یورپ کو یہ نوید سنائی کہ جو بھی اقوام پیش آمدہ مسائل کا جوانمردی سے سامنا کرتی ہیں وہ مزید نکھرکے صفحہ تاریخ پہ ابھرتی ہیں جبکہ مسائل سے نظریں چرانے والی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔آج علم و حکمت ٹیکنالوجی،مادی اور صنعتی ترقی جو یورپ کی مرہون منت ہے ٹائن بی کی بات کو سچ ثابت کرتی ہے۔ ٹائن بی کے نظریے(Theory of Challenges & Response)کی کامیابی کی بہترین مثال یہودی قوم ہے۔یہودیوں کو فرانس،انگلینڈ،جرمنی اور سپین سے جلاوطن کیا گیالیکن انہوں نے اسے مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کی بجائے چیلنج کے طور پر لیا اور یہودی خاندان ر وتھ شیلڈ نے اپنا بینکنگ نیٹ ورک جرمنی سے لے کر پورے یورپ تک پھیلا دیا۔یہودی قوم کی کامیابی کی دوسری اہم کنجی ان کا قابل طلباء کو وظائف دے کر بہترین فلاسفر،مصنفین،سائنسدان اور معیشت دان پیدا کرنا تھا۔یہودی اقوام کی چیلنجزسے نمٹنے کی اس صلاحیت نے اسے دھتکاری ہوئی قوم کی بجائے کامیاب کاروباریوں اور عظیم سائنسدانوں کی فہر ست میں لاکھڑا کیا۔
ہمیں اس طرح کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں کہ جب بھی کسی معاشرے یا قوم نے خواہ وہ اقلیت ہو یا اکثریت ،مسائل کو چیلنج کے طور پر قبول کیا وہ ہمیشہ سرخرو ہوئی۔مثال کے طور پر سلطنت عثمانیہ میں عیسائی کمیو نٹی نے خود کو بہترین بیورو کریٹ اور منتظم قوم ثابت کیا جبکہ پارسی قوم انڈیا میں بہترین تاجر کے طور پر سامنے آئی۔پارسی اقلیت نے تجارت،کامرس ،ہوٹلنگ اور ایئر لائن کے کاروبار میں نام کمایا۔
ٹائن بی کے نظریے(Theory of Challenge & Response) کو سمجھنے کے لیے زرتشت کمیونٹی کی مثال اگلی کڑی ہے کہ جب وہ ہجرت کر کے انڈیا پہنچے تو انہوں نے اپنا مذہبی تشخص کوبرقرار رکھتے ہوئے مہاراشٹر کا مقامی کلچر اختیار کیا اور نہ صرف انڈیا بلکہ پاکستان میں کراچی تک اپنے کاروبار کو وسعت دی جبکہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک گروہ نے دارلعلوم دیوبند اور ندوۃالعلماء کی سرپرستی میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت جبکہ دوسرے گروہ نے سرسید کی رہنمائی میں انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کی لیکن جب اعلیٰ تعلیم کے باوجود ان کو ملازمتوں میں مقررہ حصہ اور دوسرے حقوق نہ ملے تو ایک طویل جدوجہد کے نتیجہ میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔مگر ستم ظریفی کہ پاکستانی اشرافیہ نے نوزائیدہ مملکت کے چیلنجز سے نبٹنے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی جس کی وجہ سے ممکت پاکستان اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کا شکا ر ہو گئی۔ اب پنڈولم کی طرح جھولتا ہوا ہمارا معاشرہ کب تک اپنا وجود برقرارکھے گاپیش گوئی کرنا تھوڑا مشکل ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn