Qalamkar Website Header Image

اگست کا مہینہ اور نواز شریف پر دباؤ

akram sheikh newاگست کا مہینہ آزادی کا مہینہ ہے۔عوام نے جشن بھی بھرپور طریقہ سے جوش و جذبہ کے ساتھ منایا ہے لیکن عجیب بات ہے اس مہینے سے جڑی ہوئی کچھ تلخ یادیں بھی ہیں جو کم کم ہی کسی کے ذہن میں ہوں گی۔ اسی اگست میں علامہ عارف حسینی کو شہید کیا گیا تھا جو وحدت المسلمین کے پرچارک تھے وہ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اس لئے انہیں یاد کرنا کچھ ایسا مناسب نہیں- شہزاد احمد اور احمد فراز بھی اگست میں اللہ کو پیارے ہوئے تھے۔ وہ شاعر تھے اس لئے انہیں بھی یاد کرنا کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ ایک مکتبہ فکر میں شاعری بھی جائز نہیں۔ اس لئے انہیں قابل توجہ نہیں سمجھنا اور بنانا چاہیے۔لیکن یہ اگست ہی تھا جب اسی ملک کو انتہاپسندی اور شدت پسندی کی طرف دھکیلنے والے جنرل ضیاء الحق پاکستان کی فوجی کریم کے ساتھ ایک ہوائی حادثے کی نذر ہوگئے۔ انہیں اسلام آباد کی فیصل مسجد کے صحن میں سپرد خاک کیا گیا تھا انہیں شہید کے مرتبے پر فائز کیا گیا۔ دو چار سال ان کی برسی بھی بڑے اہتمام سے منائی گئی لیکن پھر ہر فوجی حکمران کی طرح پاکستان کے عوام نے انہیں بھی فراموش کردیا- اب یہ تقریب صرف ان کے اہل خانہ بلکہ اعجاز الحق تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ تاریخ کے طالب علموں کو یاد ہے کہ پہلی برسی پر نوازشریف نے ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیا تھا- شاید اسی سیاسی سرپرستی کا احسان اتارنے کی خواہش تھی بلکہ اس احسان کا بدلہ بھی تھا۔ جس میں ضیاء الحق نے پنجاب میں اُٹھنے والی بغاوت میں نوازشریف کی وزارت اعلیٰ کی حمایت بھی کی اور ان کا کلہ مضبوط ہونے کا اعلان بھی کیا تھا- اس پرانی بات کی یاد پنجاب کے خادم اعلیٰ کے اس بیان کے تناظر میں بھی آئی ہے جس میں انہوں نے یوم آزادی سے ایک دن پہلے دیا اور کہا کہ فوجی ادوار میں مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں ملا کسی نے اسلام کے نام پر قبضہ کیا تو کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرکے اقتدار کو اپنی گرفت میں لیا- ظاہر ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب جوش خطابت میں بہت کچھ ایسا بھی کہہ جاتے ہیں جو حقائق کے منافی ہوتا ہے ورنہ یہ بھی پوچھا جا سکتا تھا کہ حضور اعلیٰ یہ جو شریف خاندان کی سیاست میں آمد اور پنجاب پر قبضہ ہے وہ کیسے ہوا؟ نون لیگ کیسے بنی اور اس کی سرپرستی کہاں سے ہوئی تھی؟ جونیجو صاحب کس دکھ سے اندر ہی اندر کھوکھلے ہو کر ملک عدم سدھار گئے تھے؟ لیکن یہ بات بہرحال اہم ہے کہ انہیں اس موقع پر ایسی بات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟؟ وہ کون سے حالات ہیں جو ان الفاظ کو غیرمعمولی بنا گئے ہیں؟؟ ہم جانتے ہیں کہ 20اگست سے مولانا کینیڈا والے مختلف شہروں میں احتجاج کا آغاز کر رہے ہیں- عمران خان نے بھی تحریک احتساب شروع کر رکھی ہے۔ ایک دو مارچ بھی کئے ہیں قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی اہلیت کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ یہ ریفرنس الیکشن کمیشن اور عدالت کے بجائے قومی اسمبلی میں ہی کیوں دائر کیا جا رہا ہے اور اگر یہ ریفرنس آیا تو سپیکر کب تک اسے اپنے پاس رکھیں گے اور کب اسے الیکشن کمیشن کے پاس بھیجیں گے؟؟ اور کب اس کا فیصلہ ہوگا؟؟ لیکن امر واقع ہے کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک اگست2014ء کے دھرنے کی تاریخ دوبارہ دہرانا چاہتے ہیں یہ الگ بات کہ اب حالات اور اس کے تقاضے مختلف ہیں۔ عمران خان اپنی سیاسی غلطیوں اور فضول قسم کی بیان بازیوں سے اپنی عوامی حمایت کھو چکے ہیں اب کی بار دھرنا کچھ آسان نہیں اور اس کو صرف پختون خوا حکومت کی مدد سے کامیاب نہیں بنایا جاسکتا- ویسے بھی تاریخی روایت ہے کہ جس تحریک میں لاہور کے عوام کی شمولیت نہ ہو وہ بہت کم کامیاب ہوتی ہے مگر افسوس کہ طاہر القادری کا لاہور شو کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرسکا۔ اس لئے اب اسلام آباد سے لاہور کا رخ کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے پھر بھی خواہش اور کوشش ہے کہ اس دفعہ پیپلزپارٹی بھی ساتھ ہو۔لیکن ابھی تک شاہ محمود قریشی کے رابطے اور یقین دہانیاں مثبت نتائج کا باعث نہیں بن سکیں- کیونکہ وہ ہرحال میں جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے اور کسی ایسے عمل میں شریک نہیں ہونا چاہتی جس سے غیر متوقع نتائج برآمد ہوں۔لیکن یوں لگتا ہے کہ چودھری نثار علی خان پے درپے تیر اندازی کرکے پیپلزپارٹی کو اپنی جگہ سے ہٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب وہ اپنی سیاسی زمین سے علیحدہ ہوگی تو اسے مخالف کیمپ میں جانا ہوگا یا پھر اپنی علیحدہ تحریک شروع کرے گی- جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اور جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کسی بھی طرح میاں محمدنوازشریف اور ان کی وزارت عظمیٰ کے لئے کسی بھی طرح سودمند نہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ نثار علی خان کی ناراضی یا علیحدگی بھی افورڈ نہیں کرسکتے یہ الگ بات کہ اس کا خمیازہ تو بہرحال ماضی کی طرح نوازشریف اور ان کے خاندان کو ہی ادا کرنا پڑے گا۔نثار علی خان ماضی میں بھی محفوظ رہے تھے اور آئندہ بھی رہیں گے-
بہرحال دوستو ! پاکستان کا اندرونی سیاسی منظر نامہ کچھ ایسا خوشگوار نہیں ایک طر ف حکومت اور اپوزیشن کی اس محاذ آرائی کو شدت میں لانے کی کوشش ہو رہی ہے تو دوسری طرف آرمی چیف نے ایکشن پلان پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بالواسطہ حکومت پر سستی کے الزامات عائد کرکے سول اور دفاعی اداروں کے درمیان تضاد و تفاوت کی نشاندہی کرکے اندیشہ ہائے گوناگوں کو نمایاں کیا ہے جن سے کچھ ناممکنات اور غیر متوقع اقدامات کا امکان بھی ہے جن میں سب سے زیادہ اہم آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت یا پھر فوجی قیادت برقرار رکھنے میں تین سال کی توسیع ہے جو روایت کے مطابق 29اگست تک یعنی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے ہونا ہے۔ لیکن دروغ بر گردن راوی یہ امریکہ اور بھارت کے سیاسی‘ معاشی اور دفاعی اتحاد کو پسند نہیں جبکہ وزیراعظم نوازشریف اس کے شدید دباؤ میں ہیں- وہ جو بھی فیصلہ کریں گے نیا آرمی چیف مقرر کریں یا ان کی مدت ملازمت میں توسیع کریں ہر دو صورت میں نتائج کی زد میں نوازشریف ہی ہونگے۔ اس تناظر میں عمران خان تو کہتے ہیں جنرل راحیل کو فیلڈ مارشل بننے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خود کیا چاہتے ہیں یہی راز ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے-

حالیہ بلاگ پوسٹس