معرکۂ کربلا کے حوالے بنیادی اہمیت کے حامل آقائے صادق حضرت محمد ﷺ کے وہ ارشاداتِ گرامی (احادیث) ہیں جو تمام مکاتبِ فکر کی کتب احادیث اور تاریخ کی دستیاب کتب میں موجود ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اُ دھر محرم الحرام کا چاند طلوع ہوتا ہے اور اِدھر ارشاداتِ نبویْ ﷺ کو پسِ پشت ڈال کر اپنی اپنی کج رویوں کے بھاشن سنانے والے میدان میں اتر آتے ہیں۔ لمحہ بھر کے لئے اگر ہم تاریخ کو کلی طور پر مسترد کرنے کی منطق کو مان بھی لیں تو پھر اس سوال کا جواب کس کے پاس ہے کہ فقط مسلمانوں کے نہیں بلکہ سارے مذاہب و نظریات کے عصرِ حاضر میں موجود پیروان کے پاس جو کچھ بھی موجود ہے یہ تاریخ کی عطا ہی ہے۔ تاریخ سے کُلی انکار کا مطلب یہ ہو گا کہ کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ایسا ہے توپھر زعم کس بات کا؟ تکرار کیسی؟ فتوؤں کی نیاموں سے تلواریں باہرکیوں نکل آتی ہیں؟ اس طالب علم کی رائے یہی ہے کہ انکار کی ضدپر اڑے رہنے کی بجائے ہمیں عقیدتوں کے باب میں دخل اندازی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیا کربلا محض عقیدت کا باب ہے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جی نہیں۔ کربلا محض عقیدت کا باب نہیں بلکہ حریت فکر کی زندہ جاوید داستان ہے۔ کربلا ہمیں سمجھاتی ہے کہ حق پرستوں کے لئے لشکر سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ دلیل حق پر ثابت قدم رہے۔ کربلا، تین دن کے بھوکے پیاسوں کا اپنی جانیں قربان کر کے رضائے الٰہی خرید لینے کی معراج ہے۔کربلا کا پیغام یہی ہے کہ ’’کربلا کو آپ کے دین و دھرم، مسلک، ذات پات، شخصی و گروہی عقیدے اور رنگ و نسل سے کوئی غرض نہیں۔ اگر آپ انسان ہیں تو اپنے اپنے عہد کے ظالم و خائن اور جابر حکومت اور نظام کے خلاف مظلوموں کی مدد کے لئے فکری استقامت سے قیام کیجئے‘‘۔ ہم سب کا المیہ یہ ہے کہ ہم کربلا کے حقیقی پیغام پر توجہ دینے سے گریزاں ہیں اور اس معرکۂ حق و باطل کو اپنے اپنے ظرف کے مطابق دیکھتے ہیں۔
پیغام کربلا کی ابدی صداقت یہ ہے کہ یہ پیغامِ سبطِ مصطفی ﷺ حضرت امام حسین علیہ السلام ،آپ کے احباب و انصار کے مقدس لہو سے لکھا گیا۔ اپنے عہد کی ریاست کے جبرواستحصال اور عدم مساوات پر مبنی پالیسیوں کے خلاف میدان کربلا میں ۲۶ سے ۲۹ ہزار کی تعداد پر مشتمل عدو کے لشکر ( ۲۹ ہزار کی تعداد کی روایت شہیدِ کربلا امام حسین ؑ کے فرزند امام علی زین العابدین سے لی گئی) کے سامنے ڈٹ جانے والے نفوس نے اپنی استقامت و شجاعت سے یہ ثابت کیا کہ دلیل حق افراد کثیرتعداد کی محتاج ہے اور نہ حق پرستوں کی محدود تعداد کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اکثریت ان کی مخالف ہے اس لئے دلیل بے وزن ہے۔ تاریخ میں اپنے اپنے کج کا زہر ملانے کی بجائے ہمیں سبطِ حضرت مصطفی ﷺ امام حسین ؑ کے ارشادات پر توجہ دینا ہوگی۔ مکہ میں جب حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے شہرِ امن کو چھوڑنے کا فیصلہ سنایا تو اس موقع پر موجود احباب و انصار اور مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’حق کا پرچم سربلند رکھنے کے لئے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔خلافت الٰہیہ کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اسلام نے جن تعصبات کا خاتمہ کیا تھا ان کی پھر سے آبیاری کی جار ہی ہے۔ امت کی امانت (بیت المال) میں خیانت برتی جا رہی ہے۔ حرام و حلال کی تمیز ختم ہو رہی ہے۔ ان حالات میں مجھ حسینؑ کا خاموش رہنا ظلم و جبر کی تائید کہلائے گا۔ حج سے فقط ایک دن قبل مکہ میں ارشاد فرمائے گئے اس خطبے کے اقتباس پر غور کیجئے۔ ایک ایک لفظ اس عہد کے نظام اور انداز حکمرانی ہردو کے اسلام کے نظام ہائے عدل و مساوات سے انحراف کی تصدیق کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان ارشادات میں خود پسندی و جاہ طلبی کہاں ہے؟ یہ تو صاف سیدھی بات ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے جس نظام عدل و مساوات کی بنیاد رکھی تھی اس کی روح کچلی جا رہی ہے۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ خود امام حسنؑ (امام حسین ؑ کے برادر بزرگ) اور حاکم شام امیر معاویہ کے درمیان ہونے والے معاہدہ امن کی ایک شق میں خلافت کے مستقبل کا حل یہ تجویز کیا گیا تھا کہ ’’امیر معاویہ اپنے بعد کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں کرسکیں گے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور اقابرین امت مل بیٹھ کر نئے خلیفہ کا انتخاب کریں گے‘‘۔ خلیفہ کے طور پر یزید کی نامزدگی بذات خود اس معاہدے کی خلاف ورزی سے جو ملت اسلامیہ میں قتل و غارت گری روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔ اس تاریخی حقیقت اور معاہدے کے وجود سے انکاری حضرات کے پاس دلیل سے زیادہ کج بحثی کا سرمایہ ہے۔
سیدی عالی وقار امام حسین ؑ نے مکہ سے واپسی اور پھراس تکونی مقام سے عراق کی طرف (وہ مقام جہاں سے ایک راستہ مدینہ دوسرا عراق اور تیسرا مکہ کو جاتا ہے) کرتے ہوئے رک کر اپنے قافلے کے ساتھ موجود لوگوں کو خطبہ دیا۔ آپ ؑ نے فرمایا ’’لوگو گواہ رہنا ، میں نے حدود اللہ کی سربلندی اور اسلام کے نظام عدل و مساوات کی بات حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں کی ہے۔ میرے یا میرے خاندان کے ذاتی مقاصد ہرگز نہیں۔ حکومت وقت کی اطاعت (بیعت) کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں کسی کو ساتھ چلنے پر مجبور کرتا ہوں نا زور دیتا ہوں اس لئے کہ مجھے حکومت حاصل کرنے کے لئے کسی سے جنگ نہیں کرنی۔ میرا مقصد فقط اتنا ہے کہ فرزندِ رسول ﷺ کی حیثیت سے اصلاح معاشرہ کااپنا فرض ادا کرتا رہوں اور لوگوں کو یہ بتانا میرا فرض ہے کہ وہ اسلام، اخوت، جذبہ قربانی اور ایثار سے دور ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ کربلا کیا ہے ہم اسے ایک اور انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کتبِ تواریخ اور کتبِ مقتل ( کربلا کے حولے سے لکھی گئی تاریخ) دونوں میں حضرت امام حسین ؑ اور ان کے ۱۸ سالہ فرزند حضرت علی اکبرؑ کا ایک مکالمہ درج ہے۔ محرم الحرام کے ان دنوں میں جب ریاستی لشکر نے امام حسین ؑ کے احباب و انصار کو گھیرے میں لے کر خلیفہ کے حکم کی بجا آوری میں سختیاں شروع کر دیں تو ایسے ہی ایک دن حضرت علی اکبرؑ نے اپنے شفیق و مہربان والد امام حسین ؑ سے دریافت کیا،’’بابا جان! کیا ہم حق پر نہیں‘‘؟ سبطِ مصطفی ﷺ امام حسین ؑ نے مسکراتے ہوئے جوان بیٹے کو جواب دیا،’’جانِ پدرہم ہی تو حق پر ہیں‘‘۔ والد معظم کے اس جواب پر نوجوان صاحبزادے حضرت علی اکبرؑ نے کہا،’’بابا جان! پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تلواریں ہم پر ٹوٹیں یا ہم تلواروں پر جا پڑیں۔ حق کی سربلندی کے لئے آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے‘‘۔ باپ بیٹے کے درمیان ہوئے اس مکالمے کے ایک ایک لفظ پر غور کیجئے۔ حق پر ہونے کی دلیل اور یقینِ کامل کے سوا اس میں اور کیا ہے؟ میدان کربلا میں ہی عدو کے لشکر سے اتمام حجت فرماتے ہوئے امام حسین ؑ نے کہا،’’اے لوگو! تمہیں میرے قتل کے لئے یہاں ہانک کر لایا گیا ہے۔کچھ سے انعامات و اکرامات کے وعدے کیے گئے اور کچھ کو بعض شہروں کا حاکم بنانے کا وعدہ۔ مگر تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ اس عمل سے دنیا تو پا لوگے مگر آخرت میں تمہارا ٹھکانہ جہنم کے سوا کچھ نہیں۔ میں حسین ؑ تمہیں اللہ اوراس کے رسولﷺ کے حضور رسوا ہونے سے بچنے کا موقع دے رہا ہوں۔ دیکھو جہنم کی آگ کے خریدار نہ بنو۔ اپنے دلوں کو کدورتوں سے پاک کر لو۔ نفس کو دنیا کی محبت سے نجات دلاؤ۔ تقویٰ اختیار کرو۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی اس حال میں بھی مدد کرو کہ چاہے ظالم تمہارا بھائی ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ ایک اور موقع پر سبطِ احمدِ مرسل ﷺ فرماتے ہیں لوگو ! کتنی جلدی تم بھول گئے کہ، تم پست و جاہل اور متکبر تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے جدِ بزرگوار حضرت محمدؐ کو انسانیت کیلئے رسول اور نجات دہندہ بنا کر بھیجا ، میرے ناناجانؐ نےتمہہیں پستیوں سے نکال کر سربلند کیا جہالت و تعصبات سے نجات دلاکر شعور زندگی و بندگی سے روشناس کرایا حق کو سربلند کرنے کا درس دیا ، وائے ہو تم پر ، تم نے آنکھیں پھیر لیں ، لیکن کیا تمہارے انحراف و عداوت سے حق مٹ جائے گا ، بلکل نہیں ، اللہ نے قران میں وعدہ کیا ہے ، جس مظلوم کا ساتھ دینے اور بدلہ لینے والا کوئی نہیں ہوگا اس مظلوم کا بدلہ اللہ تعالیٰ خود لے گا ، میں تمہیں قدرت کے انتقام سے بچنے کی دعوت دے رہا ہوں ، نفس کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا موقع دے رہا ہوں ، خواہشوں کے سرکش گھوڑوں سے اُترو ، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو تطہیر ذات کی دعوت پر عمل کرو اور اسے لوگوں تک پہنچاو ، اے لوگو ! گواہ رہنا مجھ حسینؑ نے تم تک حق کی دلیل پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ریگزارِ کربلا پر آلِ محمد ﷺ اور احباب و انصار کے مقدس لہو سے لکھی تحریر یہی ہے۔ حق یہی ہے کہ انسان حق ادا کرنے میں کم ہمتی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جبر واستبداد کے خلاف تعداد میں کمی کے باوجود ڈٹ کر کھڑا ہو۔ مظلوم کی ہمنوائی میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ یہی پیغامِ کربلا ہے۔ یہی دلیل حق ہے۔
بشکریہ: روزنامہ خبریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn