پیسہ کمانا ہر فرد کی خواہش ہی نہیں اکثریت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ انسانی فطرت میں موجود لالچ ہمیشہ ایسے طریقوں پر زیادہ توجہ حاصل کروا دیتا ہے جس میں محنت کم اور پیسہ زیادہ سے زیادہ ہو۔ لالچ نہ بھی ہو پھر بھی انسانی فطرت ان ذرائع کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے جس میں محنت کم اور اس کا صلہ زیادہ ہو۔ پچھلے چند سالوں میں انٹرنیٹ نے جہاں متعدد آسانیاں فراہم کیں وہیں ایک کام انسان کو اپنی محنت آن لائن بیچنے کا ذریعہ بھی عطا کر دیا ہے۔ ڈھیروں ویب سائٹس یا ذرائع ایسے ہیں جہاں انسان محنت کر کے آن لائن پیسے کما سکتا ہے۔ اور اس کمائی کو اگر پاکستانی مارکیٹ کے حساب سے دیکھا جائے تو آن لائن کمانا مقامی ملازمت سے کہیں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر ہنر کی قیمت مقامی قیمت سے زیادہ نہیں لیکن اکثریت ایسے کاموں کی ہے جس کی وجہ سے کمائی آن لائن زیادہ فائدہ مند ہے اور اس کی قیمت بھی مقامی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جس کی ایک بنیادی وجہ عالمی سطح پر ملنے والی رقم کا ڈالر میں ہونا ہے۔ اور آن لائن کام کے پیسے بھی زیادہ تر مقامی سے زیادہ عالمی مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کو بے تحاشہ ایسی ویڈیوز دیکھنے کو مل جاتی ہیں جس میں کوئی نہ کوئی یوٹیوبر ہر چند دن بعد کوئی نہ کوئی ایسا طریقہ سکھانے کے چکر میں مصروف ہوتا ہے جس سے آن لائن پیسے کمائے جا سکیں۔ ان میں سے اکثریت تو ایسے ہیں جو یہ مجوزہ طریقے بتا کر کسی کو تو شائد پیسے کمانے کے قابل بنائیں نہ بنائیں لیکن کمائی کے شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے شوقین انٹرنیٹ صارفین کو اپنی ایسی ویڈیوز دکھا کر دھڑا دھڑ پیسے کمانے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور ایسی کمائی کا ذریعہ وہی شوقین افراد بنتے ہیں جنہیں فوراََ سے بیشتر پیسے کمانے کا ڈھیروں لالچ ہوتا ہے۔ یوٹیوب پر جائیں تو سامنے ایسی ویڈیوز کے تھمب نیل دیکھ کر فوراََ اندر سے آواز آتی ہے کہ ضرور دیکھو اس ویڈیو کو۔ کیونکہ تھمب نیل میں ہی ماہانہ ہزاروں ڈالر یا روزانہ سینکڑوں ڈالر آرام سے کمانے کی خوشخبری دی جا رہی ہوتی ہے۔ اب ایک عام صارف یا پاکستانی جس کے پاس موبائل ہے یا کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ وہ فوراََ متوجہ ہو گا کہ فوراََ دیکھوں کہ کیسے میں یہ کما سکتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر موجود پاکستانیوں کی اکثریت ماہانہ 500 ڈالر بھی پاکستان میں کام کر کے نہیں کما پاتی۔۔ ایسے میں ہزاروں ڈالر کمانے کا پڑھ سن کر مونہہ میں پانی آنا لازمی بات ہے۔ اسی سے یوٹیوبرز اور فیس بک ویڈیو اپلوڈ کرنے والے "موٹیویشنل اسپیکرز” فائدہ اٹھا کر اپنی کمائی کھری کر لیتے ہیں۔
ساری تجاویز جو ایسے سوشل میڈیا ئی موٹیویشنل اسٹارز فراہم کر رہے ہوتے ہیں فضول نہیں ہوتیں۔ کچھ بہت کام کی تجاویز بھی ہوتی ہیں۔ اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو روزانہ سو ڈالر کمانا وہ بھی آن لائن کام کر کے ناممکن نہیں ہے۔ لیکن اس لیول پر جانے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔ اور یہ محنت ایک روز کا کام نہیں ۔ کئی ماہ یا سال بھی لگ جاتے ہیں اس مقام پر پہنچتے پہنچتے ۔ فضول تجاویز وہ ہوتی ہیں جس میں فوراََ فوراََ سینکڑوں ڈالر کمانے کا لالچ دیا جارہا ہوتا ہے۔ چند ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بات گھما کر اپنی ویڈیو سے پیسے کمانے کی بونگی ترکیبوں کی بجائے اصل بات سمجھاتے ہیں۔ اور بتاتے ہیں کہ اس مقام پر پہنچنے کے لیے شارٹ کٹس نہیں محنت کی جائے اور ہنر سیکھا جائے۔ ابھی کل ہی ایسی ایک ویڈیو کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک استاد جناب عمران علی دینا کی بھی دیکھی۔ جس میں بڑے صاف لفظوں میں انہوں نے ایسی ہی بات کہی۔ اور ہنر سیکھنے پر زور دیا۔
سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے گروپس ہیں جہاں آن لائن کمائی کے طریقے سکھانے والے نامور لوگوں کی ٹیم موجود ہوتی ہے اور وہاں ایسے اشخاص سے سیکھنے والے طالب علموں کے کام بھی چل رہے ہوتے ہیں اور ان کو کام پر راہنمائی بھی مل رہی ہوتی ہے۔ عمران علی دینا صاحب کا گروپ ہے، ہشام سرور صاحب کا گروپ ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے احباب ہیں جو بہت سے ہنر سکھانے میں مصروف ہیں۔ جن سے فائدہ اٹھا کر اور ہنر سیکھ کر اسے فری لانسنگ پلیٹ فارمز پر کمائی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ فری لانسنگ گروپس میں اکثر سوالات ہوتے ہیں کہ میں کیا سیکھوں جس سے کما سکوں؟ کون سی ایسی چیز ہے جو لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کی بجائے موبائل سے کر کے پیسے کما سکوں؟ وہیں کچھ فراڈ کر کے کمائیاں کرنے والوں کے جوابی کمنٹس کے ساتھ کچھ کے مزاق اڑانے والے کمنٹس کے ساتھ ساتھ کچھ حقیقی رہنمائی والے جوابات بھی ہوتے ہیں۔ جن کا اگر نچوڑ نکالا جائے تو یہی بنتا ہے کہ اپنی قابلیت اور شوق کے مطابق شعبہ چن کر اس میں مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کو روزگار کا ذریعہ بنایا جائے۔
پاکستانی صارفین چونکہ جلد بازی کے مریض ہیں اس لیے ادھر ہنر سیکھنا شروع کرتے ہیں ساتھ ہی فری لانسنگ پلیٹ فارمز پر اپنی آئی ڈی بنا کر وہاں سے کام ڈھونڈنے میں بھی مگن ہوجاتے ہیں۔ یا ادھر کورس مکمل کیا اور ساتھ ہی منڈی میں داخل ہو گئے۔ فری لانسنگ مارکیٹ ایسی جگہ ہے جہاں دنیا بھر سے اپنا ہنر بیچنے والے بیٹھے ہیں۔ اور اپنے ہنر پر اپنی مہارت کے حساب سے کما رہے ہیں۔ وہاں اکثر ایسے نومولود فری لانسرز کو کام ڈھونڈنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وجہ بالکل نیا ہونا اور کام پر مہارت نہ ہونا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہی پھر گروپس میں ایسی پوسٹ کرتے ہیں کہ اتنے ماہ ہو گئے آج تک ایک آرڈر نہیں ملا۔ چند ایک تو ایسےبھی مل جاتے ہیں جنہیں دس دن میں ایک بھی آرڈر نہ ملنے کا غم کھائے جا رہا ہوتا ہے۔ ان کی رہنمائی کے لیے دیے جانے والے جوابات اور جوابی کمنٹس ظاہر کرتے ہیں کہ نومولود فری لانسر صرف ہنر سیکھتے ہیں اور بنا اس پر مکمل گرفت کیے بس فری لانسنگ پلیٹ فارم پر اپنی "دوکان” کھول لیتے ہیں۔ اور یہیں سے مار کھاتے ہیں۔ ایسی مار کھاتے ہیں کہ چند ہفتوں یا مہینوں میں بد دل ہو کر اپنی دوکان بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔
میرا فری لانسنگ یا آن لائن پیسے کمانے کے خواہش مندوں کو مخلصانہ مشورہ یہی ہو گا کہ آن لائن پیسے کمانے کی خواہش کرنا بالکل ایک جائز بات ہے اور کوشش بھی کرنی چاہیے۔ یوٹیوب، فیس بک یا دیگر ذرائع سے لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے احباب کی کمائی کی ویڈیوز سے متاثر ہو کر اس فیلڈ میں جانے کی ہمت کرنا یا جانا بھی بالکل مناسب بات ہے۔ لیکن پہلے ہی دن ان کی پیروی کر کے وہی کام شروع کر کے پیسے کمانا یا اتنے ہی پیسے کمانا جتنے وہ کما رہے ہیں کی خواہش رکھنا اور نہ ملنے پر بددل ہو جانا ایک بچگانہ اور چھوٹی سوچ کی نشانی ہے۔ جس کام سے وہ لاکھوں کما رہے ہیں انہیں اس مقام پر پہنچنے کے لیے بہت وقت لگا۔ آپ بھی کام شروع کریں اور وقت دیں۔ کام کرنے کے طریقہ کار اور اس کو ساتھ لے کر چلنے پر خصوصی توجہ دیں اور سیکھیں بھی۔ پھر کامیابی لازمی آپ کے قدم چومے گی۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn