کیا روزا لکسمبرگ نے کوئی فیمنسٹ نظریاتی سیاسی ورثہ چھوڑا تھا ؟ کیا وہ ہمیں عورت پہ جبر کو سمجھنے کے لیے نظریاتی رہنمائی دیتی ہے اگر ایسا ہے تو وہ کیا ہے ؟
یقینی بات ہے کہ روزا لکسمبرگ ہمارے ہاں موجود ظالمانہ نظام کی فطرت کو سمجھنے اور اس کے خلاف اپنے پرجوش کمٹمنٹ کے لحاظ سے سارے زمانوں کے لیے ایک ماڈل یا نمونے کی حثیت رکھتی ہے – اور اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کے حوالے سے بھی اس کی کمٹمنٹ ہمارے لیے کسی نمونے سے کم نہیں ہے اور اس نے اس بحث میں جائے بغیر کہ عورتیں کیا کرسکتیں اور کیا نہیں جس طرح سے اپنی سیاسی زندگی گزاری وہ بھی ایک مثال کی حثیت رکھتی ہے
لیکن آج سوشلسٹ فیمنسٹ کے اندر جو مباحث ہیں اگر روزلکسمبرگ کو کچھ کہنا پڑتا تو وہ کیا کہتی ؟ کیا ان معنوں میں وہ فیمنسٹ تھی بھی کہ نہیں ؟ کیا عورت پر جبر بارے اس کا موقف وہی تھا جو اس کا قومی جبر بارے نوقف تھا ؟ ( وہ لینن کے قوموں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے کو طبقاتی جدوجہد سے یک گونہ انحراف خیال کرتی تھی )
اور یہ سوال کہ آج فیمنسٹ جن عملی سیاسی سوالات کا سامنا کررہے ہیں کیا روزالکسمبرگ کا کام ہمیں ان کے متعلق کوئی رہنمائی فراہم کرتا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کو ہمارا پینل آج ڈسکس کرے گا
لکسمبرگ اور زیٹکن
لکسمبرگ نے عورتوں کے حوالے سے خصوصی طور پر الگ سے کوئی شئے نہیں لکھی اور وہ عورتوں کی تحریک میں متحڑک بھی نہیں تھی -کچھ لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ فیمنسٹ نہیں تھی یا وہ کسی بھی طرح سے ویمن ایشو میں دلچسپی نہیں لیتی
ظاہر ہے کہ یہ اس کی دلچسپی کا بنیادی دائرہ نہیں تھا لیکن کیوں ان کو ہونا چاہیے ؟ کیا وہاں محنت کی تقسیم نہیں ہوسکتی ؟
کلارا زیٹکن لکسمبرگ کی قریبی ساتھی اور دوست تھی اور وہ محنت کاس عورتوں کے ساتھ اپنے کام کے حوالے سے بہت مشہور تھی اور اس نے 1970ء کی طرح کے شعور ابھارو عورتوں کے گروپس بنائے تھے جس نے لینن کو تھوڑا بے چین کردیا تھا اور مرے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ روزا نے اس کے کام سے اتفاق نہ کیا ہو
بلکہ 1818ء میں نومبر کے مہینے میں روزا نے جو آخری خطوط لکھے اس میں زیٹکن کو عورتوں پہ ایک مضمون لکھنے کا کہتی ہے اور اس میں وہ لکھتی ہے کہ
یہ (عورتوں پہ مضمون لکھنا ) اب بہت ضروری ہے کیونکہ ہم سے کوئی بھی اس بارے کچھ بھی نہیں جانتا
” اور سپارٹیکس اخبار کے ” عورتوں کے سیکشن ” کو ایڈٹ کرنا ، یہ ایک ایسا فوری توجہ کا محتاج معاملہ ہے کہ اس میں جو بھی دن ضایع ہوگا وہ گناہ میں شمار ہوگا "
روزالکسمبرگ کی خط و کتابت کے یہ اقتباسات اور عورتوں پہ لکھی گئی تحریریں صاف واضح کرتی ہیں کہ آج مارکسی سوشلسٹ فیمنسٹ جن معنوں میں کہا جاتا ہے ان معنوں میں روزالکسمبرگ بھی مارکسی سماج واد فیمنسٹ تھیں
سب سے پہلے میں مختصر طور پہ یہ بتاؤں گی کہ میں ایک سماج واد فیمنسٹ کو کیسے بیان کرتی ہوں اور ان میں کچھ مارکسی ہیں اور کچھ نہیں اور پھر میں یہ بتانے کی کوشش کروں گی کہ ہمارے درمیان آج جو مباحث ہیں روزالکسمبرگ اس میں کہاں کھڑی ہیں
سماج واد فیمنسٹوں کے درمیان
جتنے بھی سماج واد (سوشلسٹ ) فیمنسٹ ہیں ان کے نزدیک عورتوں کی زندگیوں میں مرکزی کردارطبقہ کا ہے ، جبکہ اسی وقت کوئی بھی سماج واد فیمنسٹ جنس ، نسل پر بنیاد رکھنے والے جبر کو معاشی استحصال تک محدود نہیں کرتا
اور ہم سب اپنی زندگیوں کے ان پہلوؤں اپنی زندگیوں کا نقابل علیحدگی جزو خیال کرتے ہیں دوسرے لفظوان میں "طبقہ ہمیشہ صنفیاتی اور نسلیاتی ” ہواکرتی ہے
یہ جو Intersectionality کی اصطلاح ہے یہ اسی موقف کو بیان کرنے کے لئے وضع کی گئی ہے -لکسمبرگ اسی طرح کا تناظر رکھتی تھی اور وہ یہ جان گئی تھی کہ جبر کی بعض اقسام تو تمام عورتوں میں مشترک ہیں لیکن بعض طبقہ اور قوم کی بنیاد ہر مختلف ہوتی ہیں
جبکہ خصوصی ضروریات محنت کش طبقے کی خواتین کی روزا کی پہلی ترجیح تھیں لیکن وہ کچھ ایسے موقف بھی اختیار کرتی تھیں جو بورژوازی ہوتی تھیں جیسے عورتوں سے امتیاز برتنے والے تمام قوانین کا خاتمہ اور ان کا ووٹ کا حق ، جن کو وہ بطور اصول اور عملی سیاسی وجوہات کی بنیاد پہ بھی انکی حمائت کرتی تھیں
عورتوں کو سیاست میں لانے سے پدر سری نظام سے تشکیل پانے والی دم گھونٹنے والی خاندانی تشکیل جو کہ سماج واد مردوں تک کو متاثر کرتی ہے سے مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے سوشل ڈیموکریٹک فورسز کی صفوں کی تعمیر کرنے میں بھی آسانی ہوگی -یہ موقف اور پوزیشن اس زمانے کی سرمایہ دار /بورژوا ویمن تنظیموں میں بہت آگے کے موقف تھے
ایک موقعہ پہ روزا نے سوشل ڈیموکریٹس پہ تنقید کی جو لبرلز کے ساتھ الائنس بنانے کے لئے عورتوں کے حق ووٹ پہ سمجھوتہ کرنے پہ تیار تھے جبکہ جو انقلابی سوشلسٹ تھے ان کی اکثریت بہترین عورتوں کے حقوق کی حامی بھی تھی یعنی وہ بہترین فیمنسٹ بھی تھے Intersectionality کی وسیع تر تعریف کے لحاظ سے ان جبر کی اقسام کی تفہیم اور ان کے آپس میں تعلقات کے تعین میں اختلافات بہرحال موجود ہیں
کچھ سماج واد فیمنسٹ سرمایہ داری اور سیکس ازم (ایسا نظام جو جنس اورصنف کی بنیاد پہ امتیازی ضابطوں کا حامی ہو اور اسے عمومی طور پہ پدرسری نظام کہا جاتا ہےجس میں مردوں کی بالا دستی ہوتی ہے )دو الگ اور ممیزنظام خیال کرتے ہیں اور دونوں کی تشریح کی برابر اہمیت کے قائل ہیں (دوسرے نظام نسلی و ایتھنک جبر کی کہانی بیان کرنے کو اسی منظر کا حصہ خیال کرتے ہیں )
جیسے سرمایہ داری نظام سرمایہ داروں اور مزدوروں کے درمیان جبر اور استحصال پہ مبنی رشتوں کا نام ہے ایسے ہی پدرسری نظام وہ ہے جس میں مرد عورت پہ جبر کرتا ہے کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مردعورت کا استحصال کرتا ہے اور وہ اسے کئی طرح سے بیان کرتے ہیں اور اسے "دو نظاموں والا موقف ” بھی کہا جاتا ہے
مارکسی فیمن ازم
دوسری طرف دوسرے مارکسی /سوشلسٹ فیمنسٹ یہ یقین رکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں استحصال اور جبر کی صرف ایک ہی قسم ہے جو حقیقی طور پہ مکمل طاقت رکھنے والے ایک نظام کی تشکیل کرتی ہے اور وہ ہے سرمایہ داری نظام
تاہم مختلف اوقات و مقامات میں جبر کی جو دیگر واضح اور ممتاز شکلیں ہیں بشمول پدرسری نظام وہ اس نظام کے فریم ورک کے اندر رہ کر اہم کردار ادا کرتی ہیں
ایک نظام یا دو نظام -یا زیادہ -یہ انتہائی تجریدی نظریاتی سوال ہے ،لیکن اکثر ایک لحاظ سے عملی سیاست سے بھی جڑا ہوا ہے : کس قسم کی سیاسی تنظیم کاری کو ترجیح ہونی چاہئیے ؟ کیا ترجیح ہمیشہ طبقاتی ایشوز، مزدور جدوجہد اور دیگر معاشی ایشوز کو ملنی چاہئیے اور کیا ان ایشوزکو صنفی خطوط پہ ممیز نہیں کیا جانا چاہئیے ؟ یا سوشلسٹ نکتہ نظر سے کیا یہ بات جائز ہے کہ ہم ویمن ایشوز کو برابر کی سیاسی اہمیت دیں
دونظام والےموقف کے حامل سماج واد فیمنسٹ طبقہ اور جنس دونوں کے گرد منظم کرنے کو برابر کی سیاسی اہمیت دیتے ہیں اور وہ کیوں نہ دیں ؟ لیکن ون سسٹم نظریاتی پوزیشن سے کیا سیاسی نتائج نکلتے ہیں جس کو میں وبول کرتی ہوں ؟ مری رائے میں -اور میں اس پہ زور دیتی ہوں کہ صنفی جبر کے خلاف ہونے والی جدوجہد کو لازمی کم سیاسی ترجیح دی جائے -سوشلسٹ فیمنسٹ چاہے ان کا تعلق تجریدی نظریاتی اعتبار دو-سسٹم سے ہو یا ون سسٹم سے ہو طبقاتی اور صنفی دونوں جدوجہد کوباہم جوڑنے اور اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں
مثال کے طور پہ آج جو سماج واد فیمنسٹ ہیں وہ اسقاط حمل کے لیگل حق کی حمائت ویسے ہی کرتے ہیں جیسے لبرل کرتے ہیں ،لیکن ہم اس کے ساتھ پیدائش کنٹرول کے حق ، میڈیکل کئیر ، چائلڈ کئیر ، زیادہ اور برابر تنخواہ سمیت ان تمام حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جو محنت کش طبقے کی خواتین کو حقیقی طور پر ری پروڈکشن بارے اختیار دیں
لکسمبرگ ، مجھے پورا یقین ہے کہ ون-سسٹم والا موقف رکھتی تھیں اور نظریاتی طور پہ ان کا یہ خیال تھا کہ یہ سرمایہ داری نظام ہے جس کے فریم ورک کے اندر جبر کی دوسری اشکال کام کرتی ہیں -عملی سیاسی سوال پر روزا کا موقف کیا تھا ،میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی لیکن میں یہ خیال کرنا پسند کروں گی کہ روزا کو سیاسی ترجیحات کے تعین میں لچکدار ہونا چاہئیے تھا -شاید یہ میرا اپنا خیال ہے
جبر اور استحصال
عورتوں کا حق رائے دہی اور طبقاتی جدوجہد
روزالکسمبرگ نے یہ مضمون 1912ء میں لکھا تھا اور اس میں روزا کی ایک دلیل معاصر مباحث کے ساتھ بہت جڑتی ہے اور اسکی افادیت آج بھی قائم ہے ،وہ لکھتی ہے
وہی کام پیداواری ہے جوکہ قدرزائد پیدا کرتا اور سرمایہ داروں کا منافع بناتا ہو -جب تک سرمسیہ کی حکمرانی قائم ہے اور اجرتوں کانظام قائم ہے – اس نکتہ نظر سے ایک کیفے میں ناچنے والی /ڈانسر ،جوکہ اپنی ٹانگوں کو حرکت دیکر اپنے آجر کو منافع کماکر دیتی ہے وہ ایک پیداواری کام کرنے والی عورت ہے جبکہ ہماری وہ تمام عورتیں اور مائیں پرولتاریہ کی جو گھر کی چار دیواری میں رہتی ہیں ان کے کام کو غیر پیداواری خیال کیا جاتا ہے
یہ خیال بہت خام اور کریزی لگتا ہے ،لیکن یہ آج کے سرمایہ دارانہ معاشی نظم کے خام پن اور پاگل پن کا اظہار ہے
میں نے اس اقتباس کو ایک سے زیادہ مرتبہ سرمایہ داری نظام میں غیرپیداواری محنت کے معانی کی وضاحت اور جبر کو سرمایہ داری استحصال سے ممیز کرکے دکھانے کے لیے استعمال کیا ہے
کئی ایک فیمنسٹ اس وقت بہت سیخ پا ہوتے ہیں جب مارکسی گھریلو کام کو غیرپیداواری کہتے ہیں اور کچھ تو گھریلو کام کے لئے اجرت کامطالبہ بھی کرتے ہیں لیکن لکسمبرگ کا اقتباس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو اس کام کو غیرپیداواری بناتا ہے جیسا کہ ایک کارپینٹر جوکہ حکومت کے لیے کام کرتا ہے یا ایک اسکول ٹیچر جو پڑھاتا ہے وہ سرمایہ داری نظام کے نزدیک غیرپیداواری کام کرتے ہیں حالانکہ عمومی معنی میں ان کا کام پیداواری ہی ہوتا ہے
سرمایہ داری کی اصطلاح میں پیدواری ہونے کا مطلب جاننا ضروری ہے کیونکہ اس سے ہی تو سرمایہ داری پہ ضرب پڑتی ہے
ڈومیسٹک لیبر کے بارے میں اور بھی بہت کچھ ہے کہنے کو لیکن اہم بات یہ ہے کہ 1912 ء میں ہی روزالکسمبرگ نے لکھا تھا کہ لاکھوں پرولتاری عورتیں مردوں کی طرح سرمایہ دارانہ منافع پیدا کرتی ہیں جبکہ وہ کارخانوں ، ورکشاپس ، زراعت ، گھریلو صنعت ، دفاتر اور سٹورز میں کام کرتی ہیں اور وہ آج کے تنگ قسم کے معاشی بیانئے کےمطابق پیدواری کام سرانجام دیتی ہیں
لکسمبرگ نے خواتین کے اس پیداواری کام کی حقیقت کو بنیاد بناکر ان کے حق رائے دہی اورووٹ کے حق کی حمائت کی اور اس دلیل کی بنیاد پہ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پدرسری نظام کی بنیاد پہ عورتوں کا جو نام نہاد اصلی کردار اور کام کا تعین کیا جاتا تھا اس کی بنیاد ہی منہدم ہوگئی ہے
میں روزالکسمبرگ کے اس نظریاتی استدلال سے اتفاق کرتی ہوں لیکن میں یہ بھی رائے رکھتی ہوں کہ ہمیں اس کی سیاسی اہمیت کو بڑھاچڑھاکر پیش نہیں کرنا چاہئیے
حتی کہ اگر گھریلو کامقدر زائد پیدا کرنے والا پیداواری کام بھی ہوتا تو سوشلسٹوں کو گھریلو بیویوں کو منظم کرنے کے کام کو ترجیح نہیں دینی چاہئیے -نجی قید خانوں کےگارڈز کا موازانہ کریں وہ بھی تو قدر زائد کی پیداوار میں معاون ہوتے ہیں لیکن کیا ان کو منظم کرنا سوشلسٹوں کے ترجیحی سیاسی کاموں میں شامل ہوسکتا ہے
ان معنوں میں پبلک سیکٹر کے ورکرز پیداواری نہیں ہیں لیکن لیبر کو منظم کرنے کے کام میں وہ ایک بنیادی اور اہم سیکٹر ہے اور ان کو پبلک سیکٹر پہ حملہ کرنے کے لئے منظم کرنا بہت ہی اہمیت کا حامل ہونا چاہئیے -سوشلسٹوں کو اپنی بہترین توانائیاں کہاں صرف کرنی ہیں یہ کئی ایک عوامل پہ منحصر ہے اور ہمیں بدلتے حالات پر نظر رکھنی چاہئیے
لکسمبرگ کا اس پاگل پن کے حامل سرمایہ داری میں پیداواری محنت کی تعریف پہ زور ہماری مدد اس بات کی وضاحت کرنے میں بھی کرتا ہے کہ کیسے سرمایہ داری ہمارے کرہ ارض کو تباہی کی جانب لیکر جارہی ہے اور ہمیں انسانی ضرورتوں پہ بنیاد رکھنے والے ایک نئے معاشرے و سماج کی تعمیر کی ضرورت کیوں ہے ، ایسا معاشرہ جس کی بنیاد منافع پہ نہ ہو تو اس اصول کے تحت لوگوں کو منظم کرنا آج ہر ایک لیے بہت ضروری ہے
عورتوں کی ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو محنت کش عورتوں کی ہو اور ان کی خاص ضرورتوں کے لیے لڑائی کرے اور وہ بورژوا عورتوں کی تحریک سے آزاد ہو جبکہ ساتھ ساتھ عالمگیر عورتوں کے مفادات کی حمائت بھی کی جائے
زیادہ کنٹرورشیل یا متنازعہ بات یہ ہے کہ روزا نے محنت کش طبقے یہاں تک کہ خود سوشلسٹوں کے اندر بھی عورتوں کی خودمختار تنظیموں کے قیام کی حمائت کی اور کلارازیٹکن کو جرمن سپارٹیکس لیگ میں عورتوں کا سیکشن بنانے کو کہا -یہ وہ تجویز ہے جسکا بہت سے مارکسیوں کو آج سامنا ہے
تو آخر میں اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ روزالکسمبرگ کی زندگی اور اس کے کام میں آج کے سماج واد فیمنسٹوں کو پانے کے لئے بہت کچھ ہے ،ہمیں تمام سوالوں کے جواب کے لئے اس کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور بعض جگہوں پہ ہم اس سے اختلاف بھی کرسکتے ہیں۔
تحریر : نارمن جیراس
ترجمہ وتلخیص : عامر حسینی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn