پیاری ساری ،
تمہارا خط ملا ۔تم نے لکھا کہ میرے ہاں رومانس بتدریج کم ہورہا ہے، حزن و ملال چھا رہا ہے اور گریہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔مجھے تمہارا یہ شکوہ بے جا نہیں لگتا ہے۔آج تمہارا خط پڑھنے کے بعد سوچا تھا کہ اپنے جوابی رقعے میں لفظوں سے کاغذ پہ رومانس کے رنگ بھردوں گا اور تمہیں بتاؤں گا۔ یہ میں واقعی تمہارے سوا کچھ نہیں سوچتا مگر تمہیں بتاؤں کہ میری لفظوں کی اس مجوزہ رنگ کاری میں پھر سے ایک رکاوٹ آگئی ہے اور میں اپنے خط کو ان رنگوں سے بھر ہی نہیں پارہا جن سے تمہیں سرشاری ملے اور تم وجد میں آجاؤ ۔ایک بس آرہی تھی کوئٹہ کی اور ،اس میں بیٹھے سب مسافروں کو تھی جلدی گھر پہنچنے کی ، کچھ نے اپنے ذہن میں کئی پروگرام سجارکھے تھے۔ایسے میں اس بس کو ایک جگہ روک لیا گیا اور آنے والوں نے اس مرتبہ کسی مرد سے ان کے شناختی کارڈ طلب نہ کئے بلکہ بندوق کی نالی کے زور پہ انہوں نے عورتوں کے نقاب الٹنا شروع کرڈالے۔اور ایسی چار عورتوں کا انتخاب کیا جن کی ناک ذرا موٹی اور چپٹی تھی ، آنکھیں چھوٹی تھیں مگر گول گول اور چہرے سرخ سپید تھے ۔اور ایک خاص شناخت کی حامل وہ تھیں ، نام میں بھی ایک خاص رنگ اور نشان جھلکتا تھا ، سب کو نیچے اتارا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے “نعرہ تکبیر ” بلند کیا گیا اور اپنے ہی خون میں وہ چار عورتیں نہلادی گئیں ۔ان میں سے دو ایک نے کالے لباس زیب تن کررکھے تھے اور ایک کے بازو پہ امام ضامن بندھا ہوا تھا۔جبکہ ایک کے گلے میں ایک تعویز تھا جس پہ پانچ بارہ لکھا ہوا تھا۔یہ نشانیاں ان کو مارنے کے لئے کافی تھیں۔تم کہو گی کہ پچھلے کئی سالوں سے میں تمہیں پنّوں پہ یہی کچھ لکھ کے بھیج رہا ہوں۔اور تمہیں یہ بھی کہنا پڑے گا کہ میں اپنے آپ کو ناحق ہلکان کررہا ہوں۔تم مجھے کہوگی کہ میں اپنے بارے میں سوچوں اور تمہارے بارے میں محسوس کروں۔تم ٹھیک کہتی ہو کہ یہاں سبھی ایسے ہی کررہے ہیں۔یہاں حبس ویسے ہی ہے جیسے اس وقت تھا جب میں نے گزشتہ خط تمہیں لکھا تھا اور لمحاتی پروائی کے چلنے پہ خوشی منانا چاہی تھی۔تمہیں پتا ہے کہ یہاں اب پانی کی سبیل لگانے سے دھرم بھرشٹ ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔رینجرز کو بھی لگتا ہے کہ ایسی سبیلیں جس سے کربلاء کے پیاسوں کی پیاس کی شدت کا احساس جاگے ، لوگوں کے مذہبی جذبات مجروع کرنے کا سبب بنتی ہیں۔یہاں پہ لوگوں کو اب ایک خاص مہینے کے شروع ہوتے ہی ‘خوشی ‘ منانے کے فلسفے یاد آنے لگتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ حزن و ملال پہ اسی مہینے میں لعنت بھیجی جائے تو اچھا رہے گا۔تمہیں کہنا یہ ہے کہ میں اکثر اب خود کو لا شئے خیال کرتا ہوں بلکہ مجھے لگتا ہے کہ میں کہیں غائب ہوگیا ہوں اور ایسے جہنم میں پڑا ہوں جہاں قصور وار کوئی بھی بند نہیں ہے بلکہ قصور نہ کرنے والے ہی مجرم ٹھہراکر یہاں پھینک دئے گئے ہیں۔میں تمہیں صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ اداسی کے کالے گلاب کی پتیاں میرے اندر ماتم کناں ہیں ایسے کہ ان کے اندر سے اداسی اور ملال کی خوشبو آتی ہے جو میرے دماغ کو معطر تو کرتی ہے مگر ساتھ ہی میرے دل ہوتی ہوئی میری آنکھوں کے راستے آنسو بن کر نکلتی ہے۔کافکا نے تو کہا تھا کہ وہ اپنے آپ پہ بہت بھاری ہے لیکن اپنی دوست ملینا کے لئے بہت ہی لطیف ہے۔مگر میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ میں اپنے آپ پہ تو ثقیل ہوں ہی لیکن تم پہ بھی بہت بھاری ثابت ہورہا ہوں۔مجھے ثقافت کے تنوع اور اس کی رنگا رنگی پہ چھائی جنونیت کی موت نظرآتی ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے درمیان رومانوی فضا کی قاتل یہ جنونیت بھی ہے جو عورتوں ، مردوں ، بچوں کو خاص نشانیاں دیکھ کر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔میں کافکا کی طرح یہ ہمت نہیں رکھتا کہ کیوں کہ خط لکھنا بھوتوں سے مباشرت کرنے جیسا ہے اور صرف موصول الیہ کے بھوت سے نہیں بلکہ خود لکھنے والے کے اپنے اندر کے بھوت سے بھی ۔مگر کافکا جس اذیت کی جانب اشارہ کرنا چاہتا تھا ،وہ اذیت میں محسوس کرسکتا ہوں۔فکر ودانش یہاں بھوتوں سے مباشرت کرنے جیسے عمل سے دوچار ہے اور ایسے میں اسے اپنے آپ سے بھی خوف آنے لگا ہے۔
ساری! یہاں کچھ نام ، کچھ علامتیں ، کچھ افعال ، کچھ کام سب ایسے ہیں جن کا کفارہ آپ کو اپنی جان سے دینا پڑتا ہے۔اور یہاں رات کو سوئیں تو صبح اٹھ کر کیکڑے میں بدل جانے جیسی کیفیت کا شکار نہیں ہونا پڑتا بلکہ کراچی ٹول پلازہ پہ رینجرز کی چیک پوسٹ کے پاس آپ کی شناخت پریڈ کے دوران آپ کے شناختی کارڈ پہ بس بلوچ لکھا ہونا کافی ہے ،آپ کے غائب ہوجانے کے لئے اور اگر آپ نے زہرا نام رکھ لیا ، ام رباب رکھ ڈالا ،سکینہ رکھ لیا ، کنیز فاطمہ رکھ لیا ، یا سید جیسا سر نیم لگالیا تو بھی مرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔یہ سب میرے اندر تک وار کرتا ہے اور میں سارا رومانس بھول جاتا ہوں۔بھیل یہاں مشترکہ قبرستان میں دفن نہیں ہوسکتا اور کوئی دانیال ، کوئی فرانسس کسی چوکور عمارت کی تصویر فیس بک پہ شئیر نہیں کرسکتا ، اس سے دھرم فوری سے پہلے بھرشٹ ہوجاتا ہے۔اخلاق احمد گڑگانوی کے ڈیپ فریزر سے بس گوشت نکل آئے تو اسے سڑک پہ گھسیٹ کر موت کے گھاٹ اتارنا فرض عین ٹھہرجاتا ہے ۔60ہجری میں جس کے گلے پہ خنجر چلا تھا اس کے اندر باغی کی تلاش کا سفر کچھ لوگوں کے ہاں ختم نہیں ہوا اور ایسے کچھ لوگ خنجر چلانے والے کے آقا اور مربی کی خلافت کو بچانے کی فنتاسی آج بھی بار بار بنتے ہیں تاکہ عاشورا کی دیومالائیت کو ختم کیا جاسکے۔
ساری! ورجینیا وولف نے کہیں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنے بارے میں سچ نہیں بول پاتے تو لوگوں کے بارے میں بھی سچ بول نہیں سکتے اور میں ٹھیک کہتا ہوں کہ ہماری فنتاسی بھی بالواسطہ سچ ہی ہوتی ہے مگر کوئی سمجھے تو۔تمہیں پتا ہے کہ میرا سچ کیا ہے ؟ میرا سچ یہ ہے کہ میں لوگوں کی طرح سچ ڈھونڈنے کے لئے کسی پیشوا کے پاس نہیں جاتا بلکہ تمہارے پاس آتا ہوں اور سچ بھی ایسا جو تار عنکبوت کی طرح سے مجھے اپنے سے لپٹائے رکھتا ہے اور ورجینیا وولف کے بقول یہ زندگی کے چاروں ابعاد سے جڑا ہوتا لیکن کم ہی لوگ اس کا ادراک کرپاتے ہیں۔اور ہاں ! جارج آرویل نے کہا تھا کہ آزادی نام ہے وہ سب سنانے کا جسے لوگ سننا نہیں چاہتے ۔سب آپ سے مطابقت پذیری چاہتے ہیں اور آپ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ دودھ کو کالا اور شہد کو کڑوا کہہ دو ۔مگر مجھ سے یہ سب ہوتا نہیں ہے۔تم کہہ سکتی ہو کہ میں شیزوفرینک ہوچلا ہوں اور میرا شیزوفرینک ہونا ایسا ہے جس میں ، میں خود کو آگاہی کی آگ چرانے والا دیوتا خیال کر بیٹھا ہوں اور مجھے اپنی گمراہی کی راکھ آگاہی کی آگ لگتی ہے۔میں ایسے لفظوں کے پیچھے جانے سے قاصر ہوں جن کی جگہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہے۔اور مجھے کسی کوڑے دان کا مکین نہیں ہونا چاہے وہ باہر سے کتنا ہی رنگ و روغن سے مسجع و مقفع کیوں نہ ہو ،ہے تو وہ کوڑے دان ہی نا
نہ ہوکر بھی فقط تمہارا
ع ۔ح
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn