Qalamkar Website Header Image

بلیوں والا درویش

aamirکراچی یونیورسٹی میں شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے استاد ڈاکٹر ریاض احمد ، پی آئی اے میں ملازم عاصم جان اور فری لانس محقق سرتاج خان کراچی سے آئے اور میں خانیوال سے ان کا ہم سفر بنا اور یوں ہم لاہور پہنچے-وہاں ہمیں فیصل آباد سے علی سجاد نقوی اور عدنان عطاء نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جوائن کیا اور ہم سب پروفیسر قلندر میمن کے گھر واقع مولانا جسٹس سردار اقبال روڈ لاہور پہنچے تو وہاں قلندر میمن ، کامریڈ زکی ، کامریڈ امان اور ان کی مانو بلّی فیڈل کاسترو ہماری منتظر تھی-
آپ نے فیس بک پہ ” قلندر میمن بلیوں والا ” کی آئی ڈی شاید دیکھی ہو نہ دیکھی ہو لیکن آپ کو میں یہ بتاتا چلوں کہ قلندر کو بلیوں سے عشق ہے اور اس کے گھر ایسی بلیاں موجود ہیں جن کو ان کے بقول ریسکیو کیا گیا ہے-یہ فیڈل کاسترو بلی بھی ان کے ریسکیو آپریشن کا نتیجہ ہے اور یہ گھر میں آنے والے ہر مہمان کے پاؤں سونگھتی ہے اور جس کے جوتوں میں لگی مٹّی اس کو بھاجائے تو یہ اس کے چرنوں میں بیٹھ جاتی ہے-مرے پاؤں کو سونگھا مگر تھوڑی دیر میں آگے نکل گئی-ویسے اس کا قلندر کے کمرے میں داخل ہونے کا انداز بھی نرالا تھا-اپنے دونوں پاؤں اس نے شیشے کے دروازے پہ رکھے اور پنجے مارے-اور قلندر ان کو اندر لے آئے-
قلندر میمن پیدا تو لندن میں ہوئے لیکن ان کی اصل سندھ کے ایک علاقے بھیرا میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ لاہور میں بنا قلندر کا گھر بھی سندھی کلچر کی جگہ جگہ جھلک دکھاتا ہے-اور خود قلندر کے اندر بھی اپنی دھرتی سے پیار بلکہ عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے-قلندر تاریخ کا آدمی ہے اور اس تاریخ میں اس کی دلچسپی اس دور سے زیادہ ہے جسے وہ پوسٹ کالونیل کہتا نہیں ہے کیونکہ اس کے خیال میں ہم ابھی تک ” کالونیل ” دور میں ہی سانس لے رہے ہیں-اور ہمارے ساتھ کی گئی نشست میں اس نے اسی موضوع پہ بات کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ سرائیکی علاقہ ہو یا سندھ ، یا بلوچستان یا پختون حوا یا پھر فاٹا یا گلگت بلتستان ہو ، یہاں کے لوگوں کو اپنی نمائندگی کرنے کا وہ حق کبھی نہیں ملا جو ان سے ہٹ کر اربن چیٹرنگ کلاس کو حاصل ہے-قلندر کارل مارکس ، لینن کی بات کرتا ہے اور کبھی کبھی اس کا اندر کا بوھیمن بھی باہر آجاتا ہے-وہ ” نیکڈ پنچ ” کے نام سے ایک انگریزی جریدہ نکال رہا ہے-قلندر کو یاد نہیں تھا کہ میں اس سے پہلے نہ صرف مل چکا ہوں بلکہ ہم نے کچھ کام اکٹھے بھی کیا ہے-میں نے اسے اس کا ایک ایڈونچر ” کیفے بول ” یاد کرایا اور اس کے چراغوں کی لو میں منعقد کئے گئے اسٹڈی سرکلز کی یاد دلائی اور ” سقراط ” پہ اس کے لیکچر کو یاد کرایا تو اسے یاد آگیا-رب نواز ، ایک اس کی دوست لڑکی کیفے بول میں ہمارے ساتھ تھی-قلندر ایف سی کالج میں کنٹریکٹ پہ تدریس کررہا تھا اور اس نے اس دوران ایف سی کالج کے ماحول کو بدلنے کی کوشش کی اور اپنے انقلابی خیالات کو طلباء و طالبات میں منتقل کیا اور ایک اچھے خاصے طلباء کمیونٹی کے حصّے کو اپنے ساتھ ملایا-وہ سرمایہ داری کا شدید ترین مخالف ہے اور نیولبرل ازم کو ” کھلی بدمعاشی” قرار دینے سے ہچکچاتا نہیں ہے-وہ سرمایہ داری کی جنگوں کا ناقد ہے اور اس نے سامراجیت کے خلاف آواز بلند کرنے میں کبھی مضائقہ خیال نہیں کیا-قلندر میمن مجھے اس لئے بھی زیادہ پسند ہے کہ وہ ایک انتہائی بورژوازی کلچرڈ جمی جمائی اپر مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہونے والی کہاوت اس پہ صادق آتی ہے-وہ کچھ بھی بن سکتا تھا اور اگر سرمایہ داری سے مفاہمت کرلیتا اور ان کلچرل آپریٹس سے صلح کرلیتا جن کو گرامچی سرمایہ داری کے تسلط کی ثقافتی مشینری کہتا ہے تو وہ مزید آسائش اور آرام پالیتا –لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور اپنے طبقے سے غداری کی اور بورژوازی کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا-اسے افتادگان خاک سے پیار اور ان کی نجات سے دلچسپی ہے-اسے فرانز فینن بہت اچھا لگتا ہے-اور وہ افریقیوں ، لاطینی امریکہ کی زرد اقوام کی کہانیوں میں اپنے سندھیوں ، بلوچوں ، پشتونوں ، سرائیکیوں، گلگتی بلتیوں کو دیکھتا ہے-
ہم سب جو قلندر میمن کے ہاں جمع تھے اس بات پہ متفق تھے کہ ایک طرف تو ہمیں طبقاتی ، استحصالی ، ظالمانہ و غیر منصفانہ نظام اور اس کی بنیادوں کے بارے میں محنت کشوں ، کسانوں ، طالب علموں ، مظلوم و محکوم نسلی ، مذہبی ، قومی اقلیتوں کے اندر آگاہی کی آگ کو مزید بھڑکانا چاہئیے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کے پاس اس متبادل کو لیکر جانے کی ضرورت ہے جو ایک غیرطبقاتی ، مساوات پہ مبنی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے کام آسکتا ہے-ڈاکٹر ریاض نے درست کہا کہ آج نرسیں ، ینگ ڈاکٹرز ، لیڈی ہیلتھ ورکرز ، کنٹریکٹ اساتذہ سروس سٹرکچر کی مانگ کرتے ہیں ، ریاست کے طاقت کے مرکز قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلیوں کی جانب مارچ کرتے ہیں اور ہر مرتبہ وہ سمجھوتے میں آتے ہیں-ہمیں ان پرتوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ایک طبقاتی ریاست کون ہوتی ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ اس ملک میں کام کرنے والوں کا اپنے کام کا سٹرکچر کیا ہوگا ؟ یہ کام کرنے والے خود کیوں نہ کریں؟ ہم سب اس بات پہ متفق تھے کہ سرمایہ داری کو سجا بناکر دکھانے والا لبرل ٹولہ عورتوں ، اقلیتوں (مذہبی ، نسلی ، قومیتی ) پہ ہونے والے ظلم پہ محض ہائے ،وائے کرتا ہے اور وہ کبھی ان کی "مزاحمت ” کو نہیں دکھاتا-ہمیں اس مزاحمت کو بھی دکھانا ہے جو عورتیں اور اقلیتیں اپنے انداز میں کرتی ہیں-قلندر میمن نے کہا کہ وہ کارل مارکس کی تحریر ” پیرس کمیون ” ہو یا پھر ” کمیونسٹ مینی فیسٹو” جب بھی پڑھتا ہے تو اس کے تکثیر کے حامل معانی کا جہان در جہان کھلتا چلا جاتا ہے-قلندر کہتا ہے کہ پیرس کمیون قائم کرنے والے مزدوروں نے 1848ء میں سب سے اہم اور بنیادی کام یہ کیا تھا کہ محنت کش طبقے پہ عائد ہر قسم کا رینٹ ختم کیا اور اس نے ” کرایہ داری سے پلنے والے طفیلیہ ” کو ختم کرڈالا تھا-اور سب سے بڑھ کر انھوں نے پرانی ریاست کو تحلیل کردیا اور ایک نئے انتظام کی بنیاد ڈالی-ہم سب متفق تھے کہ اس ملک کا محنت کش طبقہ جس کی مختلف پرت ہیں اور اس ملک کے مظلوم پسے ہوئے ، کچلے ہوئے سماجی گروہ جیسے شیعہ ، مسیحی ، احمدی ، سندھی ، بلوچ ، گلگتی بلتی ، سرائیکی اور محنت کش پنجابی ، اوکاڑا ، پیروال کے مزارعین ان سب کی جدوجہد کو باہم جوڑنے کی ضرورت ہے اور ہمیں عالمی سرمایہ داری ، مذہبی جنون پرست ملائیت ان سب کا متحد ہوکر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے-ڈاکٹر ریاض نے کہا کہ ریاست کو معلوم ہے کہ نرسیں زیادہ دیر سڑکوں پہ رہیں تو سرکاری شعبہ صحت کا گلا سڑا نظام عوام کے سامنے اور بے نقاب ہوجائے گا-اور ایسے ہی لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بغیر پولیو مہم کامیاب نہیں ہوسکتی تو وہ کہیں کہیں گھٹنے ٹیک دیتی ہے-اس بات پہ بھی اتفاق تھا کہ پاکستان کے اندر سروس سیکٹرز کی مختلف پرتوں کا بار بار حکومت کے خلاف نکلنا ، دھرنے دینا ، گرفتاریاں برداشت کرنا ایک طرف تو ان شعبوں کی روایتی ٹریڈ یونین نوکر شاہی کے گل سڑ کر کمزور ہونے کی علامت ہے-اسی لئے ڈاکٹرز میں ینگ ڈاکٹروں نے پی ایم اے کی ٹریڈ یونین بابو شاہی کو مسترد کرڈالا ہے-یہی حال ہمیں پیرامیڈکل سٹاف کے اندر نظر آتا ہے-ینگ ڈاکٹرز ، نرسیں ، لیڈی ہیلتھ ورکرز ، مزارعین، اساتذہ ، کلرکس ، میگا پروجیکٹس کی زد میں آنے والے سماجی گروہ ، شیعہ ، مسیحی ، احمدی ، پی آئی اے ، ریلوے ، کے ای ایس سی ، واپڈا، سوئی گیس کے محنت کش ، کسان اور کہیں کہیں طلباء و طالبات ، عورتیں اپنی اپنی جگہ مزاحمت ، احتجاج ، انکار کررہے ہیں اور ہمیں ان سب کو جوڑنا ہے-ہمیں ان کے اندر اپنی حاضری دکھانی ہے-اور ایسی تحریک کی بنیاد رکھنی ہے جو ظلم ، استحصال اور بربادی کے خاتمے تک جاری رہے-
قلندر میمن نے کہا کہ جب ریسکیو آپریشن کرکے اس نے کئی بلیوں کو بچا لیا تو یہ بلیاں اکٹھے رہنے سے انکاری تھیں اور باہم لڑتی تھیں لیکن آہستہ آہستہ اس نے ان کی تربیت کی اور ان کو اکٹھا رہنے پہ تیار کرلیا-وہ اسے کیٹ-ٹوپیا کہتے ہیں اور اسے انھوں نے یو-ٹوپیا سے لیا ہے-مجھے خیال آیا کہ وہ محنت کش طبقے کی مختلف پرت کے درمیان اور خود مظلوم و محکوم مذہبی نسلی برادریوں کے مابین پیٹی لڑائیوں کی جانب اشارہ کررہے تھے –ایسی ناچاقی کا خاتمہ کرنا ان کا آدرش ہے-اور یہ آدرش ہم حاصل کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کریں گے-

حالیہ بلاگ پوسٹس