عام انتخابات چند ماہ کی دوری پر اور تبدیلی کے نعرے زوروں پر ہیں،بے شک جمود و تنزل کی انتہاؤں میں تبدیلی تو ہر جگہ اور ہر سمت درکار ہے۔ پولیس نظام ہو یا نظام عدل ہو ،احتساب ہو ، تعلیم کا شعبہ ہویا صحت کا ، انتخابی اصلاحات ہوں ،جمہوری روایات ہوں ، بنیادی حقوق کا معاملہ ہو یا بنیادی مسائل کا ،پارلیمان چلانے کا معاملہ ہو یا میونسپل کارپوریشن کا،درآمدات اور برآمدات میں توازن اور صنعتوں کے قیام سے لے کر روزگار کے مواقع کا مسئلہ ہو یا قومی وقار کے شایانِ شاں خارجہ پالیسی کا ، تبدیلی ضروری ہے ،تبدیلی نا گزیر ہے ،اور تبدیلی کی خواہش بھی پہلے سے زیادہ بیدار۔
ایسے ملک میں جہاں ادارے پہلے بنتے ہیں اور ان کے حوالے سے قوانین بعد میں اور وہ بھی ادھورے،ایسے قوانین جن میں اداروں اور حکومت کا مفاد تو موجود ہو لیکن ادارے کے کارکنوں کا ندارد، جہاں کروڑوں اربوں کی کرپشن کے الزامات پر شروع ہونے والا احتساب ، چند سال بعد حیرت انگیز طور پر بے گناہی کی سند بن جاتا ہو، جہاں بنیادی حقوق کا معاملہ بالکل ہی بے بنیاد ہو اور حق کی بات کرنا جرم، ایسے میں تبدیلی کا نعرہ تو بنتا ہے اور یہ نعرہ خوب بلند بھی کیا جا رہا ہے۔
کوئی اپنے خلاف فیصلے دینے والے نظام کو تلپٹ کرنے کے درپے ہے تو کوئی پورا ملک ہی تبدیل کرنے کا آہنی مشن لے کر میدان میں۔اور اسی دوران کوئی سینیٹ میں انہونی تبدیلی کے بعد عام انتخابات کا نقشہ بدلنے کے سائیسی منصوبے میں مصروف، غرض تبدیلی کی بات ہر کوچہ و بازار میں عام ہو چکی ہے، سیاسی جماعتوں کا انتخابی بیانیہ بن چکی ہے۔
پھر اس خوش کن نعرے کو تبدیلی کا زینہ سمجھنے میں ہچکچاہٹ کیسی؟ قوم کو مایوس کن پیغام ہی دینے کی عادت کیسی؟ کہ تبدیلی ضروری بھی ہے اور تبدیلی کا نعرہ خوش کن بھی؟ لیکن حسرت ان ذہنوں پر کہ جن کی نگاہ سیاسی جماعتوں کی ماضی کی روش سے نہیں ہٹتی۔ جن کا کہنا ہے کہ جمہوری اقدار ، روایات اور نظریات سے دور سیاست ،کسی واضح بیانئے سے ماورا سیاست ، مفادات اور تضادات میں الجھی سیاست ،اداروں سے ٹکراؤ میں مصروف سیاست ، کیا بین الاقوامی مسائل میں الجھی ہوئی ریاست اور بنیادی مسائل میں جکڑے ہوئے عوام کو کوئی سمت دے پائے گی؟
دلائل دونوں جانب اور دلائل منطقی بھی ہیں۔ایک طرف تبدیلی ضروری اور نا گزیر بھی ہے اور اس سے قبل اس کا احساس اور ادراک بھی۔ دوسری جانب تبدیلی کا نعرہ لگانے والے سیاستدانوں کے فرسودہ نظام سے جڑے مفادات بھی ایک کھلی حقیقت کی طرح عیاں ہیں اور اقتدار کی خواہش میں عوام کے جذبات سے کھیلنے کی روایت بھی موجود ، ایسی صورت میں بڑے سے بڑے دعوے بھی کھوکھلے تو لگتے ہیں۔
سوال تو بنتا ہے کہ ناقابل تبدیل عناصر تبدیلی کیوں کر لا پائیں گے؟ دیکھنا تو ہو گا کہ دعوے کے پیچھے اسے ممکن بنانے کا احساس اور سنجیدگی بھی ہے کہ نہیں۔محض کوئی شخصیت وقت کا دھارا اور زندگی کی سمت تبدیل کر سکتی ہے؟ضرور بدل سکتی ہے ۔ لیکن اس کے لئے ہم خیال افراد پر مشتمل نظریاتی جماعت چاہئے ، مکمل اصلاحاتی ایجنڈا اور اس پر عملدرآمد کی مکمل منصوبہ بندی چاہئے،قابل عمل اصلاحات کے قابل تھنک ٹینکس چاہئیں ، کارکنوں کے وسیع حلقے کا اس ایجنڈے پر ثابت قدم رہنے کا عزم چاہئے۔نظام کی تبدیلی کے دعوے کیساتھ نظام کی تبدیلی کا ہوم ورک چاہئے۔
عام انتخابات چنداں دور نہیں اور تبدیلی کا نعرہ بھی سب سے بلند ہے۔کون کون سے شعبوں میں دوررس اصلاحات لائی جا رہی ہیں ، کون کون سا نظام تبدیل ہونے جا رہا ہے ، نعروں سے ہٹ کر نیا سیاسی ایجنڈا اور منشور سامنے آ چکا ہے ، سماجی ،معاشی ،عدالتی ،احتسابی ،انتخابی مسائل کا احاطہ ہو چکا ہے ،عام آدمی کے مسائل کا ادراک اور حقوق کے تحفظ کا تعین ہو چکا ہے۔سیاسی جماعتوں نے ہوم ورک مکمل اور طریقہ کار بیان کر دیا ہے تو تبدیلی ضرور آئے گی۔
ورنہ وردیاں تبدیل ہونے سے ،ہفتہ صفائی منانے سے اور نئے نئے کاؤنٹر بنانے سے سے تبدیلی نہیں آیا کرتی، محض نعروں سے تبدیلی نہیں آتی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn