عالمی افسانہ میلہ 2016 کا دوسرا افسانہ
افسانہ نگار: الطاف فیروز ، واہ کینٹ ، پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ذیلی سڑک پر مڑتے ہی اُس کی نظر بلندوبالارہاشی پلازوں کی دو رویہ قطار پر پڑی اور اس تبدیلی پر وہ چند لمحوں کے لیےٹھٹھک کر رک گیا۔ بھاگتی دوڑتی گاڑیاں،چیختے چلاتے لوگ ،بے ہنگم وبلند آہنگ موسیقی غرض زندگی کی تمام حرکت ایک لمحے کے لیے رُک گئی۔مگر دوسرے ہی لمحے اُسے کسی راہ گیرکا کاندھا لگا اوریاد دَر یاد بٹا اُس کاحیران وجود یکدم خود میں سمٹ گیا۔ یہ احساس ہوتے ہی کہ بھرے بازار کے بیجوں بیج کسی ہونق کی طرح مُنہ اُٹھائے سربفلک عمارتوں کو گھور رہا ہے وہ ایک طرف سرک لیا۔
ہر طرف مرد ہی مرد رواں دواں تھے ۔ہر عمر اور ہر نسل کے مرد اور دوسری طرف فلیٹس کے روشن دریچوں سے راہگیروں کو لُبھانے کے لیے شوخی سے مُنہ چڑھاتیں آنچل لہلہاتیں اور عشوہ گری کرتیں نازنینوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ صرف پرانی درودیوار کو گرا کر نئے سرے سے کھڑا کیا گیا ہے ورنہ اس کُوچہ و بازار کے ر سم ورواج وہی پرانے ہیں۔
ہر سو ہوٹلوں کے علاوہ پان سگریٹ کے کھوکھے اور کیسٹوں کے چھوٹے چھوٹے کیبن نظر آرہے تھے جن سے بے ہنگم موسیقی نشر ہو رہی تھی۔ہر آٹھ دس قدم پر ایک نا ایک دُوکان میں کیرم بورڈ یا بلیرڈٹیبل رکھا گیاتھا۔ بے فکرے نوجوان جن کے گردا گردسگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتے اور پان کی گلوریاں چباتے اپنے دوستوں کی داد پر مسکراتے تماشائیوں پر اپنی کھیل کی دھاک بٹھا رہے تھے ۔
بازار میں بالی عمر کے لڑکے نرسل کی سوکھی ڈنڈیوں پر چمکیلی پَنی چڑھائے موتیے کے گجرے لٹکائے پھر رہے تھے۔جو ایک ہی وقت میں اس کوچہ و بازار کے قانون کے عین مطابق بھی تھا اور الٹ بھی۔ مطابق یوں کے یہاں ہر قسم کی باسی اور گھٹیا اشیاء وجذبات کو بازاری رنگ وبو سے معطر کر کے بیچا جا رہا تھا۔اور اُلٹ اس طرح کہ جھوٹے جذبوں کی اس دنیا میں پیٹ کے ستائے یہ پاگل لڑکے موتیے کے پھولوں کی اصل رنگ و بو کے ساتھ گجرے بنانے والیوں کے گجروں میں پروئے سُچے جذبات بھی بیچ رہے تھے۔
بہت سے جوان آپس میں دھکا مکی اور ٹھٹھا مذاق کرتے چلمنوں کی دَرُوزسے کمروں میں جھانکتے شہد اور چاندنی گوندھے جسموں کو نظروں سے بھنبھوڑتے ہر طرف پان کی پچکاریوں سے نقش و نگار بناتے چلے جا رہے تھے۔ تھوڑ ے تھوڑے وقفے سے کوئی چم چم کرتی نئے ماڈل کی عمدہ گاڑی کسی عمارت کے نیچے آن رُکتی اور ایک، دو رنگ و بو میں نہائی ہوئی نازنینیں مُشک و عنبر کے جام لُنڈاتی عمارت کی سڑھیوں میں گم ہو جاتیں۔یہ دہری زندگی بسر کرنے والی ہستیاں تھیں جو عام لوگوں کی نظرمیں اِسی شہر کے کسی باوقار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔مگر خاصانِ شہر کی خاطر یہ شام ڈھلے اس کوچہء رنگ وبو میں پریوں کی طرح اُترتیں اورشب بسری کے بعد صبحِ دم اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتیں۔دیکھتے ہی دیکھتے ہر سوعمدہ اور نایاب گاڑیوں کی لائنیں یوں لگ گئیں تھیں کہ یہ بازارِ حسن کی بجائے مُلکی وزراء کا میٹنگ ہال دکھائی پڑتا تھا۔ کبھی اس بازار میں گاڑیوں کی جگہ یوں ہی چم چم کرتے یکّے کھڑے ہوتے تھے۔ وہ حیر انی سے یہ تمام تبدیلیاں تکتا آگے بڑھتا چلا گیا۔
اگرچہ وہ اس بازار میں کم و پیش اٹھائیس،انتیس سال بعد آیا تھا۔ مگر اُس کے وجود میں نجانے کونسی الہامی قوت کام کر رہی تھی۔ وہ کسی سے راستہ پوچھے بغیران چکا چوند روشنیوں میں نہائے ہوئے بازار کی پچھلی طرف مڑنے والی پتلی سی گلی کے دھانے پر آن کھڑا ہواجو اُسکی دانست میں شنو کے گھر کو جاتی تھی۔اس پتلی گلی کوروشنیوں میں نہائے ہوئے بازار کی نسبت اگر تاریک کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اُس نے آنکھیں چُندّھیا دینے والی روشنی کی پشت پر اندھیرے کو دیکھا تو سوچنے لگا کہ بس یہی تو زندگی کی کُل حقیقت ہے جو آنکھ جھپکتے ہی منظر بدل لیتی ہے۔ روشنی سے اندھیرا، جوانی سے بڑھاپا، اور زندگی سے موت دیر ہی کتنی لگتی ہے روشن بازار سے تاریک گلی کی طرف بس ایک موڑ ہی تو موڑنا ہوتا ہے۔
یہیں کہیں اس اندھی گلی کے کسی تاریک کونے میں پان کی پچکاریوں، خالی ڈبوں، ٹوٹی بوتلوں، پلاسٹک کے رنگین ریپرز گندے ٹشو پیپرز اور دوسری کئی غلاظتوں کے درمیان اُس کی جوانی بھی پڑی تھی۔یہی کوئی اٹھائیس، اُنتیس سال اُدھر کی بات ہے جب یہ پچھلا موڑ مڑتے ہی روشنیوں کی چکا چوند آنکھوں کو بالکل اسی طرح خیرہ کرتی تھی۔ آج جیسے اِس موڑ سے پرے کر رہی ہے۔ اس پورے محلے کی عمارتیں پرانی طرز کی تھیں پارٹیشن سے بھی پہلے کی اکثر عمارتیں دو منزلہ تھیں۔ عمارت کے صدر دروازے میں قدم رکھتے ہی ڈیوڑھی شروع ہو جاتی جس کی دائیں طرف والی دیوار کے ساتھ لکڑی کے تختوں کا بنا ایک زینہ لکڑی ہی کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ مڑتااُوپر کو چلا جاتا۔ڈیوڑھی عبور کرتے ہی انسان کھلے آسمان تلے آن کھڑا ہوتا ،۔یہ چاروں اُور مربع شکل میں دو منزلہ کمروں کے بیچوں بیچ صحن تھا۔پہلی منزل کی چھت کی کڑیوں کو دیوار سے باہر کی جانب بڑھا کرکمروں کے سامنے ہوا میں معلق لکڑی کی تین ساڑھے تین فٹ چوڑی رَوِش بنا دی گئی تھی
۔ جس کو صحن والی سمت ریلنگ لگا کر بند کیا گیا تھا۔اب بھی تمام عمارت کم و پیش اُسی حالت میں تھی۔البتہ زینہ اور ریلنگ زیادہ خستہ حال ہو چکے تھے ۔اپنے اچھے دنوں کویاد کر کے آہ وبکاکرنے والے شخص کے گالوں پر بہتے آنسوں کی لکیر کی ماند دیواروں پر کھنچی گدلے پانی کی لکیروں کے نشان بتاتے تھے کہ بارشوں میں عمارت کی چھت خاصی رستی ہے۔ عمارت کاگمبھیرسناٹا کسی ایسے مکان کا سماں پیش کر رہا تھا جس میں کچھ ہی دن قبل جواں مرگ ہوئی ہو۔کبھی یہ عمارتیں سانس لیتیں جیتی جاگتی معلوم ہوتیں تھیں۔ سرِشام با نکے جوان کلف لگے کپڑے زیب تن کئے ہاتھوں میں موتیے کے گجرے اور پانوں کی گلوریاں اُٹھائے دھیرے دھیرے کسی عمارت کی سیڑھیاں چڑھتے اور اس سوتے جاگتے ماحول میں رات بیتا کر صُبحِ دم عشوہ گروں کی اداؤں سے چھلنی سینے لیے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ۔ دوسرے روز پھر شام پڑے ان بانکوں کے پروں کے پرے اس کوچہ میں یوں اُترتے گویا کسی صحرامیں واقع نخلستان پر مرغابیوں کے ڈار کی نظر پڑجائے۔
اس نیم تاریک حُزن و ملال میں ڈوبی عمارت کو یاس سے تکتے ہوئے اُس نے سوچا کہ وہ بھی کیا دن تھے جب شنّو کی پورے چاند ایسی بھرپور جوانی کی بدولت اس عمارت کاگوشہ گوشہ بقعہء نوربن جاتا۔شنّو کے قہقہے اس وسیع عمارت کے سناٹے پر پتھروں کی طرح پڑتے اور خاموشی کو باہر گلی میں دھکیل دیتے۔خود اُس کی نگاہیں تو ہر وقت اس کے سنگِ مرمر سے پیروں میں اُلجھی رہتیں۔ان پیروں کی نرماہٹ چھوئے بغیر محسوس کی جا سکتی تھی۔بارہا اُس کا دل چاہا کہ وہ بڑھ کر شنّو کے پاؤں چوم لے مگر نجانے کیسے اس مُنہ زور جذبےِ پر عقل غالب آجاتی اور وہ یکدم رک جاتا۔کیا مجھے واقعی شنّو سے محبت تھی یا اُسکے اندازِ گفتگو شوخ و شنگ جملوں اور جسم کی بندش نے مُجھے اس چوکھٹ سے باندھ چھوڑاتھا۔ شاید وہ میری مُنہ زور جوانی کی ایک بُھول تھی۔اُس نے خود کو سوالوں کے ترازو میں ڈالا اور جواب میں اس عمارت کی طرح خاموش لمحہ پا کر نیم تاریک عمارت کے زینہ کی جانب بڑھ گیا۔
سال خوردہ زینے پر قدم پڑتے ہی زینہ لمحہ بھر کے لیے اُس کے بوجھ تلے چرچرایا تو اُس نے ا ضطراری طور پر ہاتھ بڑھا کر ریلنگ کو تھام لیا ۔ ریلنگ پر ہاتھ پڑتے ہی اُسکے کانوں میں شنّو کے شوخ و شریر جملے اور قہقہے گونجنے لگے۔
ؑ ؑ ؑ ؑ عیدو! کیوں مرے جاتے ہو۔۔۔۔۔۔۔نئیں گرتے بھئی
ہٹو بھی۔۔۔۔۔ ڈرپوک کہیں کے
لو میرا ہاتھ تھام لو۔۔۔۔۔
اچھا چلو گودی میں آجاؤ۔۔۔۔۔
چلو یوں کرتے ہیں یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔۔۔
قدم قدم زینہ چڑھتے وہ ماضی کا لمحہ لمحہ چھو آیا۔ اُس نے دل سے پوچھا کہ اس چرچراتے زینے پر چڑھتے ہوئے وہ واقعی ڈرا کرتا تھا یا یہ سب وہ شنّو کے شوخ و شریر جملے سُننے کے لیے کیا کرتا ۔ مگر وقت کی دُھول نے دوسری کئی حقیقتوں کی طرح من میں چھپے سچ کوبھی کہیں نیچے دبا چھوڑا تھا اور دل کو اب کُچھ یاد نہیں تھا۔
مگروہ شام اُسے آج بھی یوں یاد تھی جیسے کل کا واقعہ ہو،اُس شام اُسے دوست بمشکل راضی کر کے اس پُر پیچ گلی میں لائے۔ وہ مجرا سننے کے لیے اس کوچے میں داخل تو ہوا مگر واپسی کا راستہ بھول گیا۔ مُجرے کے دوران پردے کی اوٹ سے جھانکتی دو آنکھیں وہ کام کر گئیں جو سامنے تھرکتی ایک حسینہ نہ کر سکی۔اُن آنکھوں نے اُسے ایسا جکڑا کہ بازارِ حسن کا نام سُن کر گھبرا جانے والا عدیل کُھلّم کُھلّا یہاں آنے جانے لگا اور یوں بعد کی ملاقاتوں میں شمیم کی دادی نے اُسے بتایا کہ شنّوکی ماں اپنے کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اور پھر شنّو کے والد کی وفات کے بعد اُنہوں نے اُسے پالا مگروہ اپنی بوڑھی دادی پر جسے لوگ جہاں آرابائی کرناٹک والی کے نام سے پہچانتے تھے ایک بوجھ کی حثیت رکھتی تھی کیونکہ وہ اس طرزِ زندگی کو پسند نہیں کرتی تھی ۔کھیل ہی کھیل میں کسی کی رکھیل بننے کی بجائے اپنا گھر بسانا چاہتی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اُن کے دل فاصلوں کو سمیٹتے قریب تر آگئے وہاں ایک روز نجانے کیسے اُنکے جسموں
کی سازش کامیاب ہوگئی۔پھر یونہی ایک دو مرتبہ ایک دوسرے سے بلکہ اپنے آپ سے بھی انجان بنتے ہوئے اُنھوں نے اپنے جسموں کے حکم کی تعمیل کی اور آخر کو یہ انجانے پن کا خُول جو جذبوں کے بھر پور اظہار میں مانع تھا اُن کے جسموں کی باہمی ضرورت کے پیشِ نظر ختم ہو گیا اور وہ ایک دوسرے پر مزید کُھلتے چلے گئے۔شروع کے چند ماہ تو یوں گزرے کہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہی اُن پر نشہ طاری ہو جاتا۔اس کھیل کو شروع ہوئے کُچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ شنّو نے ایک خوفناک خبر سنا کر عیدو کا سارا نشہ ہرن کر دیا۔ اُس روز وہ شنّو سے ملنے گیا تو اُس کا پژمردہ چہرہ دیکھ کر اُس نے تیمارداری کی غرض سے اُس کا حال پوچھا مگر جواب سنتے ہی اُسے یوں لگا جیسے کسی نے یک دم ساری کی ساری زمین اُسکے قدموں تلے سے کھینچ لی ہو۔بازارِحسن میں اگرچہ یہ ایک عام سا واقعہ تھا مگر بات جگہ کی نہیں جذبوں کی تھی ۔اُسے خود سے گھن آنے لگی اُس نے سوچا کہ اگر وہ چند منٹ خواہش پرقابو پا لیتا تو آج اُسے اور شنّوکو یہ پریشانی نہ دیکھنی پڑتی۔
سوچوں کی اسی اُدھیڑ بُن میں اُس نے شنّوکو یہ کہہ کر تسلی دی کہ وہ جلد ہی اپنے باپ سے جاکر شادی کی بات کرے گا۔ اور کوئی نازک مرحلہ ظاہر ہونے سے قبل ہی وہ قانونی بندھن میں بندھ جائیں گے ۔جوانی کے بپھرے سمندر میں جذبوں کی نازک کشتی لے کر اُترنے والی شنّو نے یہ بھی نہ سوچا کہ اپنے اردگرد دیکھ لینے سے اُسے کتنی ہی ہمشکل کہانیاں چلتی پھرتی نظر آ سکتی ہیں۔ عدیل کی ڈھارس میں ایک ماہ مزید گذرا تو بات خاصی بڑھ چکی تھی۔ بھوک کی کمی اور متلیوں کی بہتات نے جہاں دیدہ، جہاں آرابائی کو سب ان کہی سنا ڈالی۔ اگلے ہی روزعدیل کی پیشی دادی کی عدالت میں پڑی۔ زبان سے کچھ کہنے کی بجائے اُس نے سننے میں عا فیت جانی اور آخر میں اُنھیں یہ یقین دلا کرچل دیا کہ وہ دس،بارہ یوم کے اندر اندر شنّو کو بیاہ لے جائے گا۔اور پھر وہی ہوا جو اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جایا کرتا ہے۔ باپ کے خوف اور ایک دوسرے خوبرو جسم کی بِساوٹ نے اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں سلب کر لیں اور یوں اُس کے جذبے ایک مرتبہ پھر اُس کے جسم و نفس کی سازش کا شکار ہو گئے۔
گھنٹے دنوں میں بدلے دنوں نے مہینوں کا روپ دھارا اور یوں آج اٹھائیس، انتیس سا ل بعد جبکہ وہ نا صرف یہ کہ چند بچوں کا باپ ہے ۔بلکہ والد کی وفات کے بعدسارے کا سارا کاروبار سنبھالے ہوئے ہے۔ ایک کاروباری کام کے سلسلے میں اس شہرآیا تو نجانے کس شوق اور جذبے نے اُس کا رُخ اس گلی کی طرف موڑ دیا ۔وہ گلی جس نے اُسے زندگی کے بہت سے اسرار و رموز سکھائے تھے۔کہتے ہیں یہاں سے مُنہ موڑ کر جانے والا اگر پلٹ آئے تو پتھر کا بن جاتا ہے اور اب ان نئی بلند و بالا عمارتوں کو دیکھ کر اُسکی حالت بھی کُچھ ایسی ہی تھی ۔اُس نے نیم تاریکی میں اُوپر کو جاتے زینے کو غور سے دیکھاتختوں کی کیلیں اپنی جگہ چھوڑکر چند سوت اُوپر کو نکل آئیں تھیں ۔ پاوٗں پڑتے ہی لکڑی کا تختہ ایک ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ نیچے کو لپکتااور اس سے قبل کے زینہ چڑھنے والے شخص کے مُنہ سے چیخ نکلے یک دم روک جاتا۔عدیل ڈرتے ڈرتے قدم اُٹھاتا اُوپر کی منزل پر پہنچ گیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ شنو اُسے پہچان پائے گی یا نہیں اور اگر پہچان گئی تو اُس کا کیا ردِعمل ہوگا ۔دوسری منزل پر پہنچ کر اسکی نگاہ شنو کے کمرے کے سامنے بنی روش پر لگی لکڑی کی سال خوردہ ریلنگ پر پڑی اور خیالوں میں ریلنگ کے سہارے نیچے کو جھکی شنّو گھوم گئی۔ وہ گلی میں کسی سبزی یا منیاری والے کی آواز سُنتے ہی اُسے بُلانے کے لیے ریلنگ پر دُہری ہو تی اور اُس کے جسم کا لوچ عدیل کے بدن کو جھنجھنا کر رکھ دیتا۔آواز سنتے ہی بلایا جانے والا ڈیوڑھی عبور کر کے نچلی منزل کے صحن میں آجاتا اور جو طلب کیا جاتا رسی سے بندھی ٹوکری میں ڈالتاشنّو دھیرے دھیرے رسی کھینچنے لگتی۔ ریلنگ پر زیادہ جھکنے پر عدیل چیخ وپکار کرتااور وہ اُسکی بُزدلی پر قہقہے لگاتے ہوئے ریلنگ پر مزید دُہری ہو جاتی۔ ایسے میں اُسکا جسم فضا میں ایک قوس بناتا اورمخروطی دائرے اُسکے جاندار قہقہوں سے یوں تڑپتے جیسے فضا میں بکھرجانے کو بے تاب ہوں۔
انہی خیالوں میں غلطاں و پیچاں عدیل پہلے کمرے کے دروازے تک پہنچا دروازے پر گرا ٹاٹ کابوسیدہ سا پردہ اُٹھایا تو نیم تاریک کمرے میں اُسے ایک بوڑھا چارپائی پر گٹھڑی بنا دکھائی دیا۔ عدیل نے چند قدم آگے چل کر غور سے دیکھا تو اُس کی نگاہوں میں ناٹے سے قد کااکّو چاچا گھوم گیاجو نچلی منزل سے اُوپر کی منزل تک کسی کِرمچ کی گیند کی طرح چکراتا پھر ا کرتا تھا۔ عدیل نے آگے بڑھ کر اُسکا کاند ھا ہلایا تو اکّو چاچا نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں اور کُراہ کر پہلو بدلنے کی کو شش میں اپنے فالج زدہ جسم کو مزید سکیڑا اور مشکل محسوس کرتے ہوئے اُسی حالت میں ڈھیلا چھوڑ دیا۔عدیل نے اُسکے جسم کو سیدھا کیا تو اُس نے شکر گذار نظروں سے عدیل کی جانب دیکھتے ہوئے نحیف آواز میں پوچھا "کون ہو بھائی۔۔؟”
اکّو چاچا۔۔میں ہوں عدیل ۔۔
کون عدیل؟۔۔۔اکّو چاچا پلکیں چھپکاتے ہوئے بولا
چا چا ۔۔ میں۔۔۔ وہ شنو ۔۔شنو کہاں ہے۔۔۔میں ہوں۔۔۔ عیدّو۔۔۔شنّو کا عیدّو۔۔۔وہ بہت سال پھ ۔۔۔
اچھا تو تُو ہے۔۔۔اپنا عیدّوہے۔۔۔۔اکّو چاچا نے نحیف آواز میں عدیل کا جملہ درمیان ہی سے کاٹتے ہوئے کہا،اور اُس کی آواز ڈوب گئی۔
چا چا۔۔چاچا۔۔۔۔۔وہ شنو کہاں ہے۔۔۔۔عدیل نے اُس کا کاندھا جھنجوڑتے ہوئے پوچھاتو اسے اکّو چا چا کا جسم قدرے زیادہ گرم محسوس ہوا۔
وہ تو مدّت ہوئی گئی۔۔اپنی دادی کے پیچھے پیچھے۔۔۔۔تیرے جانے کے بعد بچّی ہوئی تھی اُس کے۔۔۔۔۔۔تُو تو آیا۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔ اکّو چاچا نے پل بھر کے لیے آنکھیں کھول کراٹک،اٹک کر چند جملے کہے اور عدیل کی زندگی میں ایک نیا طوفان اُٹھا کر پھر آنکھیں موند لیں۔
چاچا۔۔چاچا۔۔ وہ۔۔وہ میری بچّی کہاں ہے۔۔؟
عدیل نے دوبارہ اُس کے کندھے جھنجھوڑے مگر وہ بے سدھ پڑا تھا۔
عدیل نے اس کا ماتھا چھوا تو اسے احساس ہوا کہ اکّو چاچا بُخار میں بھُن رہا تھا، نجانے کیوں اُسے یوں لگا جیسے اکّو چاچا ابھی دم دے جائے گا اور وہ چاہتا تھا کہ اُسے جلد از جلد اپنی بیٹی کے بارے میں پتہ چلے۔
عدیل نے پانی کی تلاش میں نگاہ دوڑائی تو اُسے کہیں بھی پانی کا برتن دکھائی نہ پڑا۔ وہ جلدی سے باہر کو لپکا اور ساتھ والے کمرے کی طرف بڑھا مگر دروازے پر تالا پڑا تھا۔عدیل تیز تیز قدم بڑھاتاتیسرے دروازے کاپردہ اُٹھا کر کمرے میں داخل ہوا کمرے میں ایک طرف چار،پانچ پرانے زنگ آلود کنستر جو یقیناًکبھی کھانے کی اشیاء رکھنے کے کام آتے ہوں گے اُوپر تلے اُوندھے سیدھے پڑے تھے۔ سامنے کی دیوار کے ساتھ دائیں کونے میں تیل والا چولہا رکھا تھا۔ایک طرف مٹی کے تین گھڑے رکھے تھے جن میں سے ایک پر سلور کا کٹورا دھراتھا۔عدیل نے کمرے کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے جلدی جلدی کٹوراگھڑے پر سے اُتارا۔ گھڑے کے پیندے سے لگا پانی روشنی منعکس کرتا چمک کر اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ اُس نے گھڑے کو اُندھا کرنے کی حد تک پہلو کے بل لٹاتے ہوے کٹورا بھرا اور اکُو چاچا کے کمرے کی طرف بھاگا چند قدم کا فاصلہ اُسے میلوں دُوری کی تھکن دے گیا۔ کمرے میں پہنچ کر عدیل نے اکُو چا چا کو پانی پلانے کی غرض سے سیدھا کیا تو حیرانگی نے اُسے پتھر کا بنا ڈالا۔بے حس پڑا اکُو چا چا زندگی کے آثار سے تہی اپنے سفید سفید ادھ کھلے دیدوں سے چھت کو گھور رہا تھا۔ کٹورا عدیل کے ہاتھ سے گرا اور میت کے سینے پر پانی بکھیرتا زمین پر جا رہا۔
دُکھ اتنا شدید تھا کہ عدیل ساکت و جامد کھڑا اُن بے نُور آنکھوں کو چند ثانیے تک یو ں گھورتا رہا جیسے کسی جنگل میں پھنسے رستہ بھولے شخص کے لاکھ بھاگ دوڑ کرنے کے باوجود اُسے تلاش کرنے واے امدادی کارکنوں کا جہازاُسے دیکھے بغیر سر پر سے گزر جائے اور وہ متوجہ نہ کر سکنے کے دُکھ سے اُسے دور جاتا دیکھ کر ہکا بکا اپنی جگہ ساکت وجامد کھڑے کا کھڑا رہ جائے۔ چند لمحے یونہی سا کت و جامد کھڑا رہنے کے بعد وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ سیڑھیاں اُترتے اُترتے اُسکی آنکھوں میں نمی اُتر آئی اور احساسِ ضیائع سے مغلوب آہ و بکا کرتا وہ اُس نیم تاریک حزن و ملال میں ڈوبی عمارت سے باہر نکل آیا "وہ تو مدت ہوئی مر گئی۔۔۔۔۔۔ تیرے جانے کے بعد بچی ہوئی تھی اُسکے۔۔۔۔ تُو تو آیا نہیں”
رہ رہ کر اُس کے دماغ میں اکُوچاچا کے الفاظ گونجنے لگتے اُس کی آہیں،ہچکیوں اور آنسوؤں میں بدل چکی تھیں۔ کندھاجھنجھوڑے جانے پر اُس کے حواس لوٹے تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ فٹ پاتھ کے بیچوں بیچ بیٹھا فریاد کُناں تھا ۔ چاروں اُورکھڑے لوگوں پر نظر پڑتے ہی وہ یکدم خاموش ہو گیااور یکے بعد دیگر آوازوں کے پتھر اس کی سماعت پر گرنے لگے۔۔۔۔۔
"دیوانہ ہے جی ،دیوانہ ۔۔۔۔”
"ہاہ۔۔ہا۔۔۔ لگتا ہے کسی نے کچھ پلا کر لوٹ لیا ۔۔اپنے ہوش میں نہیں بیچارا”
"او میاں! او یہ کوئی رونے کی جگہ ہے کیا؟یہاں سب غم غلط کرنے ،ہنسنے ہنسانے آتے ہیں”
"عاشق ہے بھئی عاشق۔۔۔۔یار کی گلیوں کے کھکھ رولتا ہے”
"تنگ نہ کرو یار،دُکھی لگتا ہے بچارہ”
ہجوم کے آوازے کسنے پروہ چپ چاپ اُٹھا اُس کے قدم بڑھاتے ہی مجمع کائی کی طرح پھٹ گیااور لوگوں میں راستہ بناتا وہ دائرے سے باہر نکل آیا۔اگلے ہی لمحے فٹ پاتھ یوں خالی ہوگیا جیسے کچھ ہواہی نہ ہو سب لوگ اُسے بھلا کر دوبارہ اپنے اپنے مشاغل میں مگن ہو گئے اور وہ سر جھکائے سوچوں کے طوفان میں گھرا آنسوں سے بھری دھندلی آنکھوں سے راستہ ٹٹولتالوگوں کی بھیڑ میں گُم ہو گیا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn