Qalamkar Website Header Image

دیمک

aamir

نوٹ : اس کہانی کے تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں اسے کسی خاص واقعے سے اور خاص حقیقی کردار پر محمول نہ کیا جائے

مجھ سے کیا پوچهتے ہو ، اس سے کیوں نہیں سوال کرتے ؟
وہ جهنجهلایا ہوا کہنے لگا
سر! آج کل ان کے ہاں تو بہت ‘کہر’ہے اور اس کہرکےاندر پهنسنے والوں کی آنکهوں میں تو بس ‘سفید رنگ کا اندها پن ‘ اتر آتا ہے اور وہ اس سفید اندهے پن کو روشنی سمجهنے لگتے ہیں
اس کے ایک اسٹوڈنٹ نے جواب میں اسے کہا تو وہ اور غصے میں آگیا اور کہنے لگا
تو کیا میں نے ‘سفید اندهے پن ‘کو روشنی خیال کرنے والوں کی جہالت ان پہ واضح کرنے کا ٹهیکہ لے رکها ہے ؟
لیکن سر! آپ ہی تو کہتے ہیں کہ وقت پہ اپنی باری پہ سچ بولنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے تو اب یہ موقع ہے سچ بولنے کا ، تو آپ بولیے نا سچ ، بتائیے نا اندهوں میں کانے راجے بنے لوگوں کی حقیقت
اس کا شاگرد ابهی بهی تهکا نہیں تها اس لیے بے تکان بولے جارہا تها
میں خاموشی کی زبان کی ایجاد کرنے میں لگا ہوں ، تم نے سقطی کو پڑها ہے ؟ اس نے پوچها
نہیں سر شاگرد نے جواب دیا
تو پڑهو نا ، محمد سقطی کو پڑهو گے تو معلوم ہوگا کہ مظلوم مقتول کی لاش کیسے خاموش ہوکر بهی خاموش نہیں رہتی اور اپنے قاتل کے ظلم کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرنے لگتی ہے ‘اور ایسے موقعہ پہ ‘سفید اندهے پن ‘کے شکار جعلی دانشوروں کی دانشوری کا پول بهی کهل جاتا ہے اور وہ جوکہ ‘زباں دراز ‘ہونے کا ڈرامہ رچائے ہوتے ہیں ‘بے زباں ‘ نکل آتے ہیں اور ان کا جعلی لباس دانش اتر جاتا ہے اور وہ ‘برہنہ ‘ہوجاتے ہیں
اس نے اپنے شاگرد کو جواب دیا
لیکن سر ‘کہر ‘ میں پهنسے دانشور تو کہتے ہیں کہ کے زیڈ کی لاش تو بندوق کے زور پہ اپنے قتل کی مذمت کا مطالبہ کررہی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ کے ذیڈ مقتول ایسا ہے جو قتل ہوکے بهی بلیک میل کرنے میں لگا ہوا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جو اس مقتول کو بیان کرسکیں اور ‘کہانی گر ‘ تو کہتا ہے کہ ابهی تک ایسا پلاٹ ہی نہیں بنا جس کی بنیاد پہ مقتول کے زیڈ پہ کہانی بنی جاسکے
شاگرد نے کہا تو اس نے کہا
میں اس پہ کوئی بات کرنا نہیں چاہتا ، خاموشی اس کا جواب ہے
میں اس پہ کچھ نہیں کہنا چاہتا
سر یہ سقطی کیا کہہ رہا ، شاگرد بولا
خاموشی کا کبهی مطلب خاموش رہنا نہیں ہوتا
اپنے مطلق خاموشی میں بہتر کلام کرتا ہوں
اگر مری زبان خاموش کردی جاتی ہے
تو مری آنکهیں ، مرے دست اور سب چیزیں بولنے لگتی ہیں
خاموشی دوسروں سے بات کا بہترین راستہ ہے
میں خاموشی کو بہتر خیال کرتا ہوں جب دوسرے کان نہیں دهرتے
یہ لائینیں پڑهتے ہوئے شاگرد کی آواز کبهی تیز ہوتی اور کبهی آہستہ ہوجاتی ہے
ہاں سقطی ٹهیک ہی تو کہتا ہے کہ جب لوگ ‘جعلی دانش ‘کے طاعون میں گِهر جاتے ہیں اور وہ اپنے کان اہل حق کی باتوں پہ نہیں دهرتے تو کے زیڈ جیسے دانشور اپنے ‘قتل ‘ کا اہتمام کرتے ہیں اور پهر ان کی ‘خاموشی ‘کلام کرنے لگتی ہے اور جعلی دانشور اپنے جرم کو چهپانے کے لیے ‘سچ کی کتابوں ‘ میں کیڑا لگ جانے کا بہانہ کرکے انهیں پکوڑے بیچنے والوں کو ردی میں بیچ ڈالتے ہیں اور اپنی بزدلی کا الزام ‘مقتول ‘ پہ دهرنے لگتے ہیں
وہ مخاطب اپنے شاگرد سے تها لیکن اس کی نظریں کہیں اور تهیں جیسے کہ وہ کسی بڑے مجمعے سے خطاب کررہا تها
سر کبهی دوستوں کو بهی کیڑا لگتا ہے ؟
شاگرد نے پوچها
اس سوال کو سن کر وہ مسکرادیا
یہ اپنے اندر لگی دیمک کا کمال ہوتا ہے کہ ہمیں دوست بهی ‘دیمک زدہ ‘لگنے لگتے ہیں اور ہم ان کو صف دوستاں سے خارج کرنے میں دیر نہیں لگاتے
اس نے کہا اور ساته ہی پوچها
تمہیں معلوم ہے کہ خاموشی کو معانی کا حمل کب ٹهہرتا ہے ؟
شاگرد نے نفی میں سر ہلایا
جب بهل بهل کرتا سرخ لہو زمین پہ گرتا ہے اور بولتے لب خاموش اور مقتول کا سارا بدن کلام کرنے لگتا ہے اور یہ متکلم بدن خاموش لبوں کے ساتھ قیامت برپا کرتا ہے اور بظاہر سانس لیتے اور بولتے لبوں کے حامل ‘مصلحت پسندوں ‘ کو بے چین کرتا ہے اور چور کی داڑهی میں تنکے کے مصداق ایسے مجرمانہ خاموشی کے حامل جعلی دانشور مقتول کے خاموش بدن پہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان کو زبردستی اپنے قتل کی مذمت پہ مجبور کررہا ہے
جب وہ یہ باتیں اپنے شاگرد سے کررہا تها تو شہر کے ناد علی چوک پہ مکمل گهپ اندهیرا چهایا ہوا تها بجلی کی لوڈشیڈنگ چل رہی تهی ایسے اچانک گولیوں کی برسات ہوئی اور دو افراد کو ان کے اپنے لہو میں غسل کا موقعہ فراہم کرگئی ، جرم کیا تها ان کا ؟ فقط یہ کہ ان کے نام مخصوص تهے اور اس خصوصیت سے قاتلوں کو اللہ واسطے کا بیر تها
اس واقعے پہ ‘کہانی ‘بنی جاسکتی ہے؟
اس نے خود سے کلام کیا
نہیں نہیں اسے کہانی میں بدلنا ممکن نہیں ہے
کیوں ؟
اس سے ایجنسیاں پیچهے لگ جائیں گی اور خطرات بڑه جائیں گے
کسی نے اسے جواب دیا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا
واقعی دیمک لگ گئی ہے کہانی کو اسے ردی میں بیچ ہی دیا جانا اچها ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »