Qalamkar Website Header Image

ان بارشوں سے کہہ دو کہیں اور جا کے برسیں

Faiza Chگزشتہ دنوں لاہور میں دو دن بارش جاری رہی اور اس بارش میں بچے بہت خوش تھے ۔گویا ہفتِ اقلیم کی دولت ہا تھ لگ گئی ہو۔ میں بھی بارش کا نظارہ کرنے چھت پہ گئی تھی کہ ایک آواز پر بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی۔کوئی نوجوان گا رہا تھا۔
ان بارشوں سے کہہ دو کہیں اور جا کے برسیں
یہ پاکستان ہے ، یہاں گوڈے گوڈے کیچڑ ہو جاتا ہے
میں نے سوچا کہاں تو یہی لوگ گرمی گرمی کی گردان لگائے رکھتے تھے اور بارش کی دعائیں مانگتے تھے ۔ اب بارش نے جل تھل کر دیا ہے ۔موسم خوشگوار ہو گیا ہے۔حبس کا خاتمہ ہو گیا ہے۔تو اب یہ نا شکری قوم بارش سے نالاں ہے۔اب اسکے ختم ہونے کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ہر گرمی میں انسان یہ جملہ ادا کرنا گویا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔
’’ اف یار اس دفعہ تو گرمی نے حد ہی کر دی ہے۔پچھلی دفعہ تو ایسی نا تھی۔‘‘
گویا پچھلی دفعہ سوئیٹرزلینڈ میں تشریف فرما تھے جناب ۔اور سردی میں بھی یہی جملہ موسم کی مناسبت سے بولا جاتا ہے۔
’’ جی اس دفعہ سردی اس قدر شدید ہے‘‘
نہ جانے ہم انسانوں کا المیہ کیا ہے ؟؟ ہم پاکستانی ہیں یہ ہمارا المیہ ہے؟ یا ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انسان ہیں ؟ میرا خیال ہے کہ یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم انسان ہیں ۔اور انسان فطرتاََ نا شکرا ہے۔اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے محمد حسین آزاد کی تصنیف مجھے عین فطرتِ انسانی کی تصویر لگی۔جس کا عنوان تھا ’’ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔‘‘
آزاد صاحب نے بہت ہی عمدہ پیرائے میں انسان کا المیہ بیان کیا ہے کہ نا شکری انسان کی فطرت میں شامل ہے اور وہ کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتا۔حتیٰ کہ اپنی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع مل جائے تب بھی انسان اپنی ہی منتخب کی ہوئی زندگی سے غیر مطمئن ہوگا۔آزادصاحب نے جس طرح ایک تصوراتی خاکہ تخلیق کیا گو کہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں ۔لیکن بالفرض ایسے ہی ایک تصوراتی میدان میں انسانوں کو اکٹھا کر لیا جائے ۔اور انہیں اجازت دی جائے کہ اپنی مرضی سے اپنی ناپسندیدہ بیماری،پریشانی ،دکھ ،تکلیف،خواہشات وغیرہ کو پھینک کے اس کے بدلے اپنی حسبِ منشاء خواہش یا آسائش لے لو تو سب انسان بڑے جوش و خروش سے ادل بدل کرنے لگیں گے لیکن اس ادل بد ل کے فوری بعد انسان نا خوش نظر آئے گا۔ کسی کو اپنی غربت کے بدلے لی گئی امیری میں عیب نظر آئیں گے توکسی کو اپنی خوبصورتی کے مقابلے میں بد صورتی بھائے گی۔ کوئی بڑھاپے کو غنیمت سمجھے گا تو کوئی بے اولاد ہونے کو ایک نعمت قرار دے گا۔
یہی حال ہمارا ہے،یا یوں کہیں کہ ہمارا ہی حال آزاد صاحب نے بیان کیا ہے۔کہاں تو ہم بارش کو ترستے رہے تھے اور جب قدرت نے بادلوں کے کے بندھن توڑ دئیے ہیں۔تو ہم ا س کے تھمنے کے لیے بیتاب ہیں ۔
دراصل ملک و قوم اور سرزمین کے حالات و واقعات بھی ایسے ہی چل رہے ہیں کہ انسان جلدباز ہو گیا ہے۔یہ یورپ تھوڑا ہی ہے جو بارش کے نظارے لیے جائیں ۔ فرانس، اٹلی،چائنا وغیرہ سے اکثر دوست بارش میں تصویریں بنا کر بھیجتے ہیں،کیا خوبصورت مناظر ہوتے ہیں دھلی دھلی سی سڑکیں صاف شفاف گلیاں ۔اور یہاں بارش سے پاکستان کے بیشتر علاقے زیرِآب آجاتے ہیں۔نکاسی کا ناقص انتظام ہے،کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہیں ۔لوگ غریب ہیں تو غریب تر ہیں ۔ جوامیر ہیں وہ امیر تر ہیں ۔غریبوں کے کچے مکانات اور ٹپکتی چھتیں خدا سے رحم کی اپیل کرتی ہیں۔لیکن جو چیز پاکستان میں ہے وہ کہیں اور نہیں اور وہ ہے آزادی۔ بارش ہو یا دھوپ انسان آزاد پنچھی کی طرح اڑتا پھر تا ہے ۔مرزا غالب بھی بارش کے موسم میں اپنے گھر کی صورتحال کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ،
’’ بارش اگر دو گھنٹے برستی ہے تو میرے گھر کی چھت چار گھنٹے‘‘
دراصل ہمیں بارش کے رکنے کی دعا کی بجائے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ اس بارش کو ہمارے لیے رحمت کی طرح برسا۔ اسے اپنے مجبور بندوں کے لیے زحمت میں نہ بدلنا۔ کیونکہ غریبوں کے لیے یہ رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔بعض اوقات فصلیں پکنے کے لیے بارش کا انتظار کرتی ہیں ۔تو اکثر بارش پکی ہوئی تیار کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیتی ہے۔
بارش کی وجہ سے ترسیل کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔جیسا کہ میڈیا میں ایک خبر آئی تھی کہ لاہور میں بارش کی وجہ سے لیسکو کے ۱۲۲ فیڈر ٹرپ کر گئے۔اسی طرح مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے۔لیکن سب سے بڑا مسئلہ ہمارے واپڈا کے لیے ہے۔ذرا سی تیز ہوا بھی چلے تو بجلی کی ترسیل بند کر دی جاتی ہے۔یوں گماں ہوتا ہے گویا واپڈا کی موسم کے ساتھ کوئی عداوت ہو۔کوئی پرانی دشمنی چل رہی ہو۔واپڈا کی دشمنی تو خیر پورے پاکستان کے ساتھ چل رہی ہے۔اور بجلی کسی لاڈلے اور اکڑو داما دکی طرح جھلک دکھا کر چلی جاتی ہے۔پانچ پانچ منٹ کی آنکھ مچولی سے لوگوں کے فریج جلیں یا کمپیوٹر انہیں پروا نہیں ۔
خیر ہم بارش سے متعلق انسان کے گلے شکوؤں کا ذکر کر رہے تھے ۔انسان کو صرف بارش سے ہی گلے شکوے نہیں ہوتے بلکہ انسان نے ہر چیز سے شکوے شکایتوں کا ایک انبار لگایا ہوتا ہے۔
اب پاکستان کی عوام اور حکومت کوہی لے لیں ۔پاکستان کی عوام حکومت سے کبھی خوش نہیں ہوتی۔اور خوش ہو بھی کیونکر حکومت کون سا عوام کو سونے کا نوالہ کھلاتی ہے۔ لیکن حکومت کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے وہ ہمیشہ عوام سے بہت خوش رہی ہے ۔چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو عوام کی وجہ سے ہی ہے۔عوام خود کو خرگوش سمجھ کرچالاکی کا مظاہرہ کرتی ہے۔لیکن حکومت کچھوے کی چال چلتی رہتی ہے۔
اب عوام سے پوچھا جائے کہ بھائی جب الیکشن ہوتے ہیں تو آپ لوگ ہی اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ کر کے کسی ایک پارٹی کو
اقتدار میں لاتے ہیں ۔پھر وہ پارٹی جو بھی کرے گلے شکوے کس چیز کے؟اقتدار میں آ کر تو سیاستدانوں نے بڑے بڑے کام کیے ہیں ۔کسی نے نیا پاکستان بنانے کے لیے پارٹی سنبھالی ہے تو کسی نے پرانے پاکستان کے بخیے ادھیڑ دیئے ہیں۔کسی نے دھرنے دینے کا ٹھیکہ لے لیا ہے تو کسی نے پاکستان کو یورپ بنانے کا۔اور الطاف حسین صاحب نے تو بالکل ہی حواس کھو دیے اور پاکستان مردہ آباد کے نعرے لگوا دیئے۔ا ب نعرے لگانے والے بھی عوام ہی تھے ۔بھئی عقل سے پیدل عوام کب سمجھے گی کہ ہر سیاسی پارٹی اپنے مفاد کے لیے عوام ہی کو استعمال کر رہی ہے۔وہ پی۔ٹی ۔آئی ہو یا ایم۔کیو۔ایم، مسلم لیگ ہو یا پھر عوامی تحریک۔عوام کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
خدارا کوئی اس ملک کے لیے بھی سوچ لو جس ملک پر حکومت کرنے کے لیے ساری توانائیاں خرچ کی جارہی ہیں۔پیسہ پانی کی طرح اور خون ندی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔خان صاحب شریف بردران کے پیچھے ہاتھ دھو کے بلکہ نہا دھو کے پڑے ہوئے ہیں ،توقادری صاحب کو دھرنوں سے فرصت نہیں۔پاکستان عجیب دوراہے پر کھڑا ہے۔ایک وسیع و عریض ریاست برصغیر کے نام سے دنیا کے نقشے میں موجود تھی۔ جس پر مسلمانوں نے ایک سو سال تک شاندار حکومت کی۔ لیکن جب اس ریاست پر انگریزوں کا غلبہ ہو گیا تو الگ ملک پاکستان حاصل کرنے کے لیے اتنے بڑے خطے میں ایک واحد سیاسی جماعت مسلم لیگ تھی۔اور آج اسی خطے کے چھوٹے سے ٹکڑے کے لیے ایک سو ایک جماعتیں گتھم گتھا ہیں ۔ہر دوسرے دن نئی جماعت منظر عام پر آرہی ہے۔گویا سیاسی جماعتیں انڈوں سے چوزوں کی طرح نکلتی چلی آرہی ہیں ۔اور ہر جماعت اپنے مفادات کی بات کرتی ہے۔ لیکن جیسے ہی کوئی صرف پاکستان کی بات کرتا ہے اسے اگلا سانس بھی نہیں لینے دیا جاتا۔ بھئی مجھے تو اپنی سانسوں کی بہت ضرورت ہے۔اس لیے میں اس بحث میں نہیں پڑتی ایسا نا ہو میری سانسوں کی ترسیل بند کر دی جائے۔
خیر ہم ذکر کر رہے تھے لاہور میں بارش سے پریشان حال انسانوں کا،پورا ساون تو عوام یہ گیت گاتی رہی۔
وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں ۔لیکن گزشتہ بارش نے لاہور میں جل تھل کر دی ہے۔ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ بچے بارش میں کاغذ کی کشتیاں بہا کر بارش کا مزہ دوبالا کر رہے تھے۔بچپن کا دور بھی بہت سہانا ہوتاہے۔بڑے ہوکر انسان ان دنوں کو بہت یاد کرتا ہے،اور پھر یہی خواہش کرتا ہے،
زندگی کاغذ کی اک ناؤ
بارش کا پانی ہوتی
فکروں سے دور یا رب
میں نہ کبھی سیانی ہوتی
بچپن کا حسین دور فکروں سے آزاد ہوتا ہے۔نہ چھت ٹپکنے کی فکر ہوتی ہے ،نہ فصلوں کے تباہ ہونے کا خدشہ۔لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے فکریں بڑتی گئیں،اب تو بارش کی پیش گوئی ہونے پر کسانوں کو فصلوں کی فکر گھیر لیتی ہے تو غریبوں کو چھت ٹپکنے کا خطرہ لاحق ہو جاتاہے۔عاشق تڑپنے لگتے ہیں تو پیادے سلگنے لگتے ہیں۔لیکن ان سب سے بے نیاز مخلوق بھی ہے۔جس میں بچے ، چرندپرنداور واپڈاشامل ہے جن کے لیے بارش خوشی کا پیغام لاتی ہے۔واپڈا تو عوام سے سارے حساب چکانے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۲۰۱۴ کی عید الفطر پے مسلسل ۳ دن بارش ہوتی رہی اور واپڈا بھی تین دن روٹھی بیوی کی طرح بجلی کی ترسیل بند کیے بیٹھا رہا۔لوگ استعمال کے پانی سے اس قدر تنگ تھے کہ واش روم کے لیے بارش کا ہی پانی اکٹھا کر کے استعمال کر تے رہے۔گویا پانی نہ ہو آبِ حیات ہو ۔محکمہ موسمیات نے ۳ سے ۴ دن تک بارش کی پیش گوئی کی تھی۔لیکن شاید اس نوجوان کی کہی بات قبولیت کی گھڑی تھی جو بارش کا سلسلہ رک گیا۔اور اب بارش کہیں اور جا کے برسنے کے موڈ میں ہے۔خیر بارش کہیں بھی ہو خدا سے یہی دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا اپنے گنہگار بندوں پر رحمت کی بارش برسا ۔آمین

حالیہ بلاگ پوسٹس