قوم کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والی عظیم ہستی کا نام استاد ہے۔استاد سے مراد ہر وہ انسان ہے جس سے ہم نے بلواسطہ یا بلا واسطہ ،کچھ سیکھا ،خواہ وہ ہنر ہو یا علم ۔
استاد کا یہ تعارف سراسر غلط ہے کہ وہ رسمی تعلیم کے کسی ادارے (اسکول ،کالج ،یونیورسٹی یا مدرسے) سے ہی وابستہ ہو۔
اس دن(عالمی یوم اساتذہ)کے موقع پر ہم کو چاہیے کہ اپنے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کریں ۔جب میں ماضی میں جھانکتا ہوں تو ایسے بہت سے اساتذہ یاد آتے ہیں ،جنہوں نے ہمارے اندر کوٹ کوٹ (مار مار)کر علم کا شوق پیدا کیا ۔
"اساتذہ کا عالمی دن” ہرسال 5 اکتوبرکومنایا جاتا ہے ۔پاکستان میں بھی”ورلڈ ٹیچرزڈے ” کوسلام ٹیچرڈے کے عنوان سے 2007 ء سے منایا جارہاہے جبکہ اقوام متحدہ نے 1994ء سے اساتذہ کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا ۔اس دن اساتذہ کی اہمیت،ذمہ داری ، معاشرے کی تشکیل میں ان کا مثبت کردار نیز انکے مسائل کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص کر حکومت کو احساس دلایاجائے تو یہی ہماری کامیابی ہے اور یہی اس عالمی دن کو منانے کا اصل مقصد بھی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور ﷺکو بحیثیت معلم بیان کیا ” اورنبی ان(لوگوں) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں۔” سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالی ہے اور خود نبی کریم ﷺنے بھی ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ‘‘ امیر المومنین حضرت عمر ؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں کوئی حسرت ہے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ ’’کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا میں اس کا غلام ہوں اب اس کی مرضی مجھے بیچے ، آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔ اسلام نے استاد کو ’’روحانی باپ ‘‘قرار دیا ہے ۔
ہمارے ملک میں اساتذہ بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ بات صرف سرکاری سکول کے اساتذہ کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی بلکہ پرائیویٹ سکول و کالج کے اساتذہ بھی انھی مسائل کا شکار ہیں۔ان کو اپنے بچے پالنے کے لیے ٹیوشن پرھانے کے علاوہ بھی کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کوئی سرکاری ٹیچراکیڈمی نہ بنا سکے تاکہ پرائیویٹ سکول و کالج کے اساتذہ اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں ۔لیکن جس طرح ہمارے ملک میں ہر کام میں الٹی گنگا بہتی ہے، ایسے ہی اس تعلیم کے شعبے میں بھی ہے کہ سرکاری سکول و کالج کے اساتذہ اکیڈمی بناتے ہیں ۔جیسے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر پرائیویٹ کلینک بناتے ہیں ۔
معاشی مسائل کے علاوہ کے علاوہ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اساتذہ کو وہ سماجی مرتبہ بھی حاصل نہیں جو ان کا حق ہے ۔
کسی ملک قوم کی ترقی کے لیے اس کے باشندوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔ تعلیم کو ہمارے ملک میں بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے تعلیمی نظام ناقص ہے ۔ اساتذہ کوتنخواہیں کم ملتی ہیں، نصاب تعلیم فرسودہ ہے ۔ پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہیں سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔یونیسکو اور عالمی ادارہ محنت نے سفارش کی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں ان کی تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے کم از کم اتنی ہونی چاہئیں کہ وہ باآسانی اپنےخاندان کی کفالت کرسکیں ۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اساتذہ نظام تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے مالی حالات اگر خراب ہوں گے تو وہ ذہنی سکون سے تعلیم نہ دے سکیں گے ۔
ساتھ ہی یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری سکول و کالج میں اساتذہ کے بارے میں ایک شکایت عام پائی جاتی ہے کہ وہ استاد کے کام کو ’’پیغمبری پیشہ‘‘ کہتے تو ہیں لیکن جتنی محنت سے وہ نجی ٹیوشن سینٹرز ، کوچنگ سینٹرز اور اکیڈمیز میں بچوں کو پڑھاتے ہیں، اتنی توجہ وہ اپنی سرکاری ڈیوٹی میں نہیں دیتے۔ اسی وجہ سے امتحانات کے نتائج کے حوالے سے پرائیویٹ سکول وکالج زیادہ کامیاب ہیں ۔حالانکہ سرکاری اساتذہ کو تنخواہ بھی اچھی ملتی ہے ۔ماضی میں اساتذہ کی تنخواہیں کم تھیں ان کا احترام بہت زیادہ تھا اور وہ محنت سے اپنی ذمہ داری بھی پوری کرتے تھے اب تنخواہوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن احترام میں کمی آگئی ہے اور ایسا شائد اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہمارے بہت ہی محترم عوامی شاعر جناب جبار واصف قوم کے معماروں اور اساتذہ کے پیارمحبت اور خلوص و عظمت کایوں اظہار کرتے ہیں۔
ہماری درسگاہوں میں جو سب اُستاد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں
سُنیں رُوداد ہم جب بھی کسی کی کامیابی کی
ہر اِک رُوداد میں یہ مرکزِ رُوداد ہوتے ہیں
یہی رکھتے ہیں شہرِ علم کی ہر راہ کو روشن
ہمیں منزل پہ پہنچا کر یہ کتنا شاد ہوتے ہیں
بَرَستے ہیں یہ ساوَن کی طرح پیاسی زمینوں پر
انہی کے فیض سے اُجڑے چمن آباد ہوتے ہیں
یہ پستی کو بلندی بخشتے ہیں اپنے کاندھوں کی
انہی کی کھوج سے سب ناموَر ایجاد ہوتے ہیں
جو کرتے ہیں ادَب اُستاد کا پاتے ہیں وہ رِفعَت
جو اِن کے بے ادَب ہوتے ہیں وہ برباد ہوتے ہیں
اگر رُوحانیّت سے باہمی رِشتہ جُڑے واصفؔ
تو پھر شاگر د بھی اُستا د کی اولاد ہوتے ہیں
ماضی قریب کا واقعہ ہے کہ مشہور ادیب مرحوم اشفاق احمد جب روم یونیورسٹی میں پروفیسر تعینات تھے تو ایک دفعہ انکا گاڑی چلاتے ہوئے چلان ہوگیا ،عدالت میں پیشی ہوئی ۔ دورانِ گفتگو جب جج کو پتہ چلا کہ وہ ٹیچر ہیں تو وہ اپنی کرسی چھوڑ کر احتراماََکھڑا ہوگیا۔ اساتذہ کے احترام کے حوالے سے بیرون ممالک یہی قومی طرز عمل ہے۔
یونیسکو، یونیسف اور تعلیم سے منسلک دیگر اداروں کی جانب سے اساتذہ کو درپیش مسائل کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے جس کی روشنی میں درج ذیل کچھ سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔
اول یہ کہ اساتذہ کو تحفظ دینے اور ان کی کارکردگی کو بہترین بنانے کے لیے پالیسی بنائی جائے۔دوم یہ کہ اس پیشے میں ایسے لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں جو تربیت یافتہ ہوں، جن میں تدریس کا شوق ہو۔سوم یہ کہ جو لوگ یہ پیشہ اختیار کرنا چاہیں انہیں درس و تدریس شروع کرنے سے پہلے تربیت دی جائے ۔چہارم یہ کہ اساتذہ کو ان علاقوں میں بھیجا جائے جہاں انکی اشدضرورت ہے ۔پنجم یہ کہ ملازمت کے دوران انہیں ہر طریقے سے سپورٹ کیا جائے، اچھی کارکردگی کو سراہا جائے اور ان کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کار صاف و شفاف ہو۔ انہیں با اختیار بنایا جائے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn