نہیں باجی اگر ہم یہ بات ٹی وی اور اخبار والوں کو بتائیں گے تو وہ پھر ہمارے گھر بار بار چکر لگائیں گے اور ہماری باتیں ریکارڈ کریں گے ہماری تصویر اخبار میں چھپے گی اور ٹی وی پر بھی چلے گی ہم اصل میں پردہ دار شریف اور غریب لوگ ہیں ۔ہمارا خاندان یہ سب برداشت نہیں کرے گا اور طعنے دے دے کے جینا مشکل کر دے گا کہ تمہاری عورتیں غیر مردوں کے سامنے آتی ہیں ان سے بات کرتی ہیں اور ان کی تصاویر ٹیلی ویژن پر بھی چلتی ہیں ۔نا باجی نا ہمارے میں اتنی جرات نہیں ہے بس ہم اپنی بچی کا علاج کروا لیں گے یا اسے دنیا سے چھپا کے رکھیں گے ۔یہ سب باتیں ایک مریضہ کے ساتھ آنے والی خاتون نے کہیں اور ساتھ ہی اپنی بچی کے علاج کے لیے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھنے لگیں ۔
ان خاتون کا کہنا تھا کہ میری بیٹی 11 سال کی ہے چوتھی کلاس میں پڑھتی تھی 6 ماہ پہلے ایک دن سبق یاد نہ کرنے پر استانی نے اس کے سر میں تھپڑ اور ڈنڈے مارے پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو بچی کو 15 منٹ کے لیے باتھ روم میں بند کر دیا اور پھر وہ پندرہ منٹ چار گھنٹے گزرنے کے بعد استانی صاحبہ کو یاد آئے ۔جب بچی کو باتھ روم سے نکالا تو وہ تقریبا بے ہوش تھی اور پھر ہوش آنے سے لیکر آج تک وہ اپنا نام بھی نہیں بتا سکتی ۔سکول جانا بھی چھٹ گیا ہے سارا دن پانی سے کھیلتی کبھی رونے لگتی ہے کبھی سارے گھر میں بلاوجہ جھاڑو لگاتی رہتی ہے ۔نہ اسے دن کا پتا چلتا ہے نہ رات کا۔ سوئی ہے تو دودو دن سوتی ہے نہ سوئے تو چار چار دن نہیں سوتی اور جتنی دیر جآگتی ہے بے تحاشا کھاتی ہے پھر میں اسے مارتی ہوں روتی ہوں اور خود بیمار ہو جاتی ہوں۔ماں ہوں نا تو اس کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔
قصور کس کا ہے بھلا بچہ ہے تو کبھی سبق یاد ہوتا ہے کبھی نہیں بھی ہوتا تو اس کامطلب بچے کو اتنی بھیانک سزا دینا تو ہر گز نہیں۔اگر الله کے فضل سے چار کتابیں پڑھ لی ہیں اور برسر روزگار بھی ہو گئ ہیں اور اختیار بھی مل گیا ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ بچوں کا جینا حرام کردیا جائے جو بات پیار سے سمجھائی جا سکتی ہے اس کے لیے مار پیٹ کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ ۔
معلمی کا پیشہ تو پیغمبری پیشہ کہلاتا ہے اور پھر آیک عورت ہوتے ہوئے ماں ہوتے ہوئے کچھ تو اس استانی نے بچی پر ترس کھایا ہوتا ۔اس متاثرہ بچی کا خاندان اس کے علاج پر پیسہ بھی خرچ کر رہا ہے اور پریشانی الگ کہ بچی کا کیا بنے گا ۔
بے شک ہمارے ہاں اچھے اساتذہ کی کمی نہیں پر سکول سے لیکر یونیورسٹی تک بہت سے اساتذہ کرام نہ صرف ہتھ چھٹ بلکہ زبان بھی بازاری استعمال کرتے ہیں۔ ۔کیا فائدہ ایسے پڑھنے لکھنے کا اگر آپ ایمانداری سے ان بچوں کو پڑھا اور سکھا نہیں پاتے جس کی آپ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ایک بہترین استاد نہ صرف استاد بلکہ رول ماڈل بھی ہوتا ہے بچے ہمیشہ ماں باپ سے زیادہ استاد کی بات پر توجہ دیتے ہیں۔اسے اگر عورت ہو اور ماں بھی ہو تو توقعات بڑھ جآتی ہیں۔پر جہالت کا مقابلہ بھی تو مشکل ہوتا جا رہا ہے آخر ہم اپنے بچے کہاں لے جائیں اور ان کو کہاں سے پڑھائیں ۔تشدد اور بدزبانی تو بہرحال مسئلے کاحل ہر گز نہیں ہیں۔کاش کہ بہت سے اساتذہ کرآم ڈاکٹر انوار احمد جیسے ہوں جو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ جنوبی پنجاب کے بےشمار بچوں کو نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ کریں بلکہ ان کے لیے مشعل راہ بھی ہوں۔اللہ پآک اس استانی صاحبہ کو بھی ہدایت دے تاکہ آنے والی نسلیں اس کے شر سے محفوظ رہیں۔


ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn