عمل اور رد عمل ایک فطری عمل ہے ۔انسان وہی کاٹتا ہے جو وہ بوتا ہے ۔پاکستان میں بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی لوٹ مار نے ملک کو اندھیروں میں گھسیٹا۔کرپشن کی بھرمار اور احتساب کے نہ ہونے کے سبب آزادانہ طور پر کساد بازاری جاری رہی ۔ملکی تاریخ میں پاناما کیس سے پہلے کبھی بھی کسی بڑے سیاست دان اور حکمران کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔لیکن اس بار رت بدلی ہے امید کی کرن پھوٹ پڑی ہے۔ مایوسی کے سیاہ بادل آسمان سے اوجھل ہونے کو ہیں ۔اس بار شریف خاندان انصاف کے کٹہرے میں ہے ۔ان سے وہ افسران تفتیش کر رہے ہیں جو ان کے ماتحت ہیں ۔اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو یہ وزیر اعظم کے لئے شرمناک ہے ۔ صاف تحقیقات کے جے آئی ٹی کے ممبران اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بار بار یہ کہتی رہیں کہ نواز شریف کے ہوتے ہوئے صاف تحقیقات کا ہونا ناممکن ہے۔سپریم کورٹ کے معزز ججز نے اپنی نگرانی میں جے آئی ٹی تشکیل دینے کا کہا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ یہ تحقیقاتی ٹیم صاف تحقیقات کرے گی ۔حکمران جماعت کی جانب سے بھی (بظاہر) حمایت کی گئی اور کہا گیا کہ ہمیں جے آئی ٹی کا ہر فیصلہ قبول ہوگا۔لیکن جوں جوں 60 دن کی مدت ختم ہو رہی ہے حکومتی جماعت میں اضطراب اور بے قراری بڑھتی ہی نظر آ رہی ہے ۔حکومتی نمائندے جے آئی ٹی کو اپنی تنقید کے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں ۔جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔جے آئی ٹی ارکان کی ساکھ پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں ۔اس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے جس سے تحقیقات بری طرح متاثر ہوسکے۔ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندگان پر بھی اُنگلیاں کھڑی کی گئیں ۔ایک سیدھا سا سوال نقش ہو کر سامنے آتا ہے کہ اگر دامن صاف ہے تو پھر تحقیقات کوئی بھی کرے اور بقول حکومت کے ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے تو ایسے میں بھی ان کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ایسا تب ہی ہوتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ دال میں کالا ہے۔لیکن یہاں پوری کی پوری دال کالی نظر آتی ہے ۔واٹس ایپ کال کی کہانی شائع ہونا ،جے آئی ٹی کے دو نمائندگان پر سوالیہ نشان اُٹھانا ۔شہباز شریف ،طلال چودہری ،نہال ہاشمی کی عدلیہ اور جے آئی ٹی کے خلاف بڑھتی ہوئی زبان درازی،ایم آئی ،آئی ا یس آئی کے نمائندگان پر بھی اعتراض یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا یہ ایک منصوبہ بندی ہے تاکہ تحقیقات کو سبوتاژ کیا جاسکے۔وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ حکومت کے پاس جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کرنے کی آپشن بھی موجود ہے۔واٹس ایپ کال کی خبر تو سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان پر براہ راست حملہ تھا۔ اس کے بعد نہال ہاشمی نے جو ڈرامہ رچایا وہ سب کے سامنے ہے۔انہوں نے پہلے اپنے بیان کو شوق سے ریکارڈ کیا اور جب دیکھا کہ میڈیا پر اس کو اتنی پذیرائی نہیں ملی ۔تو انہوں نے خود اسے اپنے ہاتھوں سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا کہ میں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کو دیکھا اور پسند کیا جائے ۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان سے یہ بیان دلوایا گیا تو اس کی بھی ٹائمنگ بالکل درست نہیں تھی ۔ایسے وقت میں جب حکمران جماعت جے آئی ٹی کے خلاف محاذ آرائی پر اُتری ہوئی تھی ایسے میں نہال ہاشمی کا بیان خود کش حملے سے کم نہیں تھا۔نہال ہاشمی کا بیان وزیر اعظم نے دلوایا یا نہیں اس بات کا فیصلہ عوام کو خود کرنا چاہئے۔اس بات کا نتیجہ نکالنے کے لئے شریف خاندان کے ماضی میں جھانکا جاسکتا ہے ۔ماضی کے نقوش بتاتے ہیں کہ شریف خاندان اپنی مفاد کی خاطر عدلیہ کو خریدنے اور دباؤ ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی ۔
19دسمبر 20144 کو نواز شریف شہباز شریف اور باقی خاندان کو حدیبیہ پیپر ملز کیس سے جج انوار احمد نے باعزت بری کر دیا ۔طیارہ سازش کیس کی بات ہو تو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔اس مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ نے نواز شریف کو فوجی سربراہ کا جہاز اغوا کرنے کے الزام میں قصور وار قرار دیتے ہوئے دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔مہران بینک اسکینڈل میں کسی کو سزا نہیں ملی ۔کسی کو جراؑت نہیں ہوئی کہ اس کیس کو کھول سکے۔ پچھلے دور میں شہباز شریف کےخلاف کیس کی پورے پانچ سال تاریخ ہی نہیں نکلی ۔میاں نواز شریف کے پچھلے دور حکومت میں مبینہ طور پر سابق جج جسٹس عبدالقیوم اور سیف الرحمن کی آڈیو ٹیپ نے پاکستان کے نظام عدل کے بارے میں بنیادی سوال اُٹھائے۔سپریم کورٹ میں جسٹس سجاد علی شاہ پر مسلم لیگی کارکنوں کا حملہ جوکہ تاریخ تھا۔وزیر اعظم توہین عدالت کے الزام میں ملزم کی حیثیت سے کھڑے تھے اور اسی دوران مسلم لیگی کارکنوں نے عدالت پر دھاوا بول دیا۔جسٹس سجاد علی شاہ اور سپریم کورٹ مردہ باد کے نعرے لگائے گئے ۔یہی نہیں نواز شریف نے جسٹس سجاد علی شاہ کو اُن کے ساتھیوں کے ہاتھوں ہی برطرف کروایا ۔انتقام کی آگ یہیں نہیں بجھی ۔انہوں نے ان کی پنشن تک روک دی ۔ایڈوکیٹ اکرم شیخ نے جب پنشن کے حوالے سے ان کا کیس لڑنا چاہا تو نواز شریف نے ان پر بھی دباؤ ڈالا جس کے بعد وہ اس کیس سے پیچھے ہٹ گئے۔اس کے علاوہ نیب کی فہرست میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف شامل ہیں۔نواز شریف اور شہباز شریف پر رائیونڈ سے شریف فیملی ہاؤس تک 126 ملین کی سڑک تعمیر کرنے کے الزام میں نیب نے انکوائری کی نیب میں نواز شریف پر 32ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنا لیکن سب کچھ اُڑن چھو ہوگیا۔اس بار بھی شریف خاندان اپنی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔اس بار دال نہیں گل رہی تو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اُتر آئے ہیں ۔شریف خاندان کا عدالت سے ماضی کا (بہترین) سلوک دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ نہال ہاشمی اپنی زبان میں بات کر رہے تھے یا ان میں نواز شریف بول رہے تھے۔اپنا حساب دینے کی بجائے عمران خان پر نا اہلی کیس ،بنی گالہ اراضی کیس ،تجاوزات کیس ،پارٹی فنڈنگ کیس حکومتی انتقام ہے ۔اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اتنے کیسز بنانا حکومتی بدنیتی ہے ۔جب پاناما کی شورش اتنی دیر سے برپا ہو رہی تھی اور خان صاحب شریف خاندان کے احتساب کی بات کرتے تھے تب تو کسی کو ان کے خلاف مقدمہ بنانے کا خیال نہیں آیا ۔اور مقدمے کی پٹیشن بھی اُس شخص نے دائر کی جس کا دامن خود صاف نہیں جس پر ایفیدرین کوٹہ لینے کا الزام ہے ۔ماضی اور حال اداروں پر ظلم ،جبر تناؤ اور انسانی ضمیروں کی سودا بازی سے بھرا پڑا ہے ۔لیکن فطرت کا قانون ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔رنگ بدلتا ہے آسمان کیسے کیسے ۔ظلم اور نا انصافی کا باب کھلا ہے تو بند بھی ہوگا آخرشام ہے تو صبح بھی ہوگی ۔اندھیرا ہے تو اُجالا بھی ہوگا۔ملک پر تخت نشین ہونے والے آخر یہ جان ہی جائیں گے
ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn